درسِ نظامی کے بارے میں غلط فہمیوں کا ازالہ (آخری حصہ)

354

جب برّصغیر پاک وہند میں نجی سطح پر مدارس وجامعات کے قیام کا سلسلہ شروع ہوا تو اس خطے کے معروضی حالات بدل چکے تھے، سلطنتِ مغلیہ زوال کے بعد قصۂ پارینہ بن چکی تھی اور برطانوی استعمار پورے برصغیر پر حاکم بن چکا تھا۔ انہوں نے اپنا نظامِ حکومت چلانے کے لیے اپنا نظامِ تعلیم رائج کردیا تھا، اس کا مقصد اپنے انتظامی ڈھانچے کے لیے مقامی رِجال کار تیار کرنے تھے جو نسلاً تو ہندی ہوں، مگر اُن کی فکر اور طرزِ زندگی برطانوی سانچے میں ڈھلی ہو۔ اس پس منظر میں مسلمان مفکرین نے مناسب سمجھا کہ ریاستی سرپرستی اور تسلّط سے آزاد ہوکر دینی علوم اور اسلامی اقدار کا تحفظ کیا جائے۔ ایسا نہ ہو کہ غاصب حکمرانوں کے تسلّط کے سبب دینی علوم اور اقدار مٹ جائیں یا اُن میں تحریف کر کے اُن کا حلیہ بگاڑ دیا جائے اور مذہب کی روح کو مسخ کردیا جائے۔ اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے دینی مدارس وجامعات وجود میں آئے، اُن کے سبب دینی علوم اور دینی اقدار وروایات کا تحفظ ہوا اور مسلمان اپنا تشخص قائم رکھنے میں کامیاب رہے۔

چونکہ اُس وقت برصغیر میں تقریباً نوّے فی صد مسلمان فقہ حنفی کے پیروکار تھے، اس لیے تعلیمی نصاب میں بھی یہی فکر رائج تھی۔ علومِ آلیہ کے ساتھ ساتھ حنفی فقہ واصولِ فقہ کی کتب بالاستیعاب پڑھائی جاتی تھیں اور آخری درجات میں تفسیر وحدیث کو شامل کیا گیا تھا۔ دنیا آج کی طرح سب کے لیے کھلی نہیں تھی، اس لیے اور تو چھوڑیے، بیرونی مسلم دنیا کے اثرات بھی زیادہ نمایاں نہیں تھے، البتہ فارسی زبان اور فارسی اُدباء وشعراء کا یقینا اثر تھا، یہ اثر ہمارے ادب اور شاعری پر بھی مرتب ہوا، افغانستان، ایران اور ترکستان سے آنے والے حکمرانوں کی زبان بھی فارسی تھی اور اس وقت کے برصغیر کی دفتری زبان بھی فارسی تھی، بعد کو اس کی جگہ انگریز نے لے لی۔ فلسفۂ یونان کے تحت جو کلامی ابحاث وجود میں آئیں، وہ ہمارے علم الکلام کا حصہ بنیں، واضح رہے کہ علم الکلام کا تعلق ایمانیات و عقائد سے ہوتا ہے، نیز جو سیاسی اور اعتقادی گروہ قرونِ اُولیٰ میں وجود میں آچکے تھے، وہ بھی نصاب کا حصہ تھے، اُن میں خوارج، نواصب، روافض، معتزلہ، قدریہ، جبریہ اور مرجئہ وغیرہ شامل تھے۔

ایک بار ڈاکٹر محمود احمد غازی نے اس نصاب کی ساخت پر تبصرہ کیا تھا: ’’مروّجہ درسِ نظامی میں فقہی، کلامی واعتقادی مسائل پہلے پڑھائے جاتے ہیں، جب نظریات راسخ ہوجاتے ہیں تو اس کے بعد تفسیر وحدیث سرسری انداز میں پڑھائی جاتی ہیں، اُن کا بالاستیعاب مطالعہ فقہی وکلامی واعتقادی کتب کی طرح نہیں ہوتا‘‘، یعنی اُن کے نزدیک قرآن وحدیث کا مطالعہ معروضی انداز سے نہیں ہوتا، بلکہ موضوعی انداز سے ہوتا ہے۔ معروضی کے معنی ہیں: ’’قرآن وحدیث کے نظریات کو اصالۃً قبول کیا جائے اور باقی سب کو اس کے تابع قرار دیا جائے‘‘، جبکہ موضوعی کے معنی ہیں: ’’نظریات پہلے ذہنوں میں راسخ کردیے جائیں اور پھر قرآن وحدیث کی اُس کے مطابق تفسیر وتشریح اور تحقیقی ابحاث کی جائیں‘‘۔ یہ بات پوری طرح تو نہیں، لیکن کسی حد تک درست ہے، پوری طرح اس لیے نہیں کہ فقہی وکلامی مسائل کا استنباط واستخراج قرآن وحدیث ہی سے ہوتا ہے اور ان مسائل پر بحث کرتے ہوئے قرآن وحدیث ہی کو اصل قرار دیا جاتا ہے، نیز مقابل فقہی وکلامی نظریات اور ان کے استدلال اور استشہادات بھی زیر بحث لائے جاتے ہیں، عربی شعرکا مفہوم ہے: ’’ہم (اپنے مخالفین) کی مذمت کرتے ہیں، حالانکہ انھی کے سبب ہم نے اپنے ممدوح کے فضل وکمال کو جانا اور چیزوں کے حسن و خوبی کا صحیح ادراک اُن کی ضِدّ سے تقابل کرکے ہی ہوتا ہے‘‘، عربی مقولے کا مفہومی ترجمہ ہے: ’’اگر کسی کے نتیجۂ فکر کو پوری طرح حاصل نہ کیا جاسکتا ہو، تو جتنا حاصل کیا جاسکتا ہے، اُس کو تو نہ چھوڑاجائے‘‘۔

لہٰذا ہمیں اپنے درسیات کے نصاب میں یہ وسعت پیدا کرنی چاہیے کہ قرآنِ کریم اور کسی اہم تفسیر، اسی طرح احادیثِ مبارکہ اور بالخصوص کسی ایک جامع کتابِ حدیث مثلاً صحیح البخاری کو بالاستیعاب سبقاً سبقاً پوری گہرائی اور گیرائی کے ساتھ پڑھایا جائے۔ نیز ہم اپنے فضلاء کو بتاتے ہیں: ’’درسِ نظامی کی تکمیل سے آپ یہ نہ سمجھیں کہ آپ علم کے مرتبۂ کمال کو پہنچ گئے ہیں، یہ درسی نصاب آپ کے اندر یہ استعداد پیدا کرتا ہے کہ تفسیر، حدیث اور فقہی مآخذ پر مبنی کتب کا مطالعہ کر کے اُن کے فہم اور تفہیم پرآپ کو قدرت حاصل ہو، اپنی علمی استعداد اور مطالعے کو بڑھانا یہ آپ کی اپنی ذمے داری ہے اور یہ ایک مستقل جاری عمل کا نام ہے، آپ یہ سمجھیں: ’’آج سے آپ کے علمی سفر کا آغاز ہوا ہے اور جوں جوں آپ کا مطالعہ بڑھتا چلا جائے گا، آپ کے علم، تحقیق اور درپیش معاملات پر قرآن وسنّت کی نصوص کی تطبیق کی صلاحیت میں اضافہ ہوتا چلا جائے گا‘‘، ہم انہیں بتاتے ہیں: ’’فقہی مسئلہ ہے: ٹھیرے ہوئے پانی میں گردوغبار بھی پڑتا ہے، جھاڑ جھنکار بھی آتے ہیں، بعض صورتوں میں ناپاکی بھی شامل ہوتی ہے اور وہ پانی گدلا اور حکماً ناپاک ہوجاتا ہے، اس کے برعکس ندی نالے اور دریائوں میں بہتا ہوا پانی پاک بھی ہوتا ہے اور دوسری چیزوں کو پاک کرنے کی صلاحیت بھی رکھتا ہے، حالانکہ اُس میں بھی آلائشیں پڑتی رہتی ہیں، لیکن اُس کا جاری رہنا ان کے اثرات کا ازالہ کردیتا ہے اور پانی پاک رہتا ہے۔ اسی طرح اگر عالم کا مطالعہ کسی انقطاع کے بغیر جاری رہے تو اس کے علم میں اضافہ ہوتا رہتا ہے اور علمی ارتقا کا سفر رکتا نہیں ہے‘‘، نیز ہم اُن سے کہتے ہیں: ’’ تدریس، تحریر یا خطاب کے دوران آپ کو کوئی اشکال پیش آئے، کسی مسئلے میں تشکیک یا ابہام پیدا ہو تو اپنی مادرِ علمی اور اپنے اساتذۂ کرام سے مسلسل رابطے میں رہیں، علم تواضع سکھاتا ہے، عالِم میں اگر عُجب وتکبر پیدا ہوجائے تو علم کا فیضان موقوف ہوجاتا ہے‘‘۔

نیز ہم اپنے اداروں کو مشورہ دیتے ہیں کہ کم از کم میٹرک تک اسکول کی مروّجہ تعلیم کا بھی انتظام کریں یا میٹرک پاس طلبہ کو داخلہ دیں، لیکن یہ اختیاری ہے، اِجباری نہیں ہے، کیونکہ یہ تنظیم المدارس اہلسنّت پاکستان کے ساتھ ملحق ہر ادارے کی استعداد اور گنجائش پر موقوف ہے، ہمارے ملحق بعض ادارے تو متوازی طور پر گریجویشن اور پوسٹ گریجویشن کی سطح تک بھی اپنے طلبہ اور طالبات کو تعلیمی سہولتیں فراہم کرتے ہیں۔ پاکستان میں اب تک اسکول کی بنیادی تعلیم لازمی نہیں ہے، بلکہ جیسا کہ ہم نے پچھلے کالم میں لکھا ہے: ’’بعض اعداد وشمار کے مطابق تقریباً تین کروڑ تک بچے اسکول نہیں جاتے‘‘، ایسے میں دینی مدارس وجامعات پر میٹرک یا انٹرمیڈیٹ کی لازمی تعلیم کی پابندی کیسے عائد کی جاسکتی ہے۔ ہماری تنظیم سے ملحق بعض ادارے تخصصات کی بھی تعلیم دیتے ہیں، اُن میں تخصص فی التفسیر والحدیث، تخصص فی الفقہ والافتاء شامل ہے، اسی طرح اقتصادِ اسلامی یعنی اسلامک فائننسنگ کی تعلیم بھی دی جاتی ہے۔

ایک اعتراض یہ کیا جاتا ہے: دینی مدارس وجامعات کے طلبہ وطالبات علومِ عربیہ تو پڑھتے ہیں، عربی تفاسیر، شروحِ حدیث اور فقہ وافتاء کی کتب پڑھتے بھی ہیں، انہیں پوری گہرائی اور گیرائی کے ساتھ سمجھتے بھی ہیں، لیکن انہیں جدید عربی لکھنے اور بولنے پر قدرت نہیں ہوتی۔ نہ ہم اس کمزوری کا دفاع کرتے ہیں، نہ اس کا جواز پیش کرتے ہیں کہ ایسا ہونا چاہیے، لیکن انگلش میڈیم تعلیمی اداروں کے استثناء کے ساتھ ہماری یونیورسٹیوں میں ایم اے انگلش کرنے والوں کو بھی انگریزی لکھنے اور بولنے پر پوری قدرت حاصل نہیں ہوتی، کیونکہ زبان وبیان پر عبور کا مدار ماحول پر بھی ہوتا ہے۔ ہمارے ملک سے غیر تعلیم یافتہ یا معمولی تعلیم حاصل کرنے والے لوگ مغربی ممالک میں جاتے ہیں، وہ وہاں کے ماحول کی وجہ سے ضرورت کی حد تک انگریزی بولنے اور سمجھنے پر قادر ہوجاتے ہیں۔ اسی طرح ہماری یونیورسٹیوں سے ایم اے اردو کرنے والوں کو چونکہ بنیادی عربی اور فارسی کی شُدبُد نہیں ہوتی، اس لیے اُن کے لیے ہمارے ادبِ عالی یعنی علامہ اقبال، غالب، بیدل اور بہت سے شعراء کے کلام کو کماحقہٗ سمجھنا دشوار ہوتا ہے، بلکہ صحیح تلفظ کے ساتھ قدیم شعراء کے کلام کو پڑھنے والوں کی تعداد بھی کم ہے، پورا ملکہ اور عبور تو بعد کی بات ہے۔ یہی حال ہمارے الیکٹرونک اور سوشل میڈیا میں رونق افروز بعض نظامت کاروں کا ہے، وہ اردوزبان کا قتلِ عام کرتے ہیں۔