آواز خلق، نقارہ خدا

548

آئین کا آرٹیکل 17 ہمارے پارلیمانی نظام جمہوریت کے لیے ایک ایسا در کھولنے کا موقع دیتا ہے کہ پاکستان کا کوئی بھی شہری قانون کے مطابق انجمن سازی کرسکتا ہے، اور یہ حق ایک بنیادی سیاسی حق کے طور پر تسلیم کیا گیا ہے، اسی قانون کے رو سے ملک میں سیاسی جماعتوں کی تشکیل کی راہ ہم وار ہوئی ہے، لیکن کیا جو کچھ سیاسی جماعتیں کر رہی ہیں یہی آئین کے آرٹیکل 17 کی اصل روح بھی تھی، اس سوال کا جواب کبھی نہیں مل سکتا، ہمارے ملک میں، ایوب خان سے لے کر آج تک کتنے برس بیت گئے، کوئی پچاس سال، غالباً پانچ عشرے، ان پانچ عشروں میں ملک میں سیاسی درجہ ٔ حرارت کہاں سے کہاں پہنچ گیا ہے؟ کسی کو اس بات کا اندازہ نہیں ہے، معاشرے میں بگاڑ نے کتنی جگہ بنا لی ہے اس کا کسی کو ادراک ہی نہیں، سیاست ایک گالی بن چکی ہے، اس کی وجہ بھی سیاسی قیادت اور اس کا رویہ ہے۔ مار دو، گرا دو، بھاڑ میں جائے، چھوڑیں گے نہیں، اندر کردیں گے باہر نہیں آنے دیں گے، جیسے الفاظ اب ہمارے لیے نئے نہیں رہے، افسوس تو اس بات کا ملک میں وہ سیاسی قیادت بھی، جسے ہم دائیں بازو کی سیاست کہتے ہیں، جسے ہم شعور رکھنے والی سیاسی قیادت کا نام اور درجہ دیتے ہیں ان کے بیانات بھی جگت بازی کا اعلیٰ نمونہ ہوتے ہیں، آئین نے کسی جگہ ایسی سیاست کی نہ گنجائش رکھی اور نہ ضمانت دی، مگر اب پورا منظر ہی بدل گیا ہے۔
ماضی میں سیاسی کارکن فلاح وبہبود کا سوچا کرتے تھے اور آج یہ سوچتے ہیں کہ کتنے لوگوں کی ٹرولنگ کرنی ہے، بس آج یہی سیاست رہ گئی ہے، ہر سیاسی جماعت کا عوام سے رابطے کا الگ الگ نکتہ نظر اور سوچ ہے، اس میں لانگ مارچ ایک اضافہ ہے، اس ملک نے شوکت اسلام کا جلوس بھی دیکھا ہوا ہے جس نسل نے شوکت اسلام کا یہ جلوس دیکھا ہے اُسے آج کے لانگ مارچ میں کوئی دلچسپی نہیں۔ ہاں البتہ نوجوان نسل کے لیے اس میں ضرور دلچسپی ہے، تاہم ایک پہلو یہ بھی ہے یہ پہلو نظر انداز بھی نہیں کیا جاسکتا کہ ملک کی تمام سیاسی جماعتیں اس مفروضے کے تحت عوامی طاقت کے مظاہرے کا اہتمام کرتی ہیں کہ عوام کی اکثریت ان کے ساتھ ہے۔ سیاسی جماعتوں کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ان کی سب سے بڑی طاقت ان کی ’کارکردگی‘ اور پسماندہ لوگوں کو درپیش بڑے مسائل کا حل فراہم کرنے کی صلاحیت ہے۔
ایسا لگتا ہے کہ عمران خان نے اپنی امیدیں اسلام آباد تک ایک ’لانگ مارچ‘ پر مرکوز کر رکھی ہیں تاکہ ایک غیر مستحکم صورت حال پیدا ہو جو ممکنہ طور پر نئے انتخابات کا باعث بنے اب وقت آگیا ہے کہ عمران خان اپنے دور حکومت میں ہونے والی غلطیوں کا احساس کریں ان کی معاشی ٹیم نے ملک کو دیوالیہ ہونے کے قریب پہنچا دیا ان کے دور حکومت میں ہزاروں لوگ خط غربت سے نیچے آ گئے۔ سفارت کاری کے اصولوں کو پامال کیا اور پاکستان کو بین الاقوامی سطح پر تنہا کر دیا، مگر انہیں لانگ مارچ کرنا ہی کرنا ہے کیا کسی کو اس بات کی فکر ہے کہ ساڑھے تین کروڑ سیلاب زدگان کس حال میں ہیں؟ جنہیں سیلاب کے بعد اب بیماریوں نے دبوچ رکھا ہے… اور جائیں ذرا پتا تو کریں کہ بلوچستان کا شہر تربت دنیا کے گرم ترین مقامات میں سے ایک ایسا گرم مقام بنا ہوا ہے جہاں زندگی مشکل بن چکی ہے، شہر اس وقت شدید گرمی کی لپیٹ میں ہے اس کے علاوہ شہر میں طویل لوڈشیڈنگ نے لوگوں کا گرمی کو مات دینا مشکل کر دیا ہے تربت کے مکینوں کی جانب سے بجلی کے بلوں کی بروقت ادائیگی کے باوجود بجلی کی بندش میں کوئی کمی نہیں آئی بجلی کی بندش اور ہیٹ ویو کے امتزاج سے اموات بھی ہو سکتی ہیں۔ بجلی کی لوڈ شیڈنگ اپنی جگہ، ملک میں ادویات کی کمی ایک نیا بحران ہے پاکستان جیسے کم اور متوسط آمدنی والے ممالک میں ادویات کی عدم دستیابی کی وجہ سے مریضوں کو بد تر پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ بدقسمتی کی بات ہے کہ پاکستان جیسے کم اور متوسط آمدنی والے ممالک میں ادویات کی عدم دستیابی کی وجہ سے مریضوں کو بلاوجہ پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے ہمارے ملک میں ہزاروں مریضوں کو اس کا سامناہے مگر کوئی ان کا پرسان حال نہیں ہے۔