حافظ نعیم الرحمن کراچی کی آواز

512

ہمارے ایک رکن جماعت، دیرینہ دوست اور تحریکی ساتھی ثناء اللہ فریدنے مجھے فون کیا اور کراچی میں جماعت اسلامی کی کامیابی کے بارے میں معلومات حاصل کیں بالخصوص لیاقت آباد کے حوالے سے وہ بہت خوش تھے کہ یہاں سے جماعت نے کلین سوئپ کیا ہے انہوں نے کہا کہ میں حافظ نعیم الرحمن کو وائس آف کراچی کا خطاب دینا چاہتا ہوں آپ اس موضوع پر مضمون لکھیں کہ پچھلے چار پانچ برسوں کی دن رات محنت کے باعث وہ کراچی کی حقیقی آواز بن کر ابھرے ہیں۔ میں نے جواب دیا کہ یہ بات آپ کی بات سو فی صد درست ہے کہ نعیم بھائی نے جس طرح عوامی مسائل کو آگے بڑھ کر ایڈریس کیا اور انہوں نے دیگر سیاسی جماعتوں کے رہنمائوں کی طرح محض صرف اخباری بیان ہی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ جو لوگ ان کے پاس اپنے مسائل کے حوالے سے آئے ان کے ساتھ متعلقہ محکموں میں جاکر ان کے مسائل حل کرائے، کے الیکٹرک نے کراچی کے عوام پر جو ظلم روا رکھا ہوا ہے حافظ نعیم الرحمن کراچی کے مظلوموں کی آواز بن کر، کے الیکٹرک کے سامنے ڈٹ گئے۔ کے الیکٹرک نے خاموشی سے جو دھاندلی کی ہے حافظ صاحب نے اس دھاندلی پر بآواز بلند کے الیکٹرک کے ذمے داروں کو جھنجھوڑا، کے الیکٹرک نے آتے ہی پہلے تو کراچی سے تانبے کے تار چوری کیے اور ان کی جگہ سلور کے تار ڈالے جن کی کارکردگی انتہائی ناقص ہے۔ تانبے کے جو تار چرائے گئے ہیں ان کی مالیت کم از کم تین ارب روپے ہے۔ حافظ صاحب کا مطالبہ ہے کہ یہ کراچی کے عوام کے پیسے ہیں اسے واپس کیا جائے۔ اسی طرح گھروں پر جو میٹر لگائے جاتے ہیں کے الیکٹرک کنکشن دیتے وقت اس کی قیمت صارف سے وصول کرلیتی ہے لیکن اس کے باوجو د وہ میڑ رینٹ کے نام سے کراچی کے شہریوں کو لوٹ رہے تھے حافظ صاحب نے وہ پیسے کراچی کے شہریوں کو واپس دلائے۔ کے الیکٹرک کے ساتھ جو معاہدے ہوئے تھے وہ کراچی کے عوام کو دکھایا جائے اسی طرح معاہدے کے مطابق کے الیکٹرک کو اپنے پاور پلانٹ بنانا تھے وہ نہیں بنائے گئے اسی طرح اور بہت سارے مسائل ہیں جن کے سلسلے میں حافظ نعیم الرحمن نے عدالت کا دروازہ بھی کھٹکھٹایا ہوا ہے اور وہ ہر پیشی پر اپنے وکیل کے ساتھ عدالت میں پیش ہوتے ہیں۔
اسی طرح حافظ صاحب نے بحریہ ٹائون کے متاثرین کا مسئلہ حل کرایا کہ کئی سال سے ان متاثرین کے اربوں روپے پھنسے ہوئے تھے جو واپس نہیں مل رہے تھے حافظ صاحب نے یہ مسئلہ اٹھایا اور بحریہ ٹائون کے ملک ریاض دو مرتبہ اس سلسلے میں ادراہ نورحق خود چل کر آئے اور وہ یہ رقوم واپس کرنے پر تیار ہوئے کچھ رکاوٹیں تھیں وہ بھی دور ہو گئیں اور متاثرین کو یہ رقوم واپس ہو گئیں۔ شناختی کارڈ کے حوالے سے نادرا کی زیادتیوں سے عام لوگ بہت پریشان تھے اس کی تفصیلات بہت زیادہ ہے اس میں جانے کی ضرورت نہیں ہے اور اس کے علاوہ بھی مختلف اداروں، ہائوسنگ سوسائٹیوں کے ذمے داروں نے بھی اپنے مسائل کے حوالے ادراہ نور حق میں رابطہ کیا اور ان کے مسائل حل کیے گئے، بلکہ حافظ صاحب نے ادارہ نور حق میں پبلک ایڈ کمیٹی کے زیر نگرانی مختلف شعبوں کے الگ الگ کائونٹرز بنائے اور اس کے ذمے داروں کا تعین کیا تاکہ لوگوں کے انفرادی مسائل بھی حل کیے جائیں مثلاً کسی کا مسئلہ شناختی کارڈ کا ہے تو وہ شناختی کارڈ یا نادرا کی میز پر بیٹھے فرد سے رابطہ کرے گا اگر کسی کا کے الیکٹرک کے حوالے سے کوئی مسئلہ ہے تو وہ کے الیکٹرک کے کائونٹر پر بیٹھے ہوئے فرد سے رابطہ کرے گا مرکزی پبلک ایڈ کمیٹی نے اسی طرح ہر شعبہ کے الگ الگ کائونٹر بنائے ہوئے ہیں جہاں سائل اپنے مسائل لے کر آتے ہیں وہاںپر موجود جماعت اسلامی کے کارکنان کی روداد سنتے ہیں اور اسے حل کرنے کی کوششیں کرتے ہیں۔
یہ ایک دو روز کی بات نہیں ہے بلکہ مسلسل چار پانچ سال کی شب و روز حافظ نعیم الرحمن اور
ان کی ٹیم کی دوڑ بھاگ کا نتیجہ ہے کہ آج عام لوگ حافظ صاحب کی کارکردگی کے نہ صرف معترف ہیں بلکہ انہوں نے یہ عہد کیا کہ اس دفعہ حافظ نعیم کو کامیاب بنانا ہے کہ جب ایک شخص بغیر کسی اختیارکے اتنے مسائل کو حل کرسلتا ہے تو اسے جب میئر کراچی کا منصب مل گیا تو وہ تو کراچی کے نہ صرف دیرینہ مسائل حل کرے گا بلکہ وہ اپنی محنتوں سے کراچی کو چار چاند لگا دے گا یہی وجہ ہے کہ ہم بلدیاتی مہم کے سلسلے میں جہاں کہیں جاتے جس گلی میں رابطہ کرتے ہر فرد یہی کہتا کہ بھئی اس دفعہ تو ہم نے اور ہمارے محلے والوں نے فیصلہ کیا ہے کہ حافظ نعیم کو کامیاب بنانا ہے کہیں لوگ کہتے کہ اس گلی کے لوگوں نے تو فیصلہ کیا ہے حافظ نعیم کو ووٹ دینا ہے کچھ لوگوں نے یہ بھی کہا کہ ہم نے ہر دفعہ ایم کیو ایم کو ووٹ دیا ہے لیکن وہ ہر مرتبہ حکومت وقت کے ساتھ رہے لیکن مہاجروں کے یا کراچی کے شہریوں کے سلگتے مسائل حل نہیں کیے کئی لوگوں نے یہ کہا کہ ہم نے تحریک انصاف کو ووٹ دیا کراچی سے تحریک انصاف کے 14 ارکان قومی اسمبلی اور 22 ارکان صوبائی اسمبلی کامیاب ہوئے لیکن انہوں نے بھی کراچی کے دیرینہ مسائل پر کوئی توجہ نہیں دی کراچی کے پڑھے لکھے نوجوان سرکاری ملازمتوں کو ترستے رہے اور کراچی سے باہر کے لوگوں کو کراچی میں ملازمتیں دی جاتی رہیں، سندھ کی حکومت کا بجٹ کراچی کے 90فی صد ٹیکسوں سے بنتا ہے لیکن کراچی کی ترقی کے لیے کوئی رقم نہیں رکھی جاتی۔
ایم کیو ایم کو کراچی والوں نے ہر مرتبہ جھولی بھر کر ووٹ اور نوٹ دیے اور اپنے نوجوانوں کے لہو کی قربانیاں بھی دیں لیکن پھر ایم کیو ایم نے کراچی کے شہریوں اور بالخصوص نوجوانوں کے مسائل کو نظر انداز کیا ایم کیو ایم نے تحریک انصاف کی حکومت کی تشکیل میں ان کی معاونت کی اور ان کے ساتھ شامل ہوئے بلکہ ان کی شمولیت کی وجہ سے تحریک انصاف کی ملک میں حکومت قائم ہوئی لیکن پھر یہی عمران خان تھے جنہوں نے سندھ میں شہری نوجوانوں کے حقوق کے قاتل کوٹا سسٹم کو ختم کرنے کے بجائے اسے مستقل کردیا لیکن اس پر ایم کیو ایم خاموش رہی وہ اسی ایک مسئلے پر حکومت چھوڑ دیتی تو کراچی کے نوجوانوں کی آنکھ کا تارا بن جاتی۔ پھر پچھلے پندرہ برسوں سے ہو یہ رہا ہے کہ کراچی کی سرکاری نشستوں پر اندرون سندھ کے لوگوں کے ڈومیسائل بنوا کر ملازمتیں دی جارہی ہیں اور یہ کام سندھ کی متعصب صوبائی حکومت ایک منظم منصوبہ بندی کے ساتھ کررہی ہے۔ ایم کیو ایم نے جن حلقہ بندیوں کا بہانہ بنا کر بلدیاتی انتخاب سے بائیکاٹ کیا اس سے در اصل انہوں نے اپنی فیس سیونگ کی ہے ورنہ اگر وہ اس مے مخلص ہوتے تو جس وقت رجم تبدیل ہورہی تھی اور تحریک انصاف کی حکومت کے قیام کا آخری سہارا ایم کیو ایم بچی تھی اس وقت اگر ایم کیو ایم چاہتی تو پیپلز پارٹی سے حلقہ بندیوں کی تبدیلی، ایک لاکھ کراچی کے نوجوانوں کی سرکاری ملازمتوں کی یقین دہانی حاصل کر سکتی تھی لیکن اس نے چند وزارتوں کے حصول کے چکر میں کراچی کے عام شہریوں کے مسائل کو پس پشت ڈال دیا۔
کراچی کے پڑھے لکھے باشعور لوگوں نے بہت باریکی سے ایم کیو ایم کے کرتوتوں کا جائزہ لیا اور پھر کراچی کے شہریوں کے رجحانات میں ایک انقلابی تبدیلی پیدا ہوئی اور وہ یہ سمجھ گئے اب تک ان کو لسانیت کے نام پر دھوکا دیا جاتا رہا اس لیے اب ہمیں دوبارہ اس شہر کی باگ ڈور جماعت اسلامی کے ہاتھ میں دینا جماعت کے لوگ مخلص، محنتی اور ایماندار ہوتے ہیں وہ کراچی کے شہریوں کی بلا تخصیص خدمت کریں گے۔ اسی بات کو ملک کے معروف صحافی حسن نثار نے اس طرح کہا ہے ’’جماعت اسلامی کا کسی اور جماعت سے کوئی مقابلہ نہیں مڈل کلاس، پڑھے لکھے اور محنتی لوگ ہیں، حافظ نعیم الرحمن قابل ستائش ہیں پرفارم کریں گے ایسا کہ لوگ عش عش کر اٹھیں گے‘‘۔ یہ اللہ کا احسان ہے کہ اس نے کراچی کے لوگوں کے قلوب کو تبدیل کیا ہے اب کراچی کے شہریوں کے دلوں میں جماعت کے لیے ایک محبت پیدا ہوئی ہے جس کا نتیجہ دنیا نے کراچی کے بلدیاتی نتائج سے دیکھ لیا جب کراچی کی
بیس نشستیں اور مل جائیں گی تو جماعت اسلامی کراچی شہر کی سنگل لارجسٹ پارٹی بن جائے گی۔