واپسی کا راستہ

483

کورونا پر تبصرہ کرتے ہوئے جو شخص حکومت کو گالی نہ دے وہ یا تو مولانا طارق جمیل ہیں یا پھر خود عمران خان۔ کورونا کے سلسلے میں دنیا کو ایک عظیم کامیابی اس وقت حاصل ہوئی جب پاکستان کے وزیراعظم عمران خان نے ماسک کا استعمال شروع کیا۔ چار ماہ ہونے کو آرہے ہیں خود عمران خان اور ان کے وزرا کیمرے کے سامنے بھی ما سک کا اہتمام کرنا گوارا نہیں کرتے تھے۔
علاج یہ ہے کہ مجبور کردیا جائوں
وگرنہ یوں تو کسی کی نہیں سنی میں نے
عمران خان نے ماسک پہننا شروع کیا تو یہ کیسے ممکن ہے کہ عثمان بزدار نے ہز ماسٹر وائس کی تقلید نہ کی ہو۔ کورونا کے معاملے میں عمران خان کی ابتدا سے ایک ہی حکمت عملی تھی کہ کورونا کے بارے میں جتنا سوچو گے اتنے ہی زیادہ اذیت میں مبتلا رہوگے۔ کورونا کے سلسلے میں عمران خان عوام کو تسلی دیتے وقت جب یہ کہتے تھے کہ کورونا پاکستان کی گرمی کا موسم برداشت نہیں کرپائے گا یہ بالکل ایسا ہی تھا جیسے رشتہ طے کرتے وقت کہا جاتا ہے کہ لڑکا شادی کے بعد سدھرجائے گا۔
حکومت کرنے کا عمران خان کے پاس ایک ہی طریقہ ہے۔ میٹنگ۔ جنرل ضیا الحق بھی میٹنگ میٹنگ بہت کھیلتے تھے۔ ان کا وصف یہ تھا کہ دوران میٹنگ سوجایا کرتے تھے اور خواب میں جو کچھ دکھائی دیتا تھا اسے میٹنگ کا حاصل سمجھ لیا کرتے تھے۔ اسی پر عمل کیا کرتے تھے اور کمال یہ تھاکہ کامیاب بھی ہوجایا کرتے تھے۔ وہ ایک باخبر شخص تھے صرف میٹنگوں پر اکتفا نہیں کرتے تھے۔ عمران خان محض میٹنگوں پر ہی انحصار کرتے ہیں۔ مجال ہے ذرا فیلڈ میں نکل کر دیکھ لیں ’’کہتی ہے تجھ کو خلق خدا گالیوں میں کیا‘‘ وہ حکومت، حقائق اور خلق سے دور چلے گئے ہیں۔ لا علمی کی جنت میں جو احمق بستے ہیں ان میں انہیں ایک اعلیٰ مقام حاصل ہے۔ ان پر جو لوگ مسلط کردیے گئے ہیں وہ وفا سے زیادہ وفات پر یقین رکھتے ہیں۔ یہاں وفات سے مراد ہے انتقال۔ بیرون ملک انتقال۔ عمران خان ان لوگوں کے نرغے میں ایسے پھنس گئے ہیں کہ نکلنا بھی چاہیں تو نکل نہیں سکتے۔
عمران خان ایک کمزور اور لا چار وزیراعظم ہیں۔ انہیں پتا ہی نہیں ملک میں ہو کیا رہا ہے۔ ان کا حال بیوٹی پارلر کے سامنے بیٹھے ہوئے اس باباجی جیسا ہے جس نے پارلر میں جانے والی خواتین کو کبھی باہر نکلتے نہیں دیکھا۔ ان کی حکومت کی کارکردگی دیکھتے ہوئے اسٹیبلشمنٹ نے بھی حساس معاملات کو مکمل طور پر اپنے ہاتھ میں لے لیا ہے۔ ان کے وزیر خارجہ جو ہر وقت خود کو وزیراعظم پوز کرتے ہیں انہیں خارجہ معاملات میں برائے نام یا پھر شامل ہی نہیں کیا جاتا۔ انہیں خارجہ پالیسی کے اہم امور سے دور رکھا جارہا ہے۔ گزشتہ ہفتے چیف آف آرمی اسٹاف، ڈی جی آئی ایس آئی اور نمائندہ خصوصی نے افغان حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات میں سہولت پیدا کرنے کے لیے کابل کا دورہ کیا تو وزیر خارجہ کی غیر موجودگی نمایاں تھی۔ مذاکرات کا مقصد افغانستان سے امریکیوں کے انخلا کی راہ ہموار کرنی تھی۔ کئی ماہ پہلے جب وزیراعظم نے کچھ منتخب صحافیوں کو سوال جواب کے لیے مدعو کیا تھا تو ایک صحافی نے نشاندہی کی تھی جناب وزیراعظم آپ کے اردگرد سب غیر منتخب اور نامزد لوگ بیٹھے ہیں۔ اب صرف پاکستان ہی میں نہیں عالمی سطح پر بھی محسوس کیا جارہا ہے کہ پاکستان کے مشیر برائے مالیاتی امور، وزیرداخلہ، سیکرٹری داخلہ، مشیر برائے قومی سلامتی، این ڈی ایم اے، سی پیک اور این سی او سی سب نامزد لوگ ہیں۔ سب عمران خان پر مسلط کردہ ہیں۔
پلاسٹک کے خالی شاپرز اور خالی دماغوں میں قدر مشترک یہ ہے کہ دونوں ہی ہوا میں اڑنے لگتے ہیں۔ گزشتہ دنوں عمران خان نجانے کن ہوائوں میں اڑ رہے تھے کہ کورونا کے سبب بھوک سے مرنے والے بھارتیوں کی امداد کے سلسلے میں اپنے تجربات شیئر کرنے کا اعلان کردیا۔ بھارت نے عمران خان کی اس پیش کش کو حقارت سے ٹھکراتے ہوئے کہا ’’پاکستان کو معلوم ہونا چاہیے وہ خود قرض میں ڈوبا ہوا ہے جب کہ بھارت نے کورونا وائرس سے متاثر ہونے والی معیشت کی بحالی کے لیے جس امدادی پیکیج کا اعلان کیا ہے وہ پاکستان کی سالانہ مجموعی پیداوار (جی ڈی پی) کے برابر ہے‘‘۔ نجانے عمران خان بھارت کے ساتھ کیا شیئر کرنا چاہتے تھے۔ عمران خان نے پاکستان کے غریبوں کی امداد کے لیے جس رقم کا وعدہ کیا تھا تمام تر جھوٹ اور پروپیگنڈے کے انہوں نے ابھی تک اعلان کردہ رقم کا بمشکل نصف ہی غریبوں کو مہیا کی ہے۔ اگلے ایک برس کے لیے انہوں نے چار کروڑ افراد کے لیے 71ارب روپے کا اعلان کیا ہے۔ چار کروڑ افراد کے ایک سال کے اخراجات اور محض 71ارب روپے۔ یہ ایک ظالمانہ مذاق ہے۔ خبر ہے کہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے لداخ پر دوباہ قبضے کے لیے عمران خان سے اقوام متحدہ والی تقریر شیئر کرنے کی فرمائش کی تھی عمران خان کچھ اور سمجھ بیٹھے۔
اسد عمر نے خبردار کیا ہے کہ پاکستان میں جولائی تک کورونا متاثرین کی تعداد 12لاکھ تک پہنچ جائے گی۔ ملک میں بیک وقت اتنے بحران پیدا کر لینا عمران خان کی حکومت کی وہ خوبی ہے جس میں وہ بے مثال ہیں۔ آٹا بحران، چینی بحران، پٹرول بحران، دوائوں کا بحران اور نجانے کس کس چیز کا بحران جب کہ یہ سب اشیا ملک میں وافر مقدار میں موجود ہیں۔ جو بحران موجود تھا اسے وہ تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں تھے۔ کورونا بحران۔ جو بھی کورونا کے خلاف کچھ کرتا اس کے خلاف وہ محاذ کھڑا کردیتے۔ سندھ حکومت نے ابتدا میں اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا پوری وفاقی حکومت اس کے پیچھے پڑ گئی۔ عالمی ادارہ صحت نے حکومت کی متواتر غلطیوں کی نشاندہی کی تو تحریک انصاف کے وفاقی اور صوبائی وزرا اور مشیران نے اس کے خلاف محاذ کھڑا کردیا۔ ایک طرف اندرون ملک موثر لاک ڈائون نہیں کیا دوسری طرف
وزیراعظم نے بیرون ملک موجود پاکستانیوں کی پاکستان آمد کے لیے بھی اقدامات کرنا شروع کردیے۔ ستم یہ کہ واپسی پر ان کے ٹیسٹ اور قرنطینہ کا بندوبست بھی نہیں کیا حالانکہ ان میں نصف سے زائد کورونا سے انفیکٹڈ تھے۔ پوری دنیا نے اندرون ملک پروازیں معطل کردیں تھیں ہم نے پروازیں معطل کرنا تو کجا ٹرین اور بس سروس بحال کردی۔ اب ہم ان حماقتوں کی قیمت چکانے جا رہے ہیں۔
مسئلہ یہ ہے کہ ان غلط فیصلوں کی ذمے داری لینے کے لیے کوئی تیار نہیں۔ عمران خان تو شروع ہی سے یو ٹرن میں پناہ لے لیتے ہیں حالانکہ کورونا کے متاثرین کی بڑھتی ہوئی تعداد کا اگر کوئی شخص سب سے زیادہ ذمے دار ہے تو وہ عمران خا ن ہے۔ وہ پہلے دن سے اس معاملے میں عوام کو گمراہ کرتے آئے ہیں۔ اب جب کہ کورونا بے قابو ہو گیا ہے وہ عوام کو مورد الزام ٹھیرا رہے ہیں کہ عوم ذمے داری کا مظاہرہ نہیں کررہے۔ وزرا پہلے میڈیا کو الزام دیتے تھے اب ایک دوسرے کو ذمے دار قرار دینے لگے ہیں۔ پہلے حکومت مخالفین گالیاں دیتے تھے اب پورا ملک گالیاں دے رہا ہے۔ اس مرتبہ لیکن ایک فرق ہے۔ عوام عمران خان کے لانے والوں کو بھی حکومتی جرائم اور لاپروائیوں میں برابر کا شریک سمجھ رہے ہیں اور برا بھلا کہہ رہے ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ بھی اس عوامی مزاج کو سمجھ رہی ہے اور بتدریج حکومت اور اس کے فیصلوں سے دور ہوتی جا رہی ہے۔ اسٹیبلشمنٹ کا یہ فیصلہ کچھ زیادہ ہی شدت سے ناکام ہوا ہے۔ ایسے میں اگر بھارت نے کوئی چھیڑ چھاڑ کردی جس کے امکان مسترد نہیں کیے جا سکتے جس کا نتیجہ عوامی توقعات کے برعکس نکلا تو عوامی غم وغصے کا راستہ روکنا مشکل ہوجائے گا۔ لگ ایسا رہا ہے کہ شاید کہیں واپسی کا راستہ تلاش کیا جا رہا ہے۔