سعودی عرب کی سرمایہ کاری اور ایک نئے دور کا آغاز

423

پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات کی نوعیت میں اور باقی ممالک سے پاکستان سے تعلقات کی نوعیت میں بہت فرق ہے۔ سعودی عرب کے ساتھ پاکستان کے عوام کی محبت لازوال ہے۔ پاکستان کے عوام میں سعودی عرب کے لیے محبت اور احترام ہی پاکستان کی حکومتوں کو سعودی عرب کے ساتھ اچھے تعلقات پر مجبور کرتا ہے۔ سعودی عرب کے ساتھ محبت اور احترام کی انفرادیت اس لیے بھی ہے کہ باقی عرب ممالک کے لیے پاکستان کے عوام کے دل میں وہ محبت اور احترام نہیں ہے۔ اس کی بنیادی وجہ حرم شریف اور مدینہ منورہ بھی ہیں۔ پاکستان اور سعودی عرب میں تعاون کی داستان کوئی نئی نہیں ہے۔ ماضی میں بھی نہایت اہم اور نازک مواقع پر بھی سعودی عرب نے پاکستان کی مدد کی ہے۔ جس کو کسی بھی صورت نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ ایٹمی دھماکوں کے بعد امریکا سمیت پوری دنیا نے پاکستان پر پابندیاں عائد کر دی تھیں یہ سعودی عرب ہی تھا جس نے پاکستان کو 50ہزار بیرل روزانہ ادھار تیل فراہم کیا تھا۔ اس کے علاوہ بھی 1965 اور 1971 کی جنگوں میں بھی سعودی عرب نے پاکستان کی مدد کی۔ یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے ان جنگوں میں باقی دنیا نے ہماری مدد نہیں کی تھی۔ سعودی عرب پاکستان کو تسلیم کرنے والے اولین ممالک میں شامل تھا۔ اور دوستی کی بنیادیں 1951 کے معاہدوں سے نظر آتی ہیں۔ ایسے میں سعودی سرمایہ کاری تازہ ہوا کا جھونکا ہے۔ یہ پاکستان کی معیشت کو مضبوط کرے گی۔

یہ حقیقت ساری دنیا جانتی ہے کہ پاکستان میں ملکی و غیر ملکی سرمایہ کاری کے وسیع مواقع موجود ہیں اور بہت سے ممالک، کمپنیاں اور تجارتی ادارے ان مواقع سے فائدہ بھی اٹھانا

چاہتے ہیں مگر سیاسی و معاشی عدم استحکام کی وجہ سے وہ ادھر کا رخ کرنے میں متامل ہیں۔ سرکاری سطح پر ان کی پزیرائی میں بھی ناقص پالیسیاں حائل ہیں۔ مگر ملک کی اقتصادی صورت حال اب اتنی گمبھیر ہو چکی ہے کہ اس حوالے سے فوری اقدامات ناگزیر ہو چکے ہیں۔ موجودہ مخلوط حکومت نے اس پس منظر میں معاشی ایجنڈے کو اپنی اولین ترجیح قرار دیا ہے اور اس سمت میں تیزی سے قدم بڑھانے شروع کیے ہیں۔ وزیراعظم شہباز شریف گزشتہ ہفتے سعودی عرب گئے تھے اور ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان سے دو طرفہ تجارتی تعاون پر گفتگو کی تھی۔ اس گفتگو کے تسلسل میں سعودی وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن عبدالعزیز کی سربراہی میں وفد نے پاکستان کا دورہ کیا۔ سعودی ولی عہد نے پاکستان میں پانچ ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا عندیہ دیا تھا مگر اب معلوم ہوا ہے کہ سعودی عرب اگلے پانچ سال کے دوران پاکستان میں پچیس ارب ڈالر کی بھاری سرمایہ کاری کرنا چاہتا ہے اور سعودی وفد مختلف شعبوں میں سرمایہ کاری پر عملدرآمد کے لیے حکام سے مشاورتی بات چیت میں مصروف ہے۔ سعودی عرب کی حکومت جن شعبوں میں سرمایہ لگانے کی خواہش مند ہے ان میں زراعت، تجارت، توانائی، آئی ٹی، معدنیات، ٹرانسپورٹ، دفاع، ماحولیات اور صنعتیں وغیرہ شامل ہیں۔ سعودی عرب ریکوڈک میں سونے اور تانبے کی تلاش کے منصوبے میں بھی شراکت داری کے لیے تیار ہے جس سے پاکستان کی برآمدات میں اضافہ ہو گا۔

سعودی وفد نے صدر آصف زرداری، وزیراعظم شہباز شریف اور متعلقہ محکموں کے وزراء اور اعلیٰ حکام سے بھی ملاقاتیں کیں وفد سرمایہ کاری کے اگلے مرحلے پر عملدرآمد کی راہ ہموار کرے گا۔ مذاکرات کا یہ سلسلہ خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل کی کوششوں کا حصہ ہے جس میں آرمی چیف بھی شامل ہیں۔

سعودی عرب اس وقت خلیجی خطے کی سب سے بڑی معیشت بن چکا ہے جس کی جی ڈی پی 2022 میں گیارہ ٹریلین ڈالر تک پہنچ چکی ہے۔ سعودی وفد کی پاکستان آمد اور حکومتی شخصیات سے مذاکرات کے نتیجے میں سرمایہ کاری کے لیے لوگوں میں اعتماد بڑھے گا اور کئی معاہدوں کے خدوخال واضح ہوں گے جن پر دستخط سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے مئی میں دورہ پاکستان کے دوران کیے جائیں گے۔ معاہدوں کے تحت سعودی عرب پاکستان میں کئی اقتصادی منصوبوں کا حصہ بن جائے گا جس سے ملک میں تعمیر و ترقی کا نیا ماحول پیدا ہو گا اور روزگار کے مواقع بڑھیں گے۔ ملک اس وقت جس معاشی کساد بازاری سے گزر رہا ہے اس کے نتیجے میں غیر ملکی قرضوں کی ادائیگی کے لیے بھی نئے قرضے لینا پڑ رہے ہیں اور یہ ایک ایسا سلسلہ ہے جو ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتا۔ وفاقی وزیر اقتصادی منصوبہ بندی کے مطابق حکومت کی آمدن سات ہزار ارب روپے ہے جبکہ آٹھ ہزار ارب روپے کے قرضے ادا کرنے ہیں۔ ستم بالائے ستم یہ کہ وسائل کا بڑا حصہ کرپشن اور اسمگلنگ کی نذرہو رہا ہے صرف پٹرول کی اسمگلنگ سے قومی خزانے کو سالانہ دو ارب ڈالر نقصان ہوتا ہے۔ ایسے میں پاکستان سعودی عرب اور دوسرے دوست ملکوں اور ذرائع سے سرمایہ کاری حاصل کرنے میں کامیاب ہوتا ہے تو ملک معاشی ترقی کی راہ پر چل نکلے گا۔ روزگار میں اضافہ ہو گا، مہنگائی میں کمی ہو گی اور غربت کے خاتمے میں مدد ملے گی۔ حکومت کو مکمل یکسوئی کے ساتھ اس معاملے میں اپنا کردار نبھانا پڑے گا۔ چین پہلے ہی اقتصادی راہ داری کے منصوبے پر عمل پیرا ہے جس کی سیکورٹی پر خاص توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

سعودی عرب نے پاکستان کی ہر حکومت کے ساتھ کام کیا ہے۔ سعودی عرب نے بھٹو کے ساتھ مل کر پاکستان میں اسلامی سربراہ کانفرنس منعقد کی۔ یہ وہ وقت تھا جب پاکستان سانحہ مشرقی پاکستان کی وجہ سے عالمی طور پر تنہائی کا شکار تھا۔ امریکا بھی دھوکا دے چکا تھا۔ اس کے بعد روس کے خلاف افغان جہاد کے دوران بھی سعودی عرب نے پاکستان کی بہت مدد کی۔ پاکستان کے ایٹمی دھماکوں کے بعد بھی جب دنیا نے پاکستان پر معاشی پابندیاں عائد کر دیں تو سعودی عرب نے پاکستان کی مدد کی۔ نائن الیون کے موقعے پر بھی سعودی عرب نے پاکستان کی بہت مدد کی۔ آج سعودی عرب سی پیک کا حصہ ہے۔ سعودی عرب کی سی پیک میں شمولیت نہ صرف سی پیک کو مضبوط کرے گی بلکہ پاکستان کے توسط سے چین اور سعودی عرب کے درمیان بھی شراکت داری کے ایک نئے دور کا آغاز ہوگا جو عالمی سطح پر بھی نئی تبدیلیوں کا باعث ہوگا۔ اس سے چین اور سعودی عرب بھی قریب آئیں گے۔