ہند چین کشیدگی اور کشمیر

372

بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے پانچ اگست کا فیصلہ لینے کے بعد کشمیریوں کو یہ یقین دلانے کی کوشش کی تھی کہ جموں وکشمیر کی ریاستی حیثیت کو بحال کیا جائے گا اور یونین ٹیرٹیری کی حیثیت کو واپس لیا جائے گا۔ اس کے ساتھ ریاستی اسمبلی کے انتخابات منعقد کرانے کا وعدہ بھی مسلسل کیا جاتا رہا۔ اب جبکہ کشمیر سمیت بھارت میں لوک سبھا انتخابات ہورہے ہیں اس کے باوجود کشمیر نہ تو ریاست کی شکل میں سامنے آسکا اور نہ ہی یہاں ریاستی اسمبلی کے انتخابات کا انعقاد ہوا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بھارتیا جنتا پارٹی کو کشمیری عوام میں کوئی قبولیت حاصل نہیں ہو سکی۔ عوام کے جحانات بدستور مقامی کشمیری جماعتوں فاروق عبداللہ کی نیشنل کانفرنس اور محبوبہ مفتی کی پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کی طرف ہیں۔ گوکہ یہ جماعتیں باہم دست وگریباں ہو کر بی جے پی کا کام آسان کر رہی ہیں مگر اس عوام چار وناچار انہی جماعتوں کو آخری آپشن کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔ باہم دست وگریباں اور متحارب جماعتوں کا اتفاق ہے کہ بی جے پی ان جماعتوں کے مقابلے کے لیے پراکسی کشمیری جماعتوں کا استعمال کر رہی ہے جن میں الطاف بخاری کی اپنی پارٹی اور سجاد لون کی پیپلزکانفرنس شامل ہیں۔

بھارت اپنے طور پر مسئلہ کشمیر ’’حل‘‘ کیے بیٹھا ہے مگر علاقائی سیاست کے بدلتے ہوئے رنگ کوئی اور کہانی سنا رہے ہیں۔ اس حوالے سے امریکی انٹیلی جنس نے اپنی سالانہ رپورٹ میں خدشہ ظاہر کیا ہے کہ بھارت کے چین اور پاکستان کے ساتھ تصادم کا خطرہ ہے۔ امریکا کی نیشنل انٹیلی جنس کے ڈائریکٹر نے 12مارچ کو یہ رپورٹ جاری کی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ 2020 کے بعد چین اور بھارت کے درمیان کوئی بڑا فوجی تصادم تو نہیں ہوا لیکن اندازے کی کوئی بھی غلطی دونوں ملکوں کے درمیان مزید کشیدگی کا باعث بن سکتی ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بھارت اور چین کے درمیان مشترکہ متنازع سرحد باہمی تعلقات پر اثر انداز ہے۔ دونوں نے سرحد پر بڑی تعداد میں فوج کو تعینات کر رکھا ہے۔ دونوں کے درمیان چھوٹے موٹے تصادم کسی مسلح تصادم کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتے ہیں۔ رپورٹ میں پاکستان کے حوالے سے کہا گیا کہ دہلی اور اسلام آباد 2021 کے اوائل میں کنٹرول لائن کی تجدید کے بعد پرامن تعلقات بنائے رکھنا چاہتے ہیں۔ امریکی انٹیلی جنس کی یہ رپورٹ اس وقت سامنے آئی ہے جب بھارت کی طرف سے بلیسٹک میزائل اگنی فائیو کا تجربہ کیا گیا ہے۔ بھارت کے کئی مبصرین اور حکومتی شخصیات نے چین اور بھارت کے درمیان کشیدگی کو تسلیم تو کیا مگر یہ کشیدگی کسی بڑے مسلح تصادم کا باعث بن سکتی ہے، اس امکان کو رد کیا۔ بھارتی وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے بھی امریکی انٹیلی جنس کی رپورٹ کی سنگینی کو کم کرتے ہوئے کہا کہ کشیدگی سے کسی بھی ملک کو فائدہ نہیں۔ ہم چینی حکومت کے ساتھ رابطے میں ہیں جنتی جلدی اس مسئلے کو حل کر لیا جائے اتنا ہی فریقین کے مفاد میں ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ گلوان تصادم کی صبح بھی انہوں نے چینی وزیر خارجہ سے بات کی تھی۔

امریکی انٹیلی جنس کی رپورٹ میں بھارت کے چین اور پاکستان کے ساتھ تصادم کی بات تو کی گئی ہے مگر ساتھ ہی پاکستان کی طرف سے سیز فائر معاہدے پر عمل درآمد میں دلچسپی کا بھی معنی خیز انداز میں ذکر کیا گیا ہے۔ بھارت کا اصل درد ِ سر خطے میں دومحاذوں کی جنگ رہا ہے۔ صرف بھارت کا ہی نہیں امریکا اور مغرب کا مسئلہ بھی ہمیشہ سے یہ رہا ہے کہ چین اور بھارت کے کسی ممکنہ تصادم میں پاکستان عملی طور پر شریک ہو کر کشمیر کی کنٹرول لائن کا اسٹیٹس کو توڑنے میں کامیاب نہ ہو۔ چین ہمیشہ سے اس کوشش میں رہا ہے کہ جب بھی بھارت کے ساتھ اس کی مڈبھیڑ ہو پاکستان اپنا قرض چکانے کے لیے آگے بڑھ کر کشمیر میں پیش قدمی کرے۔ 1962 کی ہند چین جنگ میں بھی چین نے پاکستان کو اس موقع سے فائدہ اُٹھانے کو کہا تھا اور بعد میں یہ موقع گنوانے پر چینی قیادت نے دبے لفظوں میں شکوہ بھی کیا مگر امریکا اور مغربی طاقتوں نے پاکستان کو اس جنگ میں کودنے سے منع کیا اور یہ جھانسا دیا کہ وہ مذاکرات کے ذریعے مسئلہ کشمیر کا قابل قبول حل تلاش کرنے میں دونوں ملکوں کی مدد کریں گے۔ یوں پاکستان اس جنگ میں نیوٹرل ہوگیا مگر چند ہی برس بعد پاکستان کو کشمیر میں آپریشن جبرالٹر کو منظم کرنا پڑا جو 1965 کی پاک بھارت جنگ پر منتج ہوا۔ اب چند برس سے پاکستان جن حالات کا شکار ہے اس کی ایک اہم وجہ پاکستان اور چین کے درمیان دومحاذوں کی جنگ کا فوجی ڈاکٹرائن ہے۔ امریکا کی کوشش ہے کہ پاکستان بھارت کے ساتھ اپنے اختلافات کو چین بھارت کشیدگی سے الگ رکھے اور کسی جنگ میں طاقت کا توازن خراب کرنے میں فریق کا کردار ادا نہ کرے۔

امریکی انٹیلی جنس کی رپورٹ میں چین بھارت تصادم میں پاکستان کا ذکر تو ہوا ہے مگر یوں لگتا ہے کہ انہیں بڑی حد تک اطمینان ہو گیا ہے کہ پاکستان کسی جنگ کے بجائے جنگ بندی کے معاہدے کو ہی جاری رکھنے میں دلچسپی رکھے گا گویا کہ پاکستان ایک بار پھر 1962 کی پوزیشن قبول کرنے پر آمادہ ہو گیا ہے جب وہ چین اور بھارت کے تصادم میں نیوٹرل رہنے پر آمادہ ہوگیا تھا۔ اس کے برعکس چین اور بھارت کے درمیان کشیدگی کا گراف بڑھتا جا رہا ہے اور اس بار اس کشیدگی کا ایک نیا میدان سامنے آیا جو مالدیپ ہے۔ مالدیپ کے انتخابات میں محمد معیزو کے برسر اقتدار آنے کے بعد ہی اس ملک کا جھکائو بھارت کے بجائے چین کی طرف ہونے کے آثار پیدا ہو گئے ہیں۔ محمد معیزو نے انتخابی مہم میں مالدیپ سے بھارتی فوجیوں کے انخلا کا نعرہ لگایا تھا۔ مالدیپ بھارتی اثر رسوخ کا حامل علاقائی ملک تھا۔ جہاں کوئی بھی نومنتخب حکمران سب سے پہلے بھارت کا دورہ کرتا تھا مگر اس بار محمد معیزو نے اس روایت کو بدلتے ہوئے منتخب ہونے کے بعد سب سے پہلے چین کا دورہ کیا۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے بھارتی فوج کو مالدیپ سے انخلا کا الٹی میٹم دیا۔ جس کے بعد مالدیپ سے بھارتی فوجی نکلنا شروع ہو گئے ہیں۔ بھارت نے دعویٰ کیا ہے انہوں نے مالدیپ کو جو فوجی ہیلی کاپٹر تحفے میں دیے تھے ان کو آپریٹ کرنے کے لیے اس کے اسی فوج مالدیپ میں تعینات تھے جنہیں اب واپس بلایا جا رہا ہے۔

یہ تو اس مسئلے کی مختصر کہانی ہے جو بھارت کی طرف سے بیان کی گئی ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ مالدیپ میں بھارت کا اثر رسوخ خشکی اور سمندر میں چین کی جاسوسی کے لیے اہم تھا اور چین نے مالدیپ میں آنے والی سیاسی اور پرامن تبدیلی کو قالین اُلٹ ڈالنے کے لیے استعمال کیا۔ اب مالدیپ کو بھارت اور چین کے درمیان ایک نیا ’’یوکرین‘‘ بنتا دیکھ رہے ہیں۔ اسی کشیدہ ماحول میں بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے ارونا چل پردیش کا دورہ کیا۔ اس دورے پر چینی حکومت نے شدید احتجاج کیا اور کہا کہ چین کبھی بھی نام نہاد ارونا چل پردیش کو تسلیم نہیں کرتا یہ زنگنان کا علاقہ چین کا حصہ ہے۔ ہندوستان کو غیر قانونی طور پر زنگنان کے علاقے کو ترقی دینے کا کوئی حق حاصل نہیں۔ ہندوستان کے ایسے اقدامات سرحدی تنازعات کو مزید پیچیدہ کریں گے اور دونوں ملکوں کے درمیان سرحد ی معاملات کو متاثر کریں گے۔ چین اس متنازع علاقے کو تبت کا حصہ قرار دیتا ہے اور علاقے کے لوگوں کو بھارتی پاسپورٹ پر ویزہ بھی جاری نہیں کرتا۔ لداخ کی طرح یہ محاذ بھی بھارت اور چین کے درمیان تنازعے کی سنگینی کو بڑھانے کا باعث بن رہا ہے۔ جب بھی بھارت کا کوئی اہم سرکاری عہدیدار اس علاقے کا دورہ کرتا ہے تو چین احتجاج اور اعتراض کو اپنا حق سمجھتا ہے۔ چین اور بھارت کی علاقائی کشمکش کی زد کئی ملکوں پر پڑ رہی ہے اور اب پانچ لاکھ آبادی کا حامل ملک مالدیپ بھی دونوں ملکوں کے اس کراس فائر میں پھنستا ہوا محسوس ہو رہا ہے۔ مالدیپ چونکہ بحرہ ہند کی گزرگاہوں اور دفاعی پوزیشنوں پر نظر رکھنے کے لیے خاصی اہمیت کا حامل تھا اس لیے چین کے ہاتھوں اس اہم اسٹرٹیجک پوزیشن سے محروم ہونے کے بعد بھارت کی انا زخمی ہو گئی ہے اور یہی زخم کسی مسلح تصادم میں ڈھل سکتے ہیں اور یہ بات امریکی انٹیلی جنس کی رپورٹ بیان کی گئی ہے مگر یہ سوال اہم ہے کہ اس ممکنہ تصادم میں پاکستان کا کردار حسب روایت نیوٹرل ہی رہے گا یا نہیں؟۔ کشمیر پر کچھ حاصل ہونے کا امکان اب صرف اسی تصادم میں باقی تھا۔ کشمیر کی زمین مسئلہ اور کوئی قدم اُٹھانے کی صلاحیت کی ساری قالین ہی پاکستان کے پیروں تلے سے کھینچ لی گئی ہے اور اب پاکستان کشمیر کی بننے والی درگت کو صرف ایک مجبور تماشائی کی حیثیت سے ہی دیکھ سکتا ہے۔