سیاسی چراہ گاہ

343

سیاست کا بنیادی مقصد ملک و قوم کی خدمت ہوتا ہے مگر وطن ِ عزیز میں سیاست کا مقصد عالمی قوتوں کی خوشنودی کا حصول ہے جو سیاستدان پاکستان سے مخلص ہوتا ہے اْسے وطن دشمن سمجھا جاتا ہے۔ پاکستان اور ہندوستان کے اکثر شہریوں کا تعلق ایک ہی دادا سے ہے۔ مگر ان کے خیالات میں یکسانیت نہیں کیونکہ ان کا لہو اپنی کشش کھو چکا ہے۔ سیاست دانوں نے باور کروا دیا ہے کہ ہندوستان اور پاکستان ایک دوسرے کے دشمن ہیں اور اْن کی بقا دشمنی میں ہی ہے۔ یہ کیسی بد نصیبی ہے کہ ہم نے انگریزوں کی غلامی سے نجات حاصل کر لی مگر ابھی تک اْن کے گْن گانے میں مصروف ہیں اور ان کی طرزِ حکمرانی کی توصیف کرتے نہیں تھکتے اوراْس کی بنیادی وجہ ہمارا نظامِ حکمرانی ہے کیونکہ اس نظام نے ملک کو سیاسی چراہ گاہ بنا دیا ہے۔

انگریز ہمیں اپنا محکوم سمجھتے تھے مگر یہ کالے حکمران آقا بن بیٹھے ہیں۔ محکوم سمجھنے اور حاکم ہونے کے اس فرق نے حقیقی معنوں میں غلام بنا دیا ہے۔ انگریز برصغیر کے لوگوں پر حکمرانی کرتے تھے، حکمرانی کرنے اور آقا بننے میں وہی فرق ہے جو غلام اور ملازم میں ہوتا ہے اس تناظر میں یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ آزادی کی جنگ نوکری سے دستبردار ہونے کی جنگ تھی۔

من حیث القوم ہم نے ملازمت سے سبک دوش ہوکر غلامی کا طوق گلے میں ڈال لیا ہے۔ یہ کیسی بد نصیبی ہے کہ اداروں کے سربراہان برائے نام سربراہ ہوتے ہیں اس لیے اہل دانش کہتے ہیں کہ کسی بھی ملک کی خود مختاری کے لیے عدلیہ کا خود مختار ہوتا ضروری ہے۔ ایک مقدمہ گزشتہ 24 برسوں سے زیر ِ سماعت ہے سول کورٹ اور سیشن کورٹ سے خارج ہوکر اپیل در اپیل کے ابلیسی دائرے میں گھوم رہا ہے ہم نے اس معاملے میں ایڈیشنل رجسٹرار بہاولپور سے گزارش کی کہ اس بے بنیاد مقدمے کو خارج کیا جائے۔ مدعی آدھی زندگی عدالتوں میں دھکے کھاتے گزر گئی ہے عدالتی کارکردگی سے لگتا ہے کہ بقیہ زندگی بھی عدالتوں کی غلام گردشوں میں غلامی کرتے گزر جائے گی۔ جواباً جو کچھ کہا گیا اْسے سن کر احساس ہوا کہ وطن ِ عزیز میں کسی بھی ادارے کا سربراہ خود مختار نہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان اداروں کو کون چلا رہا ہے؟

ایڈیشنل رجسٹرار ہائی کورٹ کا سربراہ ہوتا ہے مگر لیفٹ اوور کا ہتھوڑا چلانے والے جسٹس سے اس غیر قانونی روش کے بارے میں کوئی سوال نہیں کر سکتا حیرت کی بات یہ بھی ہے کہ ایڈیشنل رجسٹرار پیشی دلوانے کے سوا کچھ نہیں کرسکتا اور یہ کام ہائی کورٹ کا کلرک بھی کر سکتا ہے۔ سوچنے کی بات یہ بھی ہے کہ جس ملک کی ہائی کورٹ کا سربراہ جسٹس صاحبان کے کھو ٹے بندھا ہو وہ کسی کو انصاف کیسے دے سکتا ہے؟ جو خود بے اختیار ہو ملک کے دیگر اداروں کے سربراہان کو اختیار ات کیسے دلوا سکتا ہے؟

غور کیا جائے تو احساس ہوتا ہے کہ اس کی بنیادی وجہ ہمارے اور غیر ملکی سیاستدانوں کی ذہنیت ہے۔ ہمارے سیاست دان ملک کے بجائے پارٹی قائد کے وفادار ہوتے ہیں یہ کیسی حیرت انگیز بات ہے کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ کو چھوڑنے والے سیاستدان کو سیاست چھوڑنا پڑتی ہے کیونکہ اپنی پارٹی چھوڑنے والے سیاست دان اپنی شناخت سے محروم ہوجاتے ہیں۔ شیخ رشید بہت مقبول سیاستدان تھے ایک درجن سے زیادہ مرتبہ وفاقی وزیر رہ چکے ہیں کل تک الیکٹرونک میڈیا پر اْن کا چرچا تھا کوئی پروگرام ان کے بغیر مکمل نہیں سمجھا جاتا تھا مگر آج وہ گم نامی کی زندگی گزار رہے ہیں گویا اْن کی سیاسی حیثیت مسلم لیگ ن کے مرہونِ منت تھی۔ یہی وجہ ہے کہ موقع شناخت سیاست دان دستِ داور پر نظر رکھنا کبھی نہیں بھولتے کیونکہ وہ دست ِ داور کی شبدہ بازی سے آشنا ہوتے ہیں۔

دیکھ لے خاک ہے، کاسے میں کہ زر ہے سائیں
دستِ داور بڑا شبدہ باز ہے سائیں