سرمایہ دارانہ ذہنیت – اصل رکاوٹ

584

یہ مضمون گزشتہ ہفتے کی دو اہم خبروں کے تناظر میں لکھا جا رہا ہے۔ بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ ایک خبر تو دراصل ایک نتیجہ ہے جبکہ دوسری خبر اس نتیجے کی سب سے بڑی وجہ۔ پہلی خبر یہ ہے کہ ہمارے زرِ مبادلہ کے ذخائر ایک مہینے کی درآمد کے رہ گئے ہیں۔ جس سے ملکی معیشت بے یقینی کا شکار ہوکر زمین بوس ہو رہی ہے۔ دوسرے ممالک پاکستان کو بعض اشیاء جیسے ایل این جی بیچنے سے ہچکچا رہے ہیں، جس کی وجہ سے قلت کا اندیشہ اور مزید مہنگائی اور عوامی ردّ عمل متوقع ہے۔ چین نے ہمیں سوا دو ارب ڈالر کم شرح سود پر قرض پر دینے کا اعلان کیا ہے جس کو سن کر حکومت خوشی سے پھولے نہیں سما رہی ہے کہ چند مہینوں کا بندوبست ہوا۔ لیکن یہ خبر قوم کو پیغام دے رہی ہے کہ پاکستانی سیاست اور معیشت کس مقام پر آ کر کھڑی ہو گئی ہے۔ آئی ایم ایف اللہ جانے پاکستان سے مزید کیا کروانا چاہ رہا ہے جو اس سے ایک ارب ڈالر سے کم رقم بھی برآمد نہیں ہورہی۔ قرض حاصل کرنے پر ہم شرمندہ ہونے کے بجائے بے شرمی سے مطمئن رہنے کے اعلانات کر رہے ہیں۔ دوسری انتہائی افسوسناک اور خوفناک خبر یہ ہے کہ اسٹیٹ بینک نے چار دوسرے بینکوں کے ساتھ مل کر عدالت عظمیٰ میںوفاقی شرعی عدالت کے 28 اپریل کے فیصلے کے بارے میں اپیل دائر کر دی ہے کہ ہم پاکستان سے سودی بینکاری کا نظام 5 سال میں ختم نہیں کرسکتے۔ اس انتہائی قبیح اور شینع عمل کو ختم کرنے کے لیے انہیں غالباً مزید کچھ دہائیاں چاہئیں۔ جبکہ بیرون ِ ملک قرض دینے والوں سے بلا سود قرض مانگنا یا ان کو سرمایہ کاری کے لیے شریعت پر مبنی بانڈز فراہم کرنا تو ناممکن ہی سمجھا جائے۔ اس حوالے سے اسٹیٹ بینک نے عدالت عظمیٰ کے شریعت اپلیٹ بینچ سے راہنمائی بلکہ رعایت مانگی ہے کہ پاکستان کو طویل عرصے مزید اللہ اور اس کے رسولؐ کے اس بہت بڑے حکم کے خلاف زندگی و کاروبار جاری رکھنے کی اجازت دی جائے۔
گو کہ اس مرتبہ کی گئی اپیل میں اسٹیٹ بینک کا موقف اور انداز مصالحانہ اور مخلصانہ لگ رہا ہے۔ لیکن کچھ کہا نہیں جاسکتا۔ سود کیخلاف دقیق اور صبر آزما عدالتی جدوجہد کرنے والی تنظیمیں، تحاریک اور اس لعنت کے آخرت میں نتائج کا ادنیٰ سا بھی ادراک رکھنے والے طبقات اس اپیل پر انتہائی بے چین اور مضطرب ہیں۔ خاص طور پر ایک ایسے وقت میں جب پاکستان اپنی سیاست، اخلاقیات اور معیشت کے اعتبار سے دنیا میں بھر میں ذلیل ورسوا ہو رہا ہے۔ رسوائی کی خبریں اس تواتر سے آرہی ہیں کہ اچھا خاصا جذباتی اور ایمان والا انسان بھی بے حس ہوتا جارہا ہے۔
نیت کے حساس معاملوں سے صرف نظر کرتے ہوئے اس مختصر کالم میں مَیں یہ بیان کرنا چاہوں گا کہ آخر وہ کون سی ذہنیت ہے جو سرمایہ دار کو سود کی لعنت اور سودی نظام ختم کرنے کی کسی بھی کوشش کے سامنے حائل ہونے پر رکاوٹ بننے پر مجبورکرتی ہے اور وہ کیوں چاہتا ہے کہ یہ تعفن بھرا نظام چلتا رہے۔ وہ ذہنیت ہے قارونی ذہنیت، جسے قرآن سورہ القصص میں وضاحت سے بیان کرتا ہے۔ مال اور منافع کی بے انتہا محبت جو انسان کو ناانصافی اور بے حسی کی منزلوں سے گزار کر بے رحمی اور شقی القلبی کی طرف لے جاتی ہے۔ یہ لوگ مال کو تجارت میں لگانے سے ڈرتے ہیں۔ تجارت سے ڈرنے کی وجہ یہی ہے نا کہ محنت کرنی پڑتی ہے اور نقصان کا اندیشہ ہوتا ہے۔ اس بات کا خوف کہ میرا مال کم نہ ہو بس بڑھتا ہی جائے۔ یہ بات ٹھیک ہے کہ کوئی یہ کیوں چاہے گا کہ اس کا مال کم ہو جائے لیکن کیا اس قیمت پر بھی کہ کسی کا چھوٹا سا گھر بھی چھین کر اسے سڑک پر لا پھینکا جائے۔ کسی چھوٹے کاروباری کا کاروبار ضبط کر کے اسے بھیک مانگنے پر مجبور کردیا جائے لیکن افسوس! سرمایہ دار بینکنگ نظام میں یہ گناہ کرتا ہے اور بینک اپنے سودی اکائونٹ ہولڈرز کو خوش کرنے کے لیے یہ کام کرتے ہیں۔ یہ نظام کا حصہ ہے۔ اس کے برخلاف اللہ اس لیے قرآن میں فرماتا ہے کہ ’’اللہ سود کو مٹاتا ہے اور صدقات کو بڑھاتا ہے‘‘۔ یہ سودی نظام اگر کہیں سے فلاحی ہے بھی تو امیر سرمایہ داروں کے لیے ہے۔ وہ ایسے کہ بڑے بڑے قرضے معاف اسی طبقے کے ہوتے ہیں اور حکومت کی گارنٹی کی وجہ سے حکومت ہی بینکوں کا نقصان پورا کرتی ہے۔ یہ معاملہ اپنے جوبن پر 2008 میں امریکا میں دیکھا گیا جب دنیا کی بڑی انشورنس کمپنی اے آئی جی، امریکا کے چوتھے بڑے انویسٹمنٹ بینک لیمن برادرز اور اس کے ساتھ دوسرے بڑے بینکوں کو، جو اپنی کارستانیوں، ہوشربا اور بغیر کسی احتیاط سود خوریوں کی وجہ سے جب تباہی کے دہانے پر پہنچے تو اسے امریکی حکومت نے عوام ہی کے دیے گئے ٹیکس میں سے سیکڑوں اربوں ڈالرز دے کر بچایا۔ یعنی اس شیطانی نظام میں دونوں طرف سے فائدہ بڑے، بااثر سرمایہ داروں کا ہوتا ہے اور خون عوام کا نچوڑا جاتا ہے۔ اس حوالے سے قائین کے لیے قرض میں (Predatory Lending) کا مطالعہ حیرت انگیز ہوگا جو امریکا کے 2008 کے مشہور معاشی بحران کی وجہ بنا۔ یعنی شکاری جانور جیسے ہرن یا بکری پر حملہ کرکے اُسے چیر پھاڑ کر رکھ دیتا ہے۔ اسی طرح بینک عوام کو سبز باغ دکھا کر گھر، گاڑی اور کریڈٹ کارڈ پر مہنگے سودی قرض دیتے ہیں اور اپنے سرمایہ داروں کو عوام کا خون پلاتے ہیں۔
دوسری قارونی ذہنیت یہ ہے کہ اکثر مالدار، سرمایہ دار آدمی یہ سمجھتا ہے کہ یہ مال، دولت و ثروت اسے اس کی محنت، ذہانت اور لیاقت کی وجہ سے حاصل ہوا ہے اور اگر قسمت نے بھی اس کا ساتھ دیا ہے تو اس لیے کہ وہ اس کا مستحق ہے کیونکہ وہ خود کوئی بڑی چیز ہے اور وہ جو بھی جیسا بھی کر رہا ہے قدرت اس پر مہربان ہے۔ اسی وجہ سے وہ سمجھتا ہے کہ وہ ہر قیمت پر منافع حاصل کرنے کا حقدار ہے۔ ایسے شخص کو صدقات سے نفرت نہ سہی بے رغبتی ضرور ہوتی ہے۔ ایک ایسے ہی بدنصیب شخص کا قصہ سورۂ الکہف میں موجود ہے۔
اللہ تعالیٰ سورۃ البقرہ میں فرماتا ہے کہ: ’’ہم نے تجارت کو حلال کیا ہے اور سود کو حرام کیا‘‘ کیونکہ مال دار، مفاد پرست سود خور یہودی کہتے تھے کہ تجارت بھی تو سود کی طرح ہے حالانکہ وہ خوب جانتے تھے کہ تجارت اور سود میں کیا فرق ہے۔ اصل مسئلہ خدا کی نا فرمانی والی قارونی ذہنیت ہے جس کے خلاف کسی بھی کوشش سے سود خوروں کی جان جاتی ہے اور وہ ماہی بے آب کی طرح تڑپنے لگتے ہیں۔ ایسے ہی پاکستان سمیت دنیا بھر میں سرمایہ داروں اور سود کھانے والوں کا پسندیدہ مشغلہ یہ بھی ہے کہ بے تحاشا امیر ہونے کے باوجود وہ اپنی دولت پر زیادہ ٹیکس دینے سے انکار کریں گے۔ حکومت کے زیادہ ٹیکس لینے پر یا ملازمین، مزدوروں کی تنخواہ بڑھانے پر دھمکیاں دیں گے کہ کاروبار ٹھپ ہو جائے گا اور لوگ بیروزگار ہو جائیں گے جبکہ یہ حاصل شدہ دولت کو بینکوں میں رکھتے ہیں اور حکومت کو قرض دینا پسند کرتے ہیں۔ بینک سے حکومت قرض لے کر کار حکومت چلاتی ہے اور پھر بینکوں اور سرمایہ داروں کو اصل زر مع سود دیتی ہے۔ یہ سود عوام مل جل کر بینکوں کو ادا کرتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ وہ پیسہ جو ان کو ٹیکس کی صورت میں حکومت کو دینا چاہیے تھا وہ الٹا ان کے مزید کمائی کا ذریعہ بن جاتا ہے اور یہی وہ ذہنیت ہے جو قارون کی بربادی کا باعث بنی اور آج سودی معیشت میں جکڑی دنیا اسی بربادی اور تباہی کا سامنا کر رہی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں قارونی ذہنیت اور سودی معیشت سے بچائے، پاکستان اور دنیا میں اس کے خلاف جو کوششیں اور محنتیں ہورہی ہیں اسے اپنی رحمت سے کامیاب بنائے اور ارباب اختیار، عوام اور خواص سب کو سودی معیشت کو جڑ سے اکھاڑنے کے لیے ہدایت و ہمت عطا کرے۔