پاکستان کا تباہ شدہ انتخابی نظام

547

پنجاب اور خیبر پختون خوا کی صوبائی اسمبلیوں کے ٹوٹنے کے بعد کیا پاکستان میں بھی بھارت کی طرح مختلف ریاستوں کے انتخابات مختلف اوقات میں ہوں گے؟ بھارت میں ووٹروں کی تعداد 78کروڑ ہے۔ بھارت میں 28 ریاستیں ہیں اور ہر سال کسی نہ کسی ریاست میں الیکشن ہورہا ہوتا ہے۔ پاکستان میں کل 4 صوبے ہیں جن کے اندر صوبائی اسمبلیوں کے الیکشن قومی انتخابات کے ساتھ ہی ہوتے ہیں۔ لیکن اب ایسا معلوم ہورہا ہے کہ دو صوبوں کے اندر الیکشن عام انتخابات سے پہلے ہوجائیں گے اور باقی دو صوبوں میں الیکشن عام انتخابات کے بعد ہوں گے۔ پاکستان کی اقتصادی حالت ایسی ہے کہ یہی بہتر نظر آتا ہے کہ عام انتخابات ایک ہی مرتبہ ہوں تاکہ قومی خزانے پر اخراجات کا بوجھ باربار نہ پڑے۔ ڈیجیٹل میڈیا پولی ٹیکس کی ماہر ایک سیاسی جماعت کا اب یہ مطالبہ ہے کہ اس کی تیار کردہ الیکٹرونک ووٹنگ مشین استعمال کی جائے، تاکہ دھاندلی کا خاتمہ ہو۔ حالانکہ الیکٹرونک ووٹنگ کا ریکارڈ یہ ثابت کرچکا ہے کہ اس میں دھاندلی کا زیادہ امکان ہے اور دھاندلی کو درست بھی نہیں کیا جاسکتا۔ اگر اس پارٹی کا مطالبہ مان کر اگر الیکٹرونک ووٹنگ مشین کو استعمال کیا جائے توصرف مشینوں کی مد میں پاکستان کے قومی خزانے سے ایک کھرب روپے سے زائد کی رقم خرچ ہوگی۔ یہ اخراجات ان اخراجات کے علاوہ ہوں گے جو عموماً عام انتخابات میں ہوتے ہیں۔ یہ کون دے گا؟ الیکشن کمیشن میں ہماری الیکٹرونک ترقی کا یہ حال ہے کہ ابھی تک نتائج کو الیکشن کمیشن کے صدر دفتر تک پہنچانے کے لیے الیکٹرونک نظام نہیں قائم ہوا ہے اور قومی اسمبلی اور سینیٹ میں ووٹنگ کے لیے جو الیکٹرونک سسٹم لگا ہوا ہے اسے بھی فعال نہیں کیا گیا ہے یہ سسٹم تو پنجاب اسمبلی میں بھی لگا ہوا ہے لیکن اس سسٹم کے تحت اعتماد کے ووٹ کی رائے شماری نہیں کرائی گئی۔ کیونکہ قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں الیکٹرونک ووٹنگ سسٹم کو استعمال کرنے کے لیے قانون سازی نہیں کی گئی ہے۔ لیکن یہ سیاست دان عوام سے یہ چاہتے ہیں کہ وہ ایک اجنبی نظام کے ذریعے ووٹ ڈالیں جس میں ان کو یہ علم ہی نہ ہو کہ ان کا ووٹ کہاں جارہا ہے۔
آئین میں انتخابات کے لیے شرائط اور احکامات درج ہیں۔ الیکشن کمیشن کو الیکشن ایکٹ 2017ء کی دفعہ 10 کے تحت توہین ِ الیکشن کمیشن کے خلاف کارروائی کرنے کے اختیارات تفویض کیے گئے ہیں جسے دونوں ایوانوں کی منظوری بھی حاصل ہے۔ یہ ایکٹ آئین کے آرٹیکل 204کے تحت الیکشن کمیشن کو توہین عدالت کے مترادف اختیارات تفویض کرتا ہے۔ یعنی الیکشن کمیشن انتخابات کو منصفانہ بنانے کے لیے انتخابی قواعد بنا سکتا ہے۔ جیسا کہ بھارتی الیکشن کمیشن کو استصواب رائے اور ایگزیٹ پول پر پابندی لگانے کا پورا اختیار ہے تاکہ وہ انتخابی نتائج کو متاثر نہ کریں۔ بھارتی انتخابات میں دولت کے زور کو کم کرنے کے لیے بھارتی الیکشن کمیشن نے کچھ تجاویز تیار کی ہیں۔ جس میں متعلقہ سرکاری افسران کو تمام انتخابات کے اخراجات کا نگران بنایا اور ایک امیدوار اپنی انتخابی مہم میں کتنی رقم خرچ کر سکتا ہے اس پر بھی ایک حد متعین کی اور وقتاً فوقتاً اس حد میں تبدیلی بھی ہوتی رہی ہے۔ لیکن پاکستان میں اس معاملے پر کوئی گرفت نہیں ہے۔ بھارتی الیکشن کمیشن امیدوار کی نامزدگی کے وقت امیدوار کے اثاثوں کی تفصیل کا ایک حلف نامہ لیتا ہے ساتھ ہی امیدواروں کو نتیجہ آنے کے بعد 30 دنوں کے اندر ان کو تمام انتخابی اخراجات کی تفصیل بھی جمع کرانی پڑتی ہے۔ انتخابی اخراجات میں کمی کرنے کے لیے۔ بھارتی الیکشن کمیشن نے لوک سبھا اور اسمبلی انتخابات کے ایام میں کمی کرتے ہوئے 21 دن سے 14 دن کر دیا ہے۔ انتخابات میں جرائم کو کم کرنے کے لیے کمیشن نے سپریم کورٹ سے درخواست کی کہ جن امیدواروں پر جرم ثابت ہو گیا ہو ان پر زندگی بھر کی پابندی لگادی جائے۔ پاکستان میں الیکشن کمیشن نے ہمیشہ دباؤ میں کام کیا ہے اورکبھی یہ دباؤ مقتدر حلقوں کی جانب سے رہا ہے تو کبھی سیاسی رہنماؤں کی جانب سے۔ پاکستان میں سیاست دان ہر صورت میں پارلیمنٹ کا رکن بننے کے لیے ایک سے زائد حلقوں سے الیکشن لڑتے ہیں اور بعد میں قانون کے مطابق وہ صرف ایک ہی نشست رکھتے ہیں۔ اس کی سب سے بڑی مثال یہ ہے کہ تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے 9 حلقوں سے بیک وقت الیکشن لڑا 6 سے کامیاب ہوئے اور اب تک کسی بھی نشست سے استعفا نہیں دیا اور نہ ہی کسی نشست کو سنبھالنے کے لیے حلف اٹھایا۔ اب الیکشن کمیشن نے انہیں ان حلقوں سے نااہل قرار دیے جانے کے باوجودکامیاب قرار دے دیا ہے، اب عمران خان نے قومی اسمبلی کے خالی ہونے والے 35 حلقوں سے الیکشن لڑنے کا اعلان کردیا ہے۔ یہ انتخابات کے ساتھ مذاق نہیں تو اور کیا ہے۔ اس رجحان کا سد باب ہونا چاہیے۔ کوئی بھی امیدوار وہیں سے الیکشن لڑ سکتا ہے جہاں اس کے ووٹ کا اندراج ہو۔ اگر یہ بات بھی قابل قبول نہیں ہے تو ایک سے زائد حلقوں سے لڑنے والے امیدوار کو دونوں حلقوں سے کامیاب ہونے کی صورت میں خالی کردہ نشست پر دوبار انتخابات کے اخراجات برداشت کرنے ہوں گے۔ اگر وہ ایک حلقے سے جیت جاتا ہے اور دوسرے حلقے سے ہار جاتا ہے تو کیا سمجھا جائے ایک حلقے کے عوام نے اسے مسترد کیا ہے اور دوسرے حلقے کے عوام نے قبول؟ یہ بھی مذاق ہے۔ بھارت میں اس رجحان پر بھی ایک طویل عرصے سے پابندی ہے انڈین ری پریزینٹیشن آف پیپلز ایکٹ 1951کے سیکشن (7) 33 کے تحت کوئی بھی امیدوارلوک سبھا (قومی اسمبلی) اور ودھان سبھا (صوبائی اسمبلی) کے دو حلقوں سے زیادہ سے الیکشن نہیں لڑ سکتا ہے۔ ایک شخص اگر قومی اور صوبائی اسمبلی کے دونوں حلقوں سے جیت جاتا ہے تو اسے کسی ایک نشست کا انتخاب کرنا ہوگا اور یہ فیصلہ 10 دن کے اندر کرنا ہوگا۔ اگر وہ سینیٹ (راجیا سبھا) کا رکن ہے اور لوک سبھا کا رکن بھی منتخب ہوگیا ہے تو اگر اس نے 10 دن میں فیصلہ نہیں کیا تو اس کی راجیا سبھا کی نشست ختم ہوجائے گی۔
پاکستان میں اقتدار میں آنے والی جماعت اور ان کے نمائندے یہ راگ الاپنا شروع کرتے ہیں کہ انہیں پاکستان کے 22 کروڑ عوام نے ووٹ دیا ہے۔ جبکہ ان کی جماعت پاکستان کے 10 یا11 کروڑ ووٹرز میں سے صرف ایک کروڑ ووٹ لے کر اقتدار میں آتے ہیں۔ اب الیکشن کمیشن کے مطابق پاکستان میں کل ووٹر12 کروڑ 21 لاکھ 96 ہزار 122 ہیں۔ البتہ 2018 کے انتخابات میں کل رجسٹرڈ ووٹر 10 کروڑ 49 لاکھ 81 ہزار 940 تھے۔ جبکہ کل پول شدہ ووٹ 5 کروڑ 43 لاکھ 21 ہزار 031 تھے۔ الیکشن کمیشن کی رپورٹ کے مطابق ووٹنگ کی شرح 51 اعشاریہ 5 فی صد تھی۔ یعنی 2018 کے انتخابات میں 5 کروڑ6 لاکھ 60 ہزار 909 ووٹروں نے یا تو حصہ نہیں لیا یا، انہیں حصہ لینے نہیں دیا گیا۔ پاکستان کی 22 یا 23 کروڑ کی آبادی میں نصف سے زائد ووٹر ہیں اور ان کی بھی نصف تعداد انتخابات میں ووٹ نہیں ڈالتی۔ اس صورت حال میں جب تک ووٹنگ کی مجموعی شرح کم از کم 80 فی صد نہیں ہوتی اس وقت تک ووٹنگ کے ذریعے آنے والی کسی بھی حکومت کو نمائندہ حکومت نہیں کہا جاسکتا۔ یہی وہ نصف ووٹر ہیں جن کے ووٹوں کو یا تو غائب کردیا جاتا ہے یا انہیں ووٹ نہیں ڈالنے دیا جاتا۔ ہوتا کیا ہے یہ معلوم نہیں، یہ ہی معما ہے؟ جو حل نہیں ہورہا ہے۔ جو سیاسی جماعتیں عوامی نمائندگی کا دعویٰ کرتی ہیں ان کو کتنی عوامی حمایت حاصل ہے اس کا اندازہ اس تحقیقاتی تجزیے سے کیا جاسکتا ہے جو ہم نے اسلام آباد کے قومی اسمبلی کے تین حلقوں کا کیا ہے۔ ان حلقوں سے کامیاب ہونے والے امیدواروں نے اپنے حلقوں کے کل رجسٹرڈ ووٹوں کا 50 فی صد بھی نہیں حاصل کیا لیکن اس کے باوجود وہاں کے 100 فی صد عوام کی نمائندگی حق حاصل کرلیا۔
این اے 52 اسلام آباد 1۔ میں کل رجسٹرڈ ووٹ 234508 تھے کل ووٹ پول ہوئے 150994مسترد ہوئے 2568 موثر ووٹ 148426 رہے کامیاب امیدوار نے 64881ووٹ حاصل کیے۔ یعنی اس امیدوارکے خلاف 83545 ووٹ پڑے اور اس حلقے کے 83 ہزار 514 ووٹروں نے کسی بھی امیدوار کو ووٹ نہیں دیا۔ دوسرے الفاظ میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ اس حلقے کے ایک لاکھ 67 ہزار 59 ووٹروں نے کامیاب امیدوار کو ووٹ نہیں دیا۔
این اے 53اسلام آباد 2میں کل رجسٹرڈ ووٹرز 312142 تھے۔ جن میں سے 176721 ووٹ پول ہوئے 1480 مسترد ہوئے موثر ووٹوں کی تعداد 175241 رہی اور کامیاب امیدوار نے 93110 ووٹ حاصل کیے۔ اس امیدوار کی مخالفت میں 79431 ووٹ پڑے اور 136901 ووٹروں نے کسی امیدوار کو ووٹ نہیں دیا۔
این اے 54 اسلام آباد 3 میں کل رجسٹرڈ ووٹوں کی تعداد 208901 تھی۔ جن میں سے 118858 ووٹ پول ہوئے۔ 932 مسترد ہوئے موثر ووٹوں کی تعداد 117926 رہی کامیاب امیدوار نے 57086 ووٹ حاصل کیے اس امیدوار کی مخالفت میں 60840 ووٹ پڑے۔ جبکہ 90047 ووٹروں نے کسی بھی امیدوار کوووٹ نہیں دیا۔ یعنی کامیاب امیدوار کو حلقے کے 150883 ووٹروں کی حمایت نہیں حاصل تھی۔ لیکن وہ پھر بھی کامیاب قرار پایا۔ اب اسے ہم جمہوریت کہیں یا مذاق؟۔
بھارت میں پولنگ کا عمل کئی کئی دن جاری رہتا ہے ہمارے یہاں ایک ہی دن میں سب کچھ نمٹا دیا جاتا ہے۔ شاید ووٹروں کی اکثریت ان امیدواروں کو ووٹ نہیں دینا چاہتی ہو تو ان کے پاس غیر حاضری کے سوا کوئی آپشن یا راستہ نہیں ہوتا۔ بنگلا دیش میں ایک بار بیلٹ پیپر میں یہ خانہ بھی رکھا گیا تھا کہ ’’ان میں سے کوئی بھی نہیں‘‘۔ لیکن نتیجہ کیا نکلا معلوم نہیں۔ ان میں سے کوئی بھی نہیں کا آپشن بھارت کے بیلٹ پیپر میں، انڈونیشیا میں، یونان میں امریکی ریاست نواڈا میں، یوکرین میں۔ بیلارس اور اسپین میں، شمالی کوریا اور کولمبیا کے بیلٹ پیپروں میں بھی شامل ہے۔ روس کے بیلٹ پیپر میں یہ آپشن سوویت یونین کے دور سے شامل تھا لیکن 2006 میں اسے نکال دیا گیا بنگلا دیش میں اسے 2008 میں متعارف کرایا گیا۔ پاکستان میں بھی 2013 میں بیلٹ پیپر میں یہ آپشن شامل کرنے کی تجویز تھی لیکن الیکشن کمیشن نے اسے مسترد کردیا۔ 2016 میں بلغاریہ کے صدارتی انتخابات میں اسے متعارف کرایا گیا پھر 2017 کے پارلیمانی انتخابات میں بھی یہ آپشن رکھا گیا۔ بلغاریہ کے صدارتی انتخابات میں 5 اعشاریہ 59 فی صد نے اور پارلیمانی الیکشن میں 4 اعشاریہ 47 فی صد نے اس آپشن کو اختیار کیا۔ اسپین میں خالی بیلٹ پیپر ڈالنے کا مطلب سارے امیدواروں کو مسترد کرنا ہوتا ہے۔ کئی برسوں سے یہ ہورہا ہے کہ پاکستان کے عام انتخابات کو جوڑ توڑ کرکے زبر دستی 50 فی صد سے زیادہ ظاہر کیا جاتا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ انتخابی فہرستوں کا ناقدانہ جائزہ لیا جائے اور ووٹر لسٹ میں شامل ووٹروں کی پولنگ اسٹیشن تک کی رسائی کو یقینی بنایا جائے۔ تاکہ لوگوں کا انتخابی عمل پر اعتماد بحال ہو اور عوام کے حقیقی نمائندے ہی منتخب ہوں۔ الیکشن کا ایک طریقہ متناسب نمائندگی بھی ہے یہ الیکشن دو مرحلوں میں ہوتا ہے۔ اگر پہلے مرحلے میں کوئی امیدوار کل ووٹوں کا 51 فی صد حاصل کرلے تو وہ کامیاب قرار پاتا ہے۔ ورنہ دوسرے مرحلے میں زیادہ ووٹ حاصل کرنے والوں کو مقابلہ ہوتا ہے اس مرحلے میں پہلے مرحلے میں کل ووٹوں کا 30 فی صد سے کم حاصل کرنے والے الیکشن سے باہر ہوجاتے ہیں اور مقابلہ زیادہ ووٹ حاصل کرنے والوں میں ہوتا ہے۔ لیکن اس طرح انتخابات میں نادیدہ قوتوں کا کردار کم ہوجاتا ہے یا ختم ہی ہوجاتا ہے۔ لیکن ہمیں ایسا ہوتا نظر نہیں آرہا ہے۔ شفاف الیکشن ایسا معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان میں خواب ہی رہیں گے۔