ونیزویلا میں امریکی شکست

364

جاوید اکبر انصاری
تیس سال ہونے کو آئے امریکی سامراج ونیزویلا پر حملہ آور ہے اور اس پورے دور میں ہر مرحلے پر ذلت آمیز شکست کھاتا رہا ہے۔ ونیزویلا لاطینی امریکا کا سب سے کامیاب سرمایہ دارانہ انقلاب ثابت ہوا ہے جس نے عالمی سرمایہ دارانہ سامراجی بے بسی کو واضح کردیا ہے۔
امریکی حملہ :ویسے تو امریکی تخریب کاری ہوگوشاویز کی ۱۹۸۹ میں پہلی بغاوت کے وقت سے شروع ہوگئی تھی لیکن ۲۰۰۲ کی امریکی ایما پر کی گئی ناکام بغاوت کے بعد کچھ ماند پڑگئی۔ اوباما نے اس مہم کو پھر سے منظم کرنے کی داغ بیل 2012ء میں شاویز کی موت کے بعد ڈالی اور ۲۰۱۹ میں امریکی جارحیت اپنے نکتہ عروج کو پہنچ گئی۔ آج امریکا ونیزویلا کے بین الاقوامی اثاثوں پر قبضہ جما چکا ہے۔ اس نے ونیزویلا کے تیل کی غیر ملکی ترسیل پر سخت پابندیاں عائد کردی ہیں۔ ونیزویلا کے سونے کے ذخائر کو برطانوی بینکوں نے منجمد کردیا ہے۔ اوباما نے پابندیوں (sanction) کی جو بھرمار ونیزویلا پہ کی تھی اس میں ہوشربا اضافہ کردیا گیا ہے۔ یہ خوراک اور دوائیوں کی ترسیل پر بھی لاگو ہیں۔ امریکا نے ان پابندیوں کے ذریعے ونیزویلا کو ایک محصور ملک بنا دیا ہے۔ امریکا نے بڑے پیمانے پر ونیزویلا پر سائبر حملے کیے اور اس سال کے شروع میں کچھ دنوں سے ان کے نتیجہ میں ونیزویلا کا بجلی کا نظام معطل ہوگیا تھا۔ ان حملوں میں وہی جدید ترین ٹیکنالوجی استعمال کررہا ہے، جو اس نے ایران کی نیوکلیئر تنصیبات کے خلاف استعمال کی تھی اس جنگ میں امریکا کو ناٹو اور ونیزویلا کے ہمسایہ ممالک برازیل، کولمبیا اور یوراگوائے کی بھرپور حمایت حاصل ہے۔
امریکی دہشت گردی کے آلہ کار اور گھس پیٹھیے بڑے پیمانے پر ونیزویلا کے ریاستی نظام اور معاشرے میں سرایت کرگئے ہیں۔ ونیزویلا کی منتخب مقننہ میں صدر نکولس مادورو کی جماعت کی اکثریت نہیں اس میں امریکی با جگزار بھرے پڑے ہیں اور انہوں نے دس مہینے قبل مادورو کی حکومت کو برطرف کرنے کا اعلان کردیا تھا۔ تاجروں اور صنعت کاروں کی ملک گیر تنظیم بھی سامراج کی حلیف اور انقلابی حکومت کی مخالف ہے۔ طالب علموں اور دانشوروں کا ایک بڑا حصہ امریکی پٹھوئوں کا کردار ادا کررہے ہیں۔
اس سب کے باوجود وہاں انقلابیوں کی حکومت قائم ہے اور امریکا ہنوز ذلیل ہورہا ہے۔ یہ کیسے ممکن ہوا؟ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ انقلاب کے اوائل ہی سے انقلابی جماعت اور اس کے قائدین کو یہ احساس تھا کہ عوامی معاشرتی صف بندی انقلاب کے تحفظ اور پھیلاؤ کے لیے ناگزیر ہے۔ انقلابی جماعت کو عوامی زندگی کی روزمرہ کی زندگی کی ہرکشمکش کو انقلابی عمل میں سمو لینے کی ضرورت کا احساس تھا۔ انہوں نے جو ریاست تعمیر کی اس میں عوامی روز مرہ کی جدوجہدوں کو منظم کرنے کی اور مہمیز دینے کی گنجائش دستور میں ترمیم کے ذریعہ کی گئی۔ ریاستی قوت کا باقاعدہ منصوبے کے ذریعے حکومتی سطح سے معاشرے کے نچلے ترین حلقوں تک منتقل کرنے کا انتظام کیا گیا۔
۲۰۱۹ کی ابتداء تک ملک بھر میں عوامی انقلابی محلہ جاتی تنظیموں کا ایک وسیع جال بچھا دیا گیا ہے ان محلہ جاتی انقلابی تنظیموں کو کمرشیل کونسل کہا جاتا ہے۔ شہروں میں ہر محلہ جاتی کونسل میں ۲۰۰ سے ۴۰۰ خاندان شامل کیے جاتے ہیں۔ یہ کمیٹیاں سیاسی بھی ہیں معاشی بھی اورثقافتی ادارہ بھی۔ ان کی کارفرمائی نے انقلابی عمل کو تقریباً ناقابل تسخیر بنادیا ہے۔ ان کمیٹیوں کے ارکان اپنی جان پر کھیل کر سامراج کے خلاف انقلاب کے دفاع کے لیے ہر وقت تیار رہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ امریکا نے اپریل ۲۰۱۹ میں مطالبہ کیا کہ ان کمیٹیوں کو رسوائے زمانہ ’’دہشت گردی‘‘ کی فہرست میں شامل کیا جائے۔ ان کمیٹیوں کے تقریباً تین ملین افراد ہتھیار بند ہیں اور یہی ونیزویلا کی فوجی عوامی اتحاد کی ریڑھ کی ہڈی ہیں۔ اس میں ہمارے لیے سب سے پہلا سبق تو یہ ہے کہ آج کے دورمیں امریکا سامراج کا مقابلہ ممکن ہے۔ امریکا ایک بزدل، پست ہمت اور زوال پزیر قوت ہے۔ وہ صرف اپنے سے کمزور حریفوں پر حملہ آور ہوتا ہے اور وہ بھی ایسے حریف جو منتشر اور غیر منظم ہوں۔ آج تک نہ وینزویلا کے خلاف امریکا فوج کشی کرسکا نہ کیوبا کے خلاف، افغانستان سے ایک پٹے ہوئے کتے کی طرح راہ فرار تلاش کررہا ہے۔ اس نے جو ایک ملین کے قریب فوجی اور ان کے معاونین مشرق وسطیٰ کی جنگوں میں جھونک دیے ہیں وہ سب امریکا واپس جاکر ذہنی مریض بنے ہوئے ہیں اور ان کی وجہ سے امریکی معاشرے میں یاسیت اور احساس ناکامی ایک وبا کی طرح پھیل رہا ہے۔
دور حاضر میں امریکا کے پاس سب سے بڑا ہتھیار اقتصادی پابندیاں ہیں، امریکا کے پاس یہ طاقت موجود ہے کہ وہ اپنے مخالف ممالک اور گروہوں کی بین الاقوامی تجارت اور ترسیل زر پر اپنی پٹھو سامراجی تنظیموں بالخصوص FATF.IPO.WTO اور اقوام متحدہ کے ذریعے حدبندیاں نافذ کردے اور یہ حدبندیاں ملکی معیشت کو نقصان پہنچاتی ہیں لیکن یہ دنیا میں کہیں بھی انقلابی عمل کو ناکام نہ کرسکی نہ چین میں، نہ کیوبا میں، نہ ایران میں، نہ ونیزویلا میں، نہ شمالی کوریا میں۔ پاکستانی معیشت پر تو sanctions کا اثر نہایت محدود ہوگا جیسا کہ سن ۲۰۰۰، ۱۹۹۹ کے تجربہ سے ثابت ہے جب ہمیں نیو کلیئر دھماکے کی سزا دینے کے لیے پابندیاں نافذ کی گئی تھیں۔ اس سال ملکی پیدوار کی شرح نمو فی صد تھی، inflation نہ ہونے کے برابر تھا اور روپیہ کا بین الاقوامی نرخ (rate of exchange) مستحکم رہا۔ آج بھی بین الاقوامی تجارت کا حجم ملکی پیدوار میں تین فی صد سے زیادہ نہیں۔ بین الاقوامی سرمایہ کاری مجموعی سرمایہ کاری کا دس فی صد بھی نہیں۔ سامراج سے حاصل شدہ بھیک کا نوے فی صد سامراج کی سودی اور اصل کی ادائیگیوں میں خرچ ہوجاتا ہے عملاً پاکستان ایک خود کفیل معیشت ہے جس پر پابندیوں کا اثر لازماً محدود رہے گا۔
ونیزویلا کے تجربات سے تیسرا اور سب سے اہم سبق جو ہم حاصل کرسکتے ہیں وہ یہ ہے کہ انقلابی اکیلے سامراجی جارحیت کا مقابلہ نہیں کرسکتے۔ اگر منظم اور متحرک عوام کا ایک بڑا حصہ ان کی پشت پر صف آرا نہ ہو عوام کے ایک بڑے جتھے کو منظم اور متحرک کرنا انقلابیوں کی بقا کے لیے ناگریز ہے۔ عوام اپنی روایتی قیادت ہی کے ماتحت منظم اور متحرک ہوتے ہیں اور پاکستان میں عوام کی فطری قیادت آئمہ مساجد، علماکرام، صوفیان عظام اور ہمارے مبلغین کی جماعتیں ہی فراہم کرسکتی ہیں۔ انقلابی براہ راست عوام کی روز مرہ کی زندگی داخل ہونے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ لہٰذا مصلحین کی صف بندیوں کے ذریعہ ہی انقلابی عوام تک رسائی حاصل کرسکتے ہیں۔
مصلحین کی ادارتی صف بندیاں حصول قوت کی جدوجہد سے فی الحال تقریباً بالکل لاتعلق ہیں انقلابیوں کو ان کو باور کروانا ہے کہ تحفظ دین اور غلبہ دین اقامت دین کے دومشترک پہلو ہیں۔ جب تک مصلحین کے تعاون سے مسجد کی سطح پر ایسا اسلامی اقتدار مرتب نہ ہوگا جو عوام کی روز مرہ کی زندگیوں کو متاثر کرسکے اس وقت تک اسلامی ریاست کے قیام کی جدوجہد غیر مربوط اور مضمحل رہے گی۔ انقلابیوں کے لیے ضروری ہے کہ محلہ یا بازار اور برادریوں کی سطح پر مخلصین دین کو مصلحین کی قیادت میں ایسے منظم اور متحرک کریں کہ اقتدار ریاستی عدلیہ، انتظامیہ اور مقننہ کے ہاتھوں سے نکل کر عوامی اسلامی اداروں (یعنی بین المسالک اوقاف المساجد) کے ہاتھوں میں مستقل منتقل ہوتا رہے۔