امیر لوگوں کی جمہوریت

268

جمہوریت کا مطلب یہ ہے کہ اس کے ذریعے جو حکومت قائم ہوتی ہے وہ عوامی ہوتی ہے، عوام کے لیے ہوتی ہے اور اس میں عوامی نمائندے شامل ہوتے ہیں۔ پاکستان میں عوامی حکومت اْن امیروں کی حکومت ہوتی ہے جو کسی بھی حکومت میں ہوتے ہوئے سرمایہ کاری کرتے ہیں۔ آج کی دنیا میں جمہوریت کو نیا نام دیں تو وہ حکومت جسے امیر بناتے ہیں امیروں کے لیے ہوتی ہے اور اس میں امیر نمائندے ہوتے ہیں۔ غریب، پڑھا لکھا اور متوسط طبقے کے آدمی کی نمائندگی کے لیے ممکن نہیں کہ وہ کسی بھی اسمبلی میں نمائندگی حاصل کرسکے۔
پاکستان میں جمہوریت اس لیے نہیں چلتی کیونکہ یہاں جو امیر جمہوریت پر پیسہ لگاتا ہے وہ اس کے ذریعے ڈبل پیسہ کمانا چاہتا ہے، جس کے باعث نہ ملک امیر ہوتا ہے اور نہ عوام، عمران خان کی حکومت کی ناکامی کی بھی اصل وجہ یہی ہے کہ اْن کی حکومت میں بیش تر نمائندے پرانی حکومتوں کے ہیں، جو سیاست کے کاروبار کے پرانے کھلاڑی ہیں اور سیاست کو اپنے مفاد کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ یہ وہ شراب ہے جو ہر دور میں ایک نئے لیبل کے ساتھ آتی ہے، عمران خان کی حکومت میں دوسرے جو ارکان ہیں انہوں نے بھی کسی نہ کسی سرمایہ دار کا ہاتھ پکڑتے ہوئے الیکشن میں کامیابی حاصل کی، عمران خان کا جو اپنا ارادہ تھا، وہ پورا نہیں ہوسکا، کیونکہ جب حکومت بنی تو مجبوری کے تحت مختلف لوگوں کو مختلف وزارتیں بانٹی گئیں۔ جن کے وہ اہل نہیں تھے، وزارتوں کی کامیابی اْن پالیسیوں سے ہوتی ہے جو اْس وزارت کو کامیاب کرے اور جس سے لوگ فائدہ اْٹھائیں، افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑ رہا ہے کہ مختلف شعبوں کے امیر لوگوں نے اپنے مفاد کے لیے اْن وزارتوں کو استعمال کیا اور ایسے قانون بنائے جن سے وہ اپنے اپنے کاروباروں میں کامیابی حاصل کرتے رہے حکومتی خرچوں پر، اس طرح سے حکومت پر دباؤ آتا رہا اور معیشت ڈوبتی رہی۔یہ کاروباری لوگ امیر سے امیر تر ہوتے گئے، مگر اپنے اداروں میں نہ انہوں نے اپنے مزدوروں کی تنخواہیں بڑھائیں اور نہ ہی ملک کی معیشت میں اپنا حصہ ڈالا، ان حضرات کا مقصد یہ تھا کہ ان کی جاگیرداری اور مونوپلی قائم رہے، اسی لیے انہوں نے حکومتی اداروں کو کمزور کیا تاکہ حکومتی ادارے بند ہوجائیں یا فروخت ہوجائیں، تاکہ یہ اپنی مونوپلی کرتے رہیں، آج اس مافیا نے ہر چیز کو مہنگا کردیا ہے۔ جس کا الزام وہ حکومت پر لگا رہے ہیں اور سیدھے سادے عوام اس پر یقین کررہے ہیں، مہنگائی روکنے کا آسان فارمولہ ہے کہ کاروباری مافیا کے لوگوں کو روکنے کے لیے انہی کے کاروبار کے مقابلے میں حکومت کاروبار کھولے، اس سے ایک مقابلے کی فضاء قائم ہوگی اور کوئی بھی کاروباری حضرات ذخیرہ اندوزی، یا سپلائی میں مصنوعی رکاوٹ نہیں کر پائیں گے۔
آج اگر ہم بات کریں تعلیمی اداروں کی تو انہوں نے تعلیم کو اتنا مہنگا کردیا ہے کہ ہر انسان کی جیب پر بھاری لگتی ہے، اْس کی وجہ یہ ہے کہ سرکاری اسکول کی کارکردگی نہایت ہی افسوس ناک ہے، اسی طرح اگر صحت کی بات کریں تو نجی اسپتال حکومت سے زمین انسانی خدمت کے لیے لیتے ہیں اور اْس پر نجی اسپتالوں کی فیس لی جاتی ہے۔ تعلیم مہنگی، اسپتال مہنگے اور اب یہ عالم ہے کہ بجلی بھی اتنی مہنگی کردی کہ ہر انسان اس کے بل کو لے کر رو رہا ہے، پرائیویٹ آئی پی پیز نے بھی اپنی جاگیرداری بنادی ہے، کے الیکٹرک اس کی جیتی جاگتی مثال ہے۔ جب یہ حکومت کے پاس تھی تو پاکستان کی تاریخ کی سب سے کم سطح پر بجلی کے بل آتے تھے۔ آج بھی حکومت ہر اْس ادارے کو جو اْن کے پاس ہے فروخت کرنا چاہتی ہے، مگر یہ بھول رہی ہے کہ پرائیویٹ سیکٹر مزید اور بلیک میلنگ کرے گا اور اپنی من مانی قیمتیں لگائے گا، جو معیشت کے لیے ایک مصیبت بن جائے گی۔ پرائیویٹ اور ملٹی نیشنل سیکٹر ہمیشہ سے حکومتوں سے فائدے مانگتے ہیں، مگر عوام کو اس کا فائدہ نہیں پہنچاتے۔ جس کے باعث آج 30فی صد غربت میں اضافہ ہوا اور روزگار پر ہونے کے باوجود کم تنخواہوں کے باعث مہنگائی کا رونا روتے ہیں، جب تک حکومت مکسڈ اکانومی پر توجہ نہیں دے گی، یعنی کہ پرائیویٹ اور گورنمنٹ اداروں کو ملا کر چلانا، اس کے بغیر پاکستان کا مستقبل روشن نہیں ہوسکتا۔