ایران کو اسرائیلی جواب پاکستان کو خطرہ (آخری قسط)

548

چاندرات سے لے کر عید کے پورے دن غزہ میں اسرائیل بمباری کرتا رہا اسی حملے میں حماس کے رہنما اسماعیل ہانیہ کے تین بیٹوں چار پوتے پوتیوں کی شہادتیں ہوئیں اسماعیل ہانیہ نے عید کے دن بچوں کی طرف سے عید مبارک کے الفاظ سننے کے بجائے ان کی شہادت کی خبر بڑے حوصلے سے سنی اس سے قبل ان کے خاندان کے بیس سے زائد افراد پہلے ہی شہید ہوچکے ہیں اسماعیل ہانیہ نے کہا کہ غزہ میں اب تک جو 34ہزار سے زائد لوگ شہید ہوئے ہیں وہ سب ہمارے بیٹے بیٹیاں ہیں۔

اسرائیل کا کہنا ہے کہ یہ لوگ اسرائیل پر حملے کی منصوبہ بندی کررہے تھے ایسی بات نہیں ہے یہ یہودی اور عیسائی مسلمانوں کے خوشیوں کے تہوار کو غم و اندوہ میں تبدیل کرکے طمانیت محسوس کرتے ہیں عراق کے صدر صدام حسین کو بھی عید کے دن پھانسی دی گئی تھی۔ یہ جواب تو مل گیا کہ حماس نے کیوں حملہ کیا تھا جو مقصد سامنے تھا اس میں کچھ نہیں بہت کچھ کامیابی مل گئی کہ نہ صرف اسرائیل سے محبت کے رشتے قائم کرنے کا سلسلہ رک گیا بلکہ پچھلے ستر پچھتر برسوں کے بعد مسئلہ فلسطین فلیش ہوکر دنیا کے سامنے آگیا چاہے موافقت میں یا مخالفت میں جب دنیا کی زبان کھلتی ہے تو منہ سے فلسطین ہی نکلتا ہے۔ ساتھ ہی اس سے جڑے ہوئے اس سوال پر غور کرلیں کہ کیا اسرائیل کو اس کی خفیہ ایجنسی موساد کو اور امریکن سی آئی اے کو ان تیاریوں کی خبر نہیں تھی میرا خیال ہی نہیں بلکہ یقین یہ ہے کہ سب کو سب کچھ پتا تھا۔ جیسے کے جنرل ضیاء کے زمانے میں کیا امریکا کو پتا نہیں تھا پاکستان نے بم بنا لیا ہے جبکہ جنرل ضیاء جب برسراقتدار آئے تو اس زمانے بڑا چرچا تھا کہ بھٹو نے فرانس سے ایٹمی پلانٹ خریدنے کی بات کرلی ہے فرانس تیار بھی ہوگیا تھا لیکن بھٹو کی حکومت ختم ہوگئی تو جنرل ضیاء نے بالکل ابتدائی دور میں اسی تناظر میں فرانس کے دوسرے کا پروگرام بنالیا فرانس جانے سے ایک دن قبل جنرل ضیاء کو ایک بڑی قوت کی طرف خط موصول ہوا کہ آپ فرانس جا تو رہے ہیں وہاں ایٹمی پلانٹ کی کوئی بات نہیں ہوگی یہ بات معروف صحافی ہارون الرشید نے اپنے ایک آرٹیکل میں لکھی تھی۔ چنانچہ یہ بات آگے نہ بڑھ سکی بلکہ ختم ہوگئی لیکن پھر کیسے بم بن گیا وہ اس طرح کہ روس نے افغانستان پر حملہ کردیا امریکا کو روس کو چاروں خانے چت کرنے کے لیے پاکستان کی ضرورت پڑگئی پھر یہ ہوا کہ پاکستان نے امریکا کی مدد کی اور امریکا نے پاکستان کے ایٹمی پراسز سے اپنی آنکھیں بند کرلیں۔

اب آجائیں حماس کی تیاریوں کی طرف، تو کیا اسرائیل نے اپنی آنکھیں بند کرلی تھیں نہیں اس نے آنکھیں کھول کر رکھیں حماس کی ان تیاریوں میں اسرائیل اپنے لیے راستہ بنا رہا تھا، ٹھیک ہے حماس کو حملہ کرنے دو ہمیں بھی روز روز کی اس کل کل سے نجات مل جائے گی ہمیں ایک بہانہ مل جائے گا کہ ہم ہفتے یا دو ہفتے میں یا شاید ایک ماہ لگ جائے شدید بمباری کرکے غزہ خالی کرالیں گے اس طرح کے غزہ کو ریت کے ڈھیر میں تبدیل کردیں فلسطینی اپنی جانیں بچانے کی خاطر کچھ اِدھر اُدھر، کچھ مصر میں، کچھ کہیں اور کچھ کیمپوں میں منتقل ہو جائیں گے۔ لیکن اکثر اوقات ہم سوچتے کچھ اور ہیں اور ہوتا کچھ اور ہے اسرائیل کو یہ اندازہ نہیں تھا حماس کی مزاحمت سات مہینے تک کھنچ جائے گی۔ ہم ایک ماہ میں اپنے مقاصد حاصل کرلیتے تو دنیا اتنا کچھ اسرائیل خلاف نہ کہتی جتنا آج کہہ رہی ہے۔ مسلم ممالک کے عوام میں تو پہلے ہی سے ایک نفرت موجود تھی اب یہ اور بڑھ گئی دوسری طرف امریکا مغربی ممالک اور دنیا میں ہر جگہ اسرائیلی مظالم کے خلاف نفرت پیدا ہوگئی ہر طرف سے فلسطینیوں کے حق میں آوازیں بلند ہونے لگیں۔ پھر اسرائیل نے سوچا یا اس کے سرپرستوں نے کہ بس بہت ہوگیا اب ہماری ساکھ بھی دائو پر لگ گئی ہے کہاں تک ہم ویٹو کرتے رہیں گے تو پھر یہ ہوا کہ ایران کے خلاف محاذ کھولا جائے تاکہ غزہ کی طرف سے دنیا کی توجہ ہٹ جائے لہٰذا ایک پھسپھسا سا بہانہ بنایا گیا کہ شام میں ایرانی سفارت خانے سے حزب اللہ کی مدد کی جارہی ہے اس نے یکم اپریل کو شام میں اسرائیلی سفارت خانے پر حملہ کردیا تاکہ دنیا کو یہ پیغام مل جائے کہ ایران اسرائیل جنگ شروع ہوگئی لیکن امریکا نے ایسا نہیں ہونے دیا ایران کے جوابی حملے سے اسرائیل کو کوئی نقصان نہیں پہنچا کہ امریکا برطانیہ اور اردن نے اپنے اوپر سے گزرنے والے ڈرون کو مار گرایا۔ امریکا نے اسرائیل کو روکا تھا کہ کوئی جواب نہ دیا جائے ہم جنگ کو بڑھانا نہیں چاہتے لیکن پھر بھی اس نے ایک بے ضرر حملہ کردیا اس کے بدلے اس نے اس امریکی پابندی کو ختم کردیا جو امریکا نے رفح کراسنگ پر حملہ کرنے کے حوالے سے لگائی تھی۔

ہم سمجھتے ہیں کہ فلسطین نے اپنے پیاروں کی قربانی دے کر مزاحمت کی جو تاریخ رقم کی ہے اس کی مثال بہت کم ملے گی اگر ہم بھی 1971 میں ہندوستانی فوجوں کے سامنے مزاحمت کرتے تو ہم ذلت آمیز شکست سے بچ جاتے مجھے امید ہے کہ فلسطینیوں کی امید سحر بہت جلد طلوع ہونے والی ہے۔