وفاقی شریعت عدالت کا فیصلہ

578

سود کے بارے میں وفاقی شریعت عدالت نے تاریخ ساز فیصلہ سنایا ہے۔ حکومت کو جلد از جلد اس فیصلے پر عملدرآمد شروع کردینا چاہیے تاکہ پاکستان میں اللہ کی رحمت نازل ہو اور ہم آئی ایم ایف کی جکڑ بندیوں سے جلد از جلد چھٹکارا حاصل کرسکیں۔ سراج الحق نے صحیح فیصلہ کیا ہے اگر حکومت سود کے خاتمے کا پروگرام بنائے گی ہم حکومت سے ہر قسم کا تعاون کریں گے اور لیت و لعل کیا اور سخت مزاحمت کریں گے۔ سورئہ بقرہ کی آیت 278 اور 279 ارشاد ربانی ہے۔ ’’اے لوگوں جو ایمان لائے ہو، خدا سے ڈرو اور جو تمہارا سود لوگوں پر باقی رہ گیا ہے اسے چھوڑ دو، اگر واقعی تم ایمان لائے ہو۔ لیکن اگر تم نے ایسا نہ کیا تو آگاہ ہوجائو کہ اللہ اور اس کے رسولؐ کی طرف سے تمہارے خلاف اعلان جنگ ہے، اب بھی توبہ کرلو اور سود چھوڑ دو۔ تو اپنا اصل سرمایہ لینے کے حق دار ہو، نہ تم ظلم کرو، نہ تم پر ظلم کیا جائے‘‘۔ اصل رقم پر ہر اضافہ خواہ کتنا ہی کیوں نہ ہو وہ ظلم میں شامل ہے۔ سود کو چند در چند کرکے نہ کھائو تو اس کا جواب یہ ہے کہ برائی کی انتہائی صورت کی طرف نشان دہی۔ ورنہ تھوڑا بھی برا ہی ہے۔ عبداللہ بن عمرؓ کہتے ہیں کہ معین مدت کے لیے قرض دینے میں کوئی حرج نہیں، خواہ قرض دار اس کے درہم سے بہتر درہم ادا کرے۔ بشرطیکہ قرض کے معاہدے میں ایسا طے نہ کیا گیا ہو۔ (بخاری)

ابوہریرہؓ کہتے ہیں کہ عبداللہ بن سلامؓ نے مجھے نصیحت کی کہ تم ایک ایسی سرزمین میں آباد ہو جہاں ربا بہت عام ہے۔ لہٰذا اگر کسی شخص پر تمہارا قرض واجب ہو اور وہ شخص تمہارے بھوسے جو یا چارے کا بوجھ ہدیہ دینا چاہے تو تم قبول نہ کرو۔ کیوں کہ وہ ربا ہے (بخاری) بیع اور ربا میں فرق بیع پیسے سے خود پیدا کرکے یا دوسرے سے خرید کر کے فروخت کرتا ہے۔ ربا پیسے قرض دینا شرط اور مدت کے بعد اتنے زائد پیسے لینا راس المال کے بدلے راس المال اور مہلت کے بدلے زائد رقم لینا۔ یہی سود یا ربا ہے۔ سود سے بخل پیدا ہوتا ہے، آدمی خود غرض بن جاتا ہے، دل میں شقاوت اور بے رحمی پیدا کرتا ہے، زبردستی پیدا کرتا ہے، قوم اور قوم میں دشمنی پیدا کرتا ہے، افراد قوم کے درمیان ہمدردی اور امداد باہمی کے تعلقات ختم کرتا ہے۔ روپیہ جمع کرنے اور صرف اپنے ذاتی مفاد کی ترقی میں لگانے کا میلان پیدا کرتا ہے۔ معاشرے میں دولت کی آزادانہ گردش کو روکتا ہے۔ دولت کی گردش ناداروں سے مالداروں کی طرف پھیر دیتا ہے۔ انہی خرابیوں کی بنا پر قرآن نے سخت ممانعت کی ہے۔ سود اتنا بڑا گناہ ہے اگر ستر اجزا میں تقسیم کیا جائے تو اس کا ایک ہلکے سے ہلکا جز اس گناہ کے برابرہوگا کہ ایک آدمی، اپنی ماں کے ساتھ زنا کرے۔ (ابن ماجہ)

معراج پر نبی کریمؐ نے دیکھا کہ پیٹ میں مکانوں کی طرح سانپ باہر سے نظر آرہے ہیں۔ جبریلؑ نے بتایا کہ سود خوار ہیں۔ اللہ نے اپنے اوپر لازم کرلیا ہے کہ چار قسم کے افراد ہرگز جنت میں داخل نہ ہوں گے ان میں ایک سود خوار ہے۔ سود لینے والے اور دینے والے، اس کی دستاویز کے کاتب اور گواہی دینے والے سب پر اللہ کی لعنت حرام کی ہے۔ قرآن میں ہے لہٰذا جس شخص کو اس کے رب کی طرف سے نصیحت پہنچے اور آئندہ کے لیے سود خواری سے باز آجائے، تو وہ کچھ پہلے کھا چکا، سو کھا چکا اس کا معاملہ اللہ کے حوالے ہے اور جو اس حکم کے بعد پھر اس حرکت کا اعادہ کرے وہ جہنمی ہے جہاں وہ ہمیشہ رہے گا۔ اللہ سود کا مَٹھ مار دیتا ہے اور صدقات کو نشوونما دیتا ہے اور اللہ کسی ناشکرے بدعمل انسان کو پسند نہیں کرتا۔ اس آیت میں معاف کردینے کا اعلان نہیں کیا بلکہ معاملہ اللہ کے حوالے ہے اور قانونی رعایت مراد ہے لہٰذا مقدمات کا لامتناہی سلسلہ نہ چل پڑے۔ اب تو مغرب کے لوگ بھی اس پر تنقید کررہے ہیں۔ ڈاکٹر شافت جرمنی بینک کے گورنر لارڈ کنیز نے کہا دنیا کی تمام تکلیفیں یہاں تک کہ بے روزگاری بھی صرف سود خواری کا نتیجہ ہیں۔ جنگ عظیم کے برطانیہ کے وزیر خزانہ نے کہا کہ ’’میں تمام عمر اس رنج کو نہ بھولوں گا جو مجھے اس بات سے ہوا کہ امریکا نے ہم کو بلاسود قرض دینا گوارہ نہ کیا۔ لارڈ کنیز یہ بنیے پن کا برتائو ہمارے ساتھ ہوا ہے مجھے اس کی گہرائی میں بڑے خطرات نظر آتے ہیں۔ سچی بات یہ ہے کہ اس کا ہمارے باہمی تعلقات میں بہت برا اثر پڑا ہے۔ یہ بوجھ بھاری جسے لادے ہوئے ہم جنگ سے نکل رہے ہیں ہماری ان قربانیوں اور جفاکشوں کا پڑا بڑا ہی نجیب صلہ ہے جو ہم نے مشترک مقصد کے لیے برداشت کیں، اس نرالے ستم ظریفانہ انعام جو آئندہ زمانے کے مورخین ہی بہتر رائے زنی کرسکیں گے۔ ہم نے درخواست کی تھی کہ ہم کو قرض حسن دیا جائے۔ مگر جواب میں ہم سے کہا گیا کہ عملی سیاست نہیں ہے، وزیر خزانہ ڈاکٹر ڈالٹن سارے انگریز سود کے نہ صرف حامی بلکہ پوری دنیا میں متعارف کرانے والے ہیں مگر جب قومی مصیبت تو سب چیخ اٹھے کہ یہ ظلم ہے۔ ہم امید کرتے ہیں کہ موجودہ حکومت سود کے خاتمے کے لیے عملی اقدامات کرے گی جماعت اسلامی اور دیگر اسلامی جماعتوں کی تائید اس کو حاصل ہوگی اور پاکستان کی سرزمین سونا اُگلنا شروع کردے گی۔ ورنہ دوسری صورت میں اس حکومت کے حصہ میں رسوائی کے سوا کچھ حاصل نہ ہوگا۔ اسلامی نظریاتی کونسل اور ماہرین کے پینل نے زندگی کے مختلف معاشی معاملات میں عملی تجاویز دے رکھی ہیں ان پر عمل کرنے کی ضرورت ہے۔