وعدہ معاف گواہ!

369

سابق صدر اور وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کو عدالت کی جانب سے سزائے موت دیے جانے کے خلاف صدر آصف علی زرداری نے اپنے گزشتہ دورِ صدارت میں عدالت عظمیٰ میں ایک ریفرنس بھیجا تھاکہ اُن کا ٹرائل منصفانہ نہیں تھا، لہٰذا اس پر نظر ِ ثانی کی جائے۔ سابق چیف جسٹس صاحبان نے یہ ریفرنس معرضِ التوا میں رکھا، لیکن موجودہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اس ریفرنس پر ایک نورکنی بنچ بنایا، اس پر کئی سماعتیں کیں۔ اٹارنی جنرل جناب عثمان منصور اعوان اور بعض دیگر ماہرینِ آئین وقانون سینئر وکلا کو بطورِ معاون بھی بلایا، نیز پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول زرداری کی طرف سے بھی وکیل پیش ہوئے اور آخر ِ کار 8 مارچ کو عدالت عظمیٰ نے اصل فیصلے کو چھیڑے بغیر یہ فیصلہ صادر کیا: ”ذوالفقار علی بھٹو کے مقدمے کا ٹرائل قانون کی رُو سے منصفانہ نہیں تھا“۔

ظاہر ہے: فیصلہ تو نافذ ہوچکا، سزائے موت بھی دی جاچکی، اس فیصلے پر نظر ِ ثانی پٹیشن کو پہلے ہی نمٹادیا گیا تھا، پس اس کے بعد کسی اور نظر ِ ثانی پٹیشن کی گنجائش نہیں تھی، تاہم ریفرنس کی گنجائش تھی۔ اس موقع پر جناب چیف جسٹس نے کہا: ”اسلامی احکامات کی روشنی میں اس مسئلے کے بارے میں کسی نے ہماری رہنمائی نہیں کی کہ اسلام کی رُو سے وعدہ معاف گواہ کی حیثیت کیا ہے“، اُن سے گزارش ہے: آپ نے کسی سے رہنمائی طلب ہی نہیں کی اور ازخود عدالت عظمیٰ کے معاملات میں مداخلت کرنا مناسب نہیں ہوتا۔

اس کے باوجود ہم وعدہ معاف یا سلطانی گواہ کے بارے میں قرآن وسنّت کی روشنی میں شرعی حکم بیان کیے دیتے ہیں تاکہ آئندہ کے لیے عدالت کے علم میں رہے، لیکن مشکل یہ ہے: عدالتیں آئین وقانون کے مطابق فیصلہ دیتی ہیں، ہماری یہ تمنا ہے: ہماری اعلیٰ عدالتوں کے تمام فیصلے شریعت کے مطابق ہوں تاکہ کوئی بھی فیصلہ 6فروری 2024 کے فیصلے کی طرح متنازع نہ ہو، تفصیل درج ذیل ہے:

جو شخص کسی معاملے میں شریک ِ جرم رہا ہویا اُس کے ذریعے کوئی خلافِ قانون کارروائی کی گئی ہو اور حکومت کے پاس اُس جرم کے واضح ثبوت نہ ہوں، تو ایسے شریکِ جرم شخص کو بعض رعایتیں دے کر گواہ بنایا جاتا ہے، اُسے قانونی زبان میں وعدہ معاف یا سلطانی گواہ یا انگریزی میں Approver کہا جاتا ہے، رعایت کی صورتیں مندرجہ ذیل ہوسکتی ہیں:

(الف) اُسے جرم سے بری کردیا جائے، (ب) اُس کی سزا میں تخفیف کردی جائے، (ج) اُسے میرٹ کے خلاف ترقی دے دی جائے، (د) یا کسی اور طریقے سے اُسے نواز دیا جائے۔

شہادت کی بابت اسلام نے جو اُصول وضوابط مقرر فرمائے ہیں، اُن سے معلوم ہوتا ہے کہ شہادت خالص اللہ کی رضا اور اس کے حکم کی تعمیل کے لیے ہونی چاہیے، ذاتی اغراض و مفادات کے لیے گواہی نہ دی جائے۔ لہٰذا اگر کسی مقدمے کے گواہ پر یہ تہمت ہوکہ وہ اپنے ذاتی مفادات واغراض کے حصول کے لیے یا کسی شخص سے انتقام لینے یا اُسے نقصان پہنچا کر اپنے آپ کو کسی ضرر سے بچانے کے لیے اُس کے خلاف گواہی دے رہا ہے تو ایسے شخص کی گواہی قبول نہیں کی جائے گی۔

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ”اے ایمان والو! انصاف پر مضبوطی سے قائم رہنے والے اور اللہ کے لیے گواہی دینے والے بن جاؤ، خواہ (یہ گواہی) تمہاری ذات یا تمہارے والدین اور قرابت داروں کے خلاف ہو، (فریق ِ معاملہ) خواہ امیر ہو یا غریب، اللہ ان کا (تم سے) زیادہ خیر خواہ ہے، لہٰذا تم عدل کرنے میں خواہشات کی پیروی نہ کرو، اگر تم نے گواہی میں ہیر پھیر کیا یا اِعراض کیا تو اللہ تمہارے سب کاموں سے خوب باخبر ہے“، (النسآء: 135) ”اور اللہ (کی رضا) کے لیے گواہی دو“۔ (الطلاق:2) حدیث ِ پاک میں ہے: ”خیانت کرنے والے مرد اور خیانت کرنے والی عورت، زانی مرد اور زانیہ عورت اور اپنے بھائی سے کینہ رکھنے والے شخص کی گواہی جائز نہیں ہے“، (ابوداؤد) علامہ ابن نجیم حنفی البحر الرائق میں اور علامہ ابن عابدین شامی العقود الدُرِّیہ میں ”قُنیہ“ کے حوالے سے لکھتے ہیں:

”وہ عداوت جو دنیاوی سبب سے ہو، گواہی کے لیے مانع نہیں ہے، جب تک کہ اس کے سبب (اللہ تعالیٰ کی) حکم عدولی یا کسی فائدے کا حصول یا اپنی ذات سے کسی ضرر کو دور کرنا مقصود نہ ہو، یہی صحیح ہے اور اسی پر اعتماد ہے“۔ (البحر الرائق، العقود الدریہ فی تنقیح الفتاوی الحامدیہ) الغرض وعدہ معاف گواہ کو چونکہ اس بات کی یقین دہانی کرائی جاتی ہے کہ شہادت کی صورت میں اس کے خلاف قانونی کارروائی نہیں کی جائے گی یا سزا میں تخفیف کردی جائے گی، لہٰذا وہ اپنے ذاتی مفاد کے حصول اور دفعِ ضرر کے لیے دوسرے کے خلاف گواہی دیتا ہے، اس لیے اس کی گواہی معتبر نہیں ہے۔

سابق جسٹس تنزیل الرحمن لکھتے ہیں: ”گواہی دینے والا (شخص) ہر قسم کی تہمت سے پاک ہو: (الف) یہ کہ اس پر ایسی کوئی تہمت نہ ہو کہ وہ فائدے کے حصول یا اپنے آپ کو ضرر سے بچانے کے لیے شہادت دے رہا ہے“۔ (مجموعہ قوانین ِ اسلامی) وعدہ معاف گواہ مُدّعیٰ علیہ کے خلاف شہادت دے کر عدالت یا مُجاز ادارے سے اس کا معاوضہ اپنی جان بخشی یا سزا سے بچنے یا مال کے تحفظ کی صورت میں حاصل کرتا ہے، پس یہ شہادت کو فروخت کرنا ہے، ایسے شخص کی بابت اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ”وہ لوگ جو اللہ کے عہد اور اپنی قسموں کے بدلے حقیر دام لیتے ہیں، آخرت میں ان کا کچھ حصہ نہیں اور قیامت کے دن نہ اللہ اُن سے کلام فرمائے گا، نہ ان کی طرف نظر ِ (کرم) فرمائے گا، نہ ان کاتزکیہ فرمائے گا اور اُن کے لیے دردناک عذاب ہے“۔ (آلِ عمران: 77)

یہ تو اُس صورت میں ہے: جب اُس گواہ پر کسی ایسے جرم کا الزام نہ ہو جو شرعاً فسق ہے، لیکن اگر اُس پر ایسا الزام ہو جو شرعاً بھی اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول مکرّم ؐ کی حکم عدولی ہے اور قانوناً بھی جرم ہے اور وعدہ معاف گواہ اپنی اس حکم عدولی کا اعتراف کر کے دوسرے کیخلاف گواہی دیتا ہے تو یہ گواہی اس لیے بھی معتبر نہیں ہوگی کہ اس کا اقرار اس کے مجرم اور فاسق ہونے کی دلیل ہے اور فاسق کی شہادت معتبر نہیں ہے، نیز یہ شخص اعتراف جرم کی وجہ سے سزا کا حق دار ہے اوراس کا ایسا اعتراف خود اس کے خلاف تو ثبوت بن سکتا ہے، لیکن کسی دوسرے فرد کے خلاف دلیل نہیں بن سکتا تاوقتیکہ دوسری شہادتوں اور قرائن سے اُس شخص کا جرم ثابت ہوجائے۔

احادیث ِ مبارکہ میں ہے: ”ایک شخص نے نبی کریم ؐ کے پاس آ کر اقرار کیا: اُس نے نام لے کر کہا کہ اُس نے فلانی عورت سے زنا کیا ہے، آپؐ نے اس عورت کو بلوایا اور اس سے اس الزام کے بارے میں پوچھا، اُس عورت نے اس الزام سے انکار کیا، تو رسول اللہؐ نے اُس شخص کو اقرارِ جرم کی بنا پر کوڑے لگائے اور اُس عورت کو چھوڑ دیا“، (ابوداؤد) اس حدیث میں صراحت ہے کہ آپؐ نے اُس اقراری مجرم کو تو حدّ لگائی، لیکن جس پر شریکِ جرم ہونے کی تہمت تھی، اسے عدمِ اقرار اور عدمِ ثبوت کی بنا پر چھوڑ دیا،

”قبیلہ بکر بن لیث کے ایک شخص نے نبی اکرم ؐ کے پاس آ کر چار بار اقرار کیا کہ اس نے ایک عورت سے زنا کیا ہے، تو آپ ؐنے (اقرار ِ جرم کی بنا پر) اسے سو کوڑے لگائے، وہ کنوارا تھا، پھر اس سے اُس عورت کے خلاف گواہی طلب کی (وہ گواہ نہیں پیش کرسکا)، پھر اُس عورت نے کہا: یارسول اللہ! اللہ کی قسم! اس شخص نے جھوٹ بولا ہے، تو آپ ؐ نے اُس شخص کو (بطورِحدِّقذف مزید) اسّی کوڑے لگائے“۔ (ابوداؤد)

اس سے معلوم ہوا: اسلام کسی کو اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ وہ کسی پر ثبوت وشواہد کے بغیر بہتان لگائے، الزام لگائے، جیسا کہ آج کل ہمارے ہاں اس کا چلن عام ہے۔ نیز کسی شخص کا اعترافِ جرم اُس کی ذات پر تو حجت ہوسکتا ہے، لیکن جب تک فریق ِ ثانی جرم کا اقرار نہ کرے اور اُس کے خلاف قابل ِ قبول شرعی وقانونی گواہی یا ناقابل ِ تردید قرائن وشواہد بھی نہ ہوں، تو اُسے مجرم قرار دے کر سزا نہیں دی جاسکتی، اس کے لیے شریعت کا مسلّمہ اصول ہے: ”نبی ؐ نے اپنے خطبے میں ارشاد فرمایا: مُدّعِی کے ذمے گواہ پیش کرنا ہے (اور اگرمُدّعِی کے پاس گواہ نہیں ہیں اور مُدّعیٰ عَلَیہ اقرارِ جرم سے انکاری ہے) تو مُدّعیٰ عَلَیہ کوقسم دی جائے گی“۔ (ترمذی)