ایسے ہوتے ہیں انٹرا پارٹی الیکشن

394

گزشتہ چند دنوں سے جماعت اسلامی پاکستان نے ملک کی سیاست میں ہلچل اور دھوم مچا رکھی ہے جب سے اس نے جمہوری روایات کو برقرار رکھتے ہوئے اپنے چھٹے امیر کا انتخاب کرایا جس کو الیکشن کمیشن آف پاکستان کی اصطلاح میں انٹرا پارٹی الیکشن کہتے ہیں جس کا گزشتہ ایک ڈیڑھ سال سے چرچہ بھی رہا ہے۔ جماعت اسلامی کے دستور کے مطابق امیر جماعت کا انتخاب پانچ سال کے لیے ہوتا ہے اور یہ سلسلہ جماعت کے قیام یعنی 1941 سے جاری و ساری ہے جماعت اسلامی کے پہلے امیر اس کے بانی مولانا سید ابوالا مودودی تھے جو 1941 سے 1972 تک امیر جماعت رہے دوسرے امیر میاں طفیل محمد تھے جو 1972 سے 1987 تک اور تیسرے امیر قاضی حسین احمد جو 1987 سے 2009 تک امیر جماعت اسلامی پاکستان رہے۔ چوتھے امیر سید منور حسن تھے جو 2009 تا 2014 تک امیر جماعت اسلامی رہے۔ جماعت اسلامی کے پانچویں امیر محترم سراج الحق تھے جن کا دورانیہ 2014 سے 2024 تک رہا اور اب چھٹے امیر کا انتخاب عمل میں آیا ہے قابل ذکر اور توجہ طلب بات یہ ہے کہ ان چھے امرائے جماعت کے درمیان کوئی رشتہ داری نہ تھی اور نہ ہی یک زبان یا یک قوم (قومیت) تھے ان میں اردو بولنے والے بھی تھے پنجابی بھی اور پشتون بھی تھے ان کے درمیان اگر کوئی قدر مشترک رہی تو وہ اسلام اور پاکستان ہے۔

جماعت اسلامی کے دستور کے مطابق مطابق ہر پانچ سال بعد امیر کے حلف اٹھانے کی تاریخ سے 90 دن قبل نئے امیر کے انتخاب کا عمل شروع ہوتا ہے پہلے مرحلے میں جماعت اسلامی کی مجلس شوریٰ ایک الیکشن کمیٹی تشکیل دیتی ہے پھر صلاح و مشورے کے بعد تین نام الیکشن کمیٹی کو ارسال کر دیے جاتے ہیں الیکشن کمیٹی بیلٹ پیپر پر ان تینوں افراد کے نام بیلٹ پیپر پر پرنٹ کرا کر اراکین جماعت کو ارسال کر دیتے ہیں پھر کثرت رائے کا احترام کرتے ہوئے امیر کے نام کا اعلان کر دیا جاتا ہے۔ امسال یہ سلسلہ 19 فروری 2024 کو شروع ہوا مجلس شوریٰ نے تین نام جن میں ایک سابق امیر جماعت اسلامی محترم سراج الحق، دوسرے نائب امیر جماعت اسلامی محترم لیاقت بلوچ اور تیسرے امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمن تھے۔ یہ جماعت اسلامی کے 19 ویں انتخاب تھے جن کے لیے 45821 اراکین کو بیلٹ پیپر جاری کیے گئے جن میں 6794 خواتین ارکان شامل تھیں اور پھر 25 مارچ 2024 کو ایک پریس کانفرنس کے ذریعے بتایا کہ 82 فی صد افراد نے اس عمل میں شرکت کی اور کثرت رائے نے حافظ نعیم الرحمن کو امیر جماعت اسلامی پاکستان منتخب کرلیا ہے۔ پھر 18 اپریل 2024 کو جماعت اسلامی کے مرکز منصورہ لاہور میں ایک پر وقار اور پرہجوم تقریب میں محترم حافظ نعیم الرحمن نے جماعت اسلامی اور ریاست پاکستان سے وفاداری کا حلف اٹھایا اور آبدیدہ ہو گئے کہ اتنی بڑی ذمے داری کا بوجھ اٹھا بھی سکوں گا یا…؟

مگر اہل کراچی کا دعویٰ ہے کہ یہ تو ایک جماعت کے امیر کی بات ہے حافظ نعیم الرحمن میں اتنی ہمت، جرأت اور صلاحیت ہے کہ وہ پورے ملک کا بوجھ اٹھا سکتے ہیں اس تمام روداد بیان کرنے کا مقصد جماعت اسلامی کی تعریف اور توصیف نہیں بلکہ الیکشن کمیشن اور خصوصاً اس کے چیف کو یہ یاد کرانا مقصود ہے کہ ایسے ہوتے ہیں انٹرا پارٹی الیکشن۔۔ الیکشن کمیشن نے ہر ایرے خیرے نتھو خیرے کو پارٹی کی رجسٹریشن تو دے رکھی ہے مگر پلٹ کر کبھی نہیں دیکھا کہ آیا وہ الیکشن میں حصہ لیتے بھی ہیں یا نہیں یا اگر لیتے ہیں تو ان کی کامیابی کا تناسب کیا ہے انٹرا پارٹی الیکشن تو دور کی بات رہ جاتی ہیں سیاسی جماعتوں کی جو جمہوریت کی دعوے دار تو بنتی ہیں مگر صرف اقتدار حاصل کرنے کے لیے۔ ان جماعتوں میں انٹرا پارٹی الیکشن ہوتے ہی نہیں بس پارٹی کے پیشہ ور وکلا کاغذات تیار کرکے پارٹی کو دیتے ہیں اور پارٹی ان کو وزن بڑھا کر ایک بریف کیس میں رکھ کر الیکشن کمیشن روانہ کر دیتی ہیں اور الیکشن کمیشن اس میں سے کاغذات نکال کر فائل کر لیتا ہے اور بریف کیس کو الیکشن کمیشن کے توشہ خانے میں جمع کر دیا جاتا ہے۔ چلیے صاحب کیس ختم ہوا اب آپ اس کو قانونی کہہ لیں یا ضابطے کی کارروائی جو کہ مکمل ہوئی ان پارٹیوں میں جمہوریت پسندی تو ہے مگر جمہوری عمل سے مبرا ہیں۔ ایک پارٹی ذوالفقار علی بھٹو نے بنائی جب وہ پابند سلاسل ہوئے تو ان کی اہلیہ نے پارٹی کی قیادت سنبھالی پھر ان کی شریک ان کی بیٹی بے نظیر جو بعد میں قائد کی صورت میں ظاہر ہوئیں مگر انہوں نے بھی پارٹی کو وراثت سمجھا اور اپنے نابالغ بیٹے کو چیئرمین نامزد کر دیا جس پر ان کے شوہر آصف زرداری قابض ہو گئے اور جب بیٹا بالغ ہوا تو وراثت اس کے حوالے کر کے پارٹی کی دوسری برانچ یعنی پارلیمنٹیرین کے خود ساختہ تاحیات چیئرمین بن گئے اور اب صاحبزادی کو یہ کہہ کر سامنے لایا جا رہا ہے کہ یہ بے نظیر بنے گی۔ آصفہ زرداری کو بلا مقابلہ منتخب کرا کر سیاسی سیج سجا کر دی جا رہی ہے تو اس سے کیا امید ہو سکتی ہے۔

دوسری طرف نواز شریف جن کا چوتھی بار وزیراعظم بننے کا خواب چکنا چور ہوا تو بیٹی کو اگے لے آئے۔ مولانا فضل الرحمن بھی مفتی محمود کے وارث کے طور پر جلوہ گر ہوئے اور اپنے کئی رشتہ داروں کو نوازنے کے ساتھ وراثت اپنے ہی پاس رکھی ہے۔ باچا خان جنہوں نے مرنے کے بعد بھی آزاد پاکستان میں دفن ہونا پسند نہیں کیا ان کی وراثت ایمل ولی خان پر رکی ہوئی ہے۔ دیگر جماعتوں کا بھی یہی حال ہے کیونکہ ہر پارٹی کا لیڈر اپنی پارٹی کو اپنی جاگیر سمجھتا ہے یہاں ہمیں یاد آیا کہ کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ جب پارٹی کی قیادت باپ سے بیٹے یا بیٹی کو منتقل ہو تو اسے پارٹی نہیں پراپرٹی کہتے ہیں اور اس کے ورکرز ورکرز نہیں نوکر ہوتے ہیں جو اپنے سامنے کے بچوں کے سامنے ہاتھ باندھے کھڑے جی حضوری کرتے نظر آتے ہیں۔