سیاست میں مائنس‘ پلس کا کھیل

739

ہمارے دوست کہتے ہیں کہ موجودہ سیاست میں مائنس پلس کا کھیل آج پہلی بار نہیں ہورہا، یہ تو جنرل ایوب خان کے دور سے جاری ہے جب اس نے اپنے ہی ملک پر قبضہ کرکے جمہوریت کو یرغمال بنالیا تھا۔ فوج کا قیام پاکستان کی جدوجہد میں رتّی بھر حصہ نہ تھا بلکہ فوج اس وقت موجود ہی نہ تھی جب برصغیر کے مسلمان عوام قائداعظم محمد علی جناح کی قیادت میں پاکستان کی صورت اگر کوئی فوج تھی تو وہ برٹش آرمی تھی جس میں ہندو، مسلمان اور سکھ فوجی سب انگریز جرنیلوں کی کمان میں تھے اور برٹش آرمی برصغیر کے لوگوں کو آزادی کی جدوجہد سے روکنے کے لیے بے دردی سے استعمال جارہی تھی۔ امرتسر کے جلیاں نوالہ باغ میں جلسے کو منتشر کرنے کے لیے جنرل ڈائر کے حکم پر اس برٹش آرمی نے گولی چلائی تھی اور بے گناہ لوگوں کا قتل عام کیا تھا۔ ان لوگوں کا قصور اس کے سوا اور کچھ نہ تھا کہ وہ انگریز راج سے آزادی کا مطالبہ کررہے تھے۔ گولی چلانے والے یہی ہندو، مسلمان اور سکھ فوجی تھے جو اپنے انگریز کمانڈر کا حکم بجا لارہے تھے۔ ہندوستان تقسیم ہوا اور دو آزاد ملک بھارت اور پاکستان وجود میں آئے۔ اسی طرح ہندوستان کے اثاثے بھی تقسیم ہوئے۔ ان اثاثوں میں برٹش آرمی بھی تھی۔ ہندو اور سکھ فوجی بھارت کو مل گئے اور مسلمان فوجی پاکستان کے حصے میں آگئے، انگریز نے مسلمان اکثریت والے علاقوں سے بہت سے فوجی بھرتی کیے تھے اس لیے تقسیم برصغیر کے بعد متعدد فوجی یونٹس پاک فوج کا حصہ بن گئے۔ ان میں تربیت یافتہ فوجی افسروں کی تعداد بھی اچھی خاصی تھی جب کہ پاک فوج کی کمان ابھی ایک انگریز جنرل گریسی کے پاس تھی جس نے کشمیر میں پیش قدمی کے لیے قائداعظم کا حکم ماننے سے انکار کردیا تھا۔ جنرل گریسی سبکدوش ہوا تو نظر انتخاب جنرل ایوب خان پر پڑی جو سینڈھرسٹ کے تربیت یافتہ سینئر فوجی افسر تھے۔ قائداعظم وفات پاچکے تھے بعد میں لیاقت علی خان کو بھی شہید کردیا گیا تھا۔ سیاستدان آپس میں اُلجھے ہوئے تھے، حکومت تماشا بنی ہوئی تھی ایسے میں جنرل ایوب خان کے اندر حکمرانی کی خواہش نے انگڑائی لی۔ پہلے انہوں نے سول حکمرانوں کو ڈکٹیٹ کرنے کی کوشش کی فوج کا سربراہ ہونے کے باوجود ملک کے وزیردفاع بھی بن گئے اور وفاقی کابینہ کے اجلاسوں میں بیٹھنے لگے جہاں وزیراعظم سمیت تمام وزرا ان کے فرمودات سننے کے منتظر رہتے تھے۔ جب انہوں نے یہ دیکھا کہ ان حکمرانوں کے جسم میں تو ریڑھ کی ہڈی ہی نہیں ہے انہیں جس طرف چاہے موڑا جاسکتا ہے تو ان کے اندر براہِ راست حکومت کرنے کی خواش کلبلانے لگی اور انہوں نے اکتوبر 1958ء میں سول حکومت کو برطرف کرکے اقتدار پر قبضہ کرلیا وار ملک کے مطلق العنان حکمران بن بیٹھے۔
ہم دیکھتے ہیں کہ بھارت میں بھی یہ کوشش کی گئی اس کا پہلا فوجی سربراہ بھی برٹش آرمی کا پروردہ تھا اس کے اندر بھی سول حکمرانوں پر غلبہ حاصل کرنے اور انہیں ڈکٹیٹ کرنے کی خواہش مچل رہی تھی۔ چناں چہ اس نے یہ کوشش کی لیکن اُس وقت تحریک آزادی کے قائدین زندہ تھے، پنڈت جواہر لعل نہرو ملک کے وزیراعظم تھے انہوں نے آرمی چیف کی حرکت پر فوری ردعمل ظاہر کرتے ہوئے اسے وردی اُتارنے کا حکم دے دیا اور کہا کہ تمہارا کام صرف حکم بجا لانا ہے حکم دینا نہیں۔ فوج کا سربراہ وہیں ٹھٹھر گیا اور اس وقت سے آج تک فوج کی قیادت پھر کبھی سول حکومت کے معاملات میں مداخلت نہیں کی۔ وہاں ہر پانچ سال بعد عام انتخابات ہوتے ہیں اس عمل میں کبھی رخنہ نہیں پڑا۔ کوئی آہنی ہاتھ سیاست میں مائنس پلس کا کھیل نہیں کھیلتا۔ یہ اختیار صرف عوام کو حاصل ہے کہ اپنے ووٹ کے ذریعے جسے چاہیں مائنس کردیں، جسے چاہیں پلس کردیں۔ اگرچہ بھارت کی سیاست میں بھی بڑا دھوکا ہے، سیاسی جماعتیں مذہبی تعصبات کو بھڑکا کر اپنا اُلّو سیدھا کررہی ہیں، موجودہ برسراقتدار پارٹی نے غیر ہندو اقلیتوں خصوصاً مسلمانوں اور عیسائیوں کا جینا دوبھر کردیا ہے اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی میں بھارت دنیا کے اولین ملکوں میں شمار ہوتا ہے لیکن ان تمام خرابیوں کے باوجود بھارت میں سیاسی استحکام موجود ہے اور سیاسی استحکام کے نتیجے میں ملک کی معیشت ترقی کررہی ہے۔ امریکی ڈالر کے مقابلے میں بھارتی روپیہ مستحکم ہے، عالمی منڈی میں اس کی قدر بڑھ رہی ہے اور اس وقت اٹھارہ ممالک بھارتی کرنسی میں اس کے ساتھ تجارت کررہے ہیں۔
بھارت کے ساتھ پاکستان کا موازنہ اس لیے ضروری ہے کہ دونوں ایک ہی خطے کے ملک ہیں، دونوں ایک ساتھ آزاد ہوئے، دونوں کو ایک جیسے معروضی حالات کا سامنا تھا بلکہ بھارت کو سماجی، تہذیبی، مذہبی اور قومیتی مسائل کے حوالے سے زیادہ بحران کا سامنا تھا لیکن اس کی اولین سیاسی قیادت نے ابتدا ہی میں یہ طے کرلیا تھا کہ وہ قومی بحران سے نمٹنے کے لیے فوج کو دخل اندازی کا موقع نہیں دے گی اور اسے اس کی حد میں رکھے گی۔ بھارتی فوجی قیادت نے کوشش کی لیکن وہ ناکام رہی۔ لیکن پاکستان میں ایسا نہ ہوسکا۔ قائداعظم اور لیاقت علی خان کے بعد جو سیاستدان اقتدار میں آئے وہ کردار کے بودے ثابت ہوئے خود ان میں اقتدار کی چھینا جھپٹی شروع ہوگئی اور ایک جرنیل کے مقابلے میں سیاسی استقامت کا مظاہرہ نہ کرسکے۔ پہلے تو وہ انہیں ڈکٹیٹ کرتا رہا پھر براہِ راست اقتدار پر قابض ہو کر سیاست میں مائنس پلس کا کھیل کھیلنے لگا۔ اس نے ’’ایبڈو‘‘ کا رسوائے زمانہ قانون بنا کر تمام مخالف سیاستدانوں کو سیاست سے مائنس کردیا۔ اِن سیاستدانوں میں تحریک پاکستان کے نامور قائد حسین شہید سہروردی بھی تھے جنہوں نے ایبڈو کو عدالت میں چیلنج کیا لیکن ناکام رہے اور جان بچانے کے لیے انہیں جلاوطنی اختیار کرنا پڑی۔ اسی حالت میں وہ بیروت میں جان کی بازی ہار گئے۔ پاکستان چونکہ برصغیر کے مسلمانوں کی سیاسی و جمہوری جدوجہد کے نتیجے میں وجود میں آیا ہے اس لیے یہاں جمہوریت سے فرار ممکن نہیں ہے۔ پاکستان کے پہلے فوجی آمر جنرل ایوب خان نے بھی اپنے اقتدار کو دوام بخشنے کے لیے جمہوریت کا سہارا لیا اور بنیادی جمہوریتوں کا نیا نظام وضع کرکے اقتدار پر قابض رہنا چاہا لیکن بری طرح ناکام ہوا اور عوام نے اسے بیک بینی دوگوش اقتدار سے نکال باہر کیا۔ یہ الگ بات کہ ایک دوسرے جرنیل نے موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اقتدار پر قبضہ کرلیا۔ اس نے عوام کو مطمئن کرنے کے لیے عام انتخابات کرانے کا اعلان کردیا۔ یہ انتخابات سال ڈیڑھ سال کے طویل وقفے کے بعد 1970ء میں ہوئے، اس وقت تک سیاسی فضا بہت آلودہ ہوچکی تھی۔ انتخابات ہوئے تو اس کے نتیجے میں مشرقی پاکستان کے شیخ مجیب الرحمن کو اکثریت حاصل ہوگئی لیکن فوجی حکمران اسے اقتدار منتقل کرنے پر آمادہ نہ ہوا۔ اس نے شیخ مجیب کو مائنس کرنے کے لیے مشرقی پاکستان میں فوجی آپریشن شروع کردیا، اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ پاکستان اپنے مشرقی بازو سے محروم ہوگیا اور مشرقی بازو نے بنگلادیش کی صورت اختیار کرلی جہاں شیخ مجیب الرحمن کی حکمرانی قائم ہوگئی اور آج بھی وہاں اس کی بیٹی حکومت کررہی ہے۔
سقوط مشرقی پاکستان، پاکستان کیا پورے عالم اسلام کا عظیم سانحہ تھا اور اس کا بنیادی سبب سیاست میں فوج کی مداخلت اور اس کا مائنس پلس کا کھیل تھا۔ لیکن پاکستان کی فوجی قیادت نے اس سے کوئی سبق نہیں سیکھا اور اس سانحہ کے چند سال بعد ہی جنرل ضیا الحق نے ذوالفقار علی بھٹو کی سول حکومت کو معزول کرکے اقتدار پر قبضہ کرلیا۔ پھر ان کی ساری جدوجہد اس بات پر مرکوز رہی کہ بھٹو کو سیاست سے مائنس کرکے نئے چہرے متعارف کرائے جائیں۔ انہوں نے عدلیہ کے ذریعے بھٹو کو پھانسی پر لٹکا دیا لیکن وہ اسے سیاست سے مائنس کرنے میں ناکام رہے۔ بھٹو سیاسی طور پر آج بھی زندہ ہے اور پیپلز پارٹی اس کے نام پر سندھ میں راج کررہی ہے۔ جنرل ضیا الحق جہاز کے حادثے میں دنیا سے رخصت ہوئے تو جنرل اسلم بیگ نے ہوش مندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اقتدار اپنے ہاتھ میں لینے سے گریز کیا اور ملک میں جمہوریت بحال ہوگئی۔ عام انتخابات ہوئے اور یکے بعد دیگرے پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) نے انتخابات میں کامیابی حاصل کرکے اقتدار سنبھالا لیکن مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں نواز شریف سے کامیابی سنبھالی نہ گئی، وہ جوش میں آکر بم کو لات مار بیٹھے اور جنرل پرویز مشرف نے موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اقتدار پر قبضہ کرلیا۔ انہوں نے بھی سیاست میں مائنس پلس کا کھیل کھیلتے ہوئے میاں نواز شریف اور بے نظیر بھٹو دونوں کو سیاست سے مائنس کرنے کی کوشش کی لیکن ناکام رہے۔
بے نظیر بھٹو تو قاتلانہ حملے میں دنیا سے رخصت ہوگئی لیکن میاں نواز شریف آج بھی موجود ہیں اور ان کی سیاسی اہمیت برقرار ہے۔
سیاست میں غیر معمولی فوجی مداخلت کا عمل جنرل باجوہ کے دور میں شروع ہوا جب انہوں نے عدلیہ کے ذریعے میاں نواز شریف کو نااہل قرار دلوا کر ’’عمران پروجیکٹ‘‘ شروع کیا اور 2018ء کے عام انتخابات کے ذریعے عمران خان اور ان کی تحریک انصاف کو برسراقتدار لانے میں کامیاب رہے۔ جنرل باجوہ کا اصل منصوبہ یہ تھا کہ بظاہر عمران خان کی حکومت ہوگی لیکن پس منظر میں حکمرانی ان کی ہوگی اور حکومت کی ساری پالیسیاں ان کی مرضی کے تابع رہیں گی۔ اسے ’’ون پیج‘‘ کا نام دیا گیا اور 2 سال تک اس کا خوب چرچا رہا۔ لیکن پھر عمران خان نے پَر پرزے نکالے اور اپنے آئینی اختیارات پر اصرار کرنے لگے تو پھڈا پڑ گیا اور جنرل باجوہ نے اپوزیشن جماعتوں کے تعاون سے تحریک عدم اعتماد کے ذریعے عمران خان کو اقتدار سے باہر کیا۔ جنرل باجوہ نے اپنی ریٹائرمنٹ کے موقع پر اعتراف کیا کہ فوج سیاست میں دخل اندازی کرتی رہی ہے لیکن اب ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ غیر جانبدار رہیں گے اور سیاست میں دخل نہیں دیں گے۔ چاہیے تو یہ تھا کہ اس فیصلے پر عمل ہوتا لیکن ایسا نہ ہوسکا اور نئی فوجی قیادت پہلے دھیمے سروں میں اور اب 9 مئی کے افسوسناک واقعات کے بعد پوری شدت کے ساتھ سیاست میں دخل اندازی کررہی ہے اور پی ڈی ایم کی حکومت اس کی آلہ کار بنی ہوئی ہے۔ اب فوجی قیادت اور پی ڈی ایم حکومت کا اولین ہدف یہ ہے کہ عمران خان اور ان کی تحریک انصاف کو سیاست سے مائنس کردیا جائے۔ انہوں نے تحریک انصاف کو ٹکڑے ٹکڑے کردیا ہے اور عمران خان کو بندگلی میں پہنچا دیا ہے جہاں سے انہیں نکلنے کا کوئی راستہ نظر نہیں آرہا۔ کہا جارہا ہے کہ عمران اور ان کی جماعت عملاً مائنس ہوچکے ہیں، قومی سیاست میں ان کا کوئی کردار نہیں رہا۔ کیا ایسا ہی ہے؟ مائنس یا پلس کرنے کا اختیار تو صرف عوام کو ہے جب بھی انتخابات ہوئے تو حقیقت کھل کر سامنے آجائے گی، لیکن اس وقت تک پاکستان کا بہت نقصان ہوچکا ہوگا۔ ملک میں جو کچھ ہورہا ہے اسے فاشزم کے سوا کوئی نام نہیں دیا جاسکتا، فاشزم سے ملک ٹوٹ جاتے ہیں اور قومیں تباہ ہوجاتی ہیں۔