طالبان کی فتح یا امریکا کی شکست؟

1042

جو لوگ ایک کی فتح ،مقابل کی لازمی شکست کا نتیجہ سمجھتے ہیں، یا ایک کی شکست اس کے متحارب کی لازمی فتح سمجھتے ہیں، انہیں یہ سوال عجیب سا لگے گا۔ لیکن بارہا ایسا بھی ہوتا ہے کہ بات صرف ایک ہو۔ خصوصاً اس نئے صورت حال میں جب آپ کے سامنے کوئی ملک نہیں بلکہ ایک تجارتی کارپریشن ہو، اس کے سپاہی کسی ٹھیکیدار کمپنی کے سپلائی کیے گئے کرایہ کے مزدور ہوں، اور دشمن ملک کا آدرش صرف اور صرف منافع کمانا ہو۔
طالبان کی فتح یقینی ہے لیکن کیا امریکا کی شکست ویسی ہی یقینی ہے؟ یقین کے ساتھ نہیں کہا جا سکتا۔ امریکا کا کردار ایک میگا تجارتی کارپوریشن کا کردار ہے۔ یا یوں کہہ لیجیے کہ امریکا امریکی کارپوریشنز کے مفادات کی جنگ لڑتا ہے۔ ان کارپوریشنز کی اکثریت کا تعلق تیل اور اسلحہ کی صنعت سے ہے۔ تیل کی کمپنیاں تیل پیدا کرنے والے ممالک میں اس کی نکاسی ، صفائی اور ترسیل کا ٹھیکہ چاہتی ہیں ، نہ ملنے پر امریکی ریاست کو اس کے خلاف جنگ پر آمادہ کرتی ہیں۔ جیسے عراق کے صدام حسین نے جب انٹرنیشنل ٹینڈر دے کر اپنے یہاں کے تیل کے ذخائر پر غیر امریکی تیل کمپنیوں کو ٹھیکہ دے دیا تو امریکا نے رد عمل میں عراق کو تباہ کر دیا۔ اور اسی کے تیل کی دولت سے امریکی کمپنیوں کو اس کے تباہ شدہ انفرا اسٹرکچر کو از سر نو تعمیر کا ٹھیکہ دیا ، جو آج تک مکمل بھی نہ ہوسکا اور تیل کی ساری دولت لوٹ لی۔ قبضہ کے بعد عراقی بینکوں اور محلات سے ٹنوں سونا لوٹا گیا۔ اسلحہ کی کمپنیاں دنیا میں وار تھیٹر بنائے رکھنا چاہتی ہیں، خصوصاً ان ممالک میں جو اسلحہ خریدنے کی سکت اور وسائل رکھتے ہوں، سیاست اور پروپیگنڈا کی طاقت سے ان کی سلامتی کو خطرہ میں ڈالنا، اور وہاں وار زون قائم رکھنا ان کی ضرورت ہے۔
افغان پروجیکٹ امریکا کے نزدیک ایک بزنس پروجیکٹ تھا اور اس کا پلان بھی ٹھیک اسی طرح بنا تھا جس طرح کہ ایک بزنس پلان بنتا ہے۔ اندازہ تھا کہ ترکمانستان میں تیل کے ذخائر 33 ٹریلین ڈالرز ہیں۔ وہاں سے تیل کی پائپ لائن سے افغانستان اور پاکستان سے گزار کر انڈیا (TAPI pipeline) کو سپلائی کیا جائے۔یہ پائپ لائن21.5 بلین ڈالر کے خرچ سے تعمیرہونی تھی۔
افغانستان میں سویت یونین کی شکست کے بعد امریکا وہاں اپنے پسند کی ایک ایسی ’’لبرل جمہوریت‘‘ دیکھنا چاہتا تھا، جن کے حکمراں ان کی اطاعت و فرمانبرداری کریں۔ فاتح مجاہد تنظیموں سے انہیں ایسی امید نہیں تھی۔ ہر چند کہ ان کی کامیابی میں امریکی فوجی اور مالی امداد شامل تھا، لیکن مجاہدین اسے اپنے زور بازو سے اور شہیدوں کے خون سے جیتی ہوئی جنگ سمجھتے تھے۔ اور ایسا سمجھنے میں وہ پوری طرح حق بجانب بھی تھے۔ اور اصل حقیقت یہی تھی۔ جنگ افراد ہی لڑتے ہیں، نہ کہ اسلحہ۔ بہرحال تاریخ یہی بتاتی ہے کہ کسی کی مدد سے حاصل ہونے والی فتح میں مدد کرنے والا اپنا حصہ لیتا ہے۔ ادھر مدد کرنے والا ایک ایسا عالمی سامراج تھا، جو متکبر بھی تھا، اور کٹھور دل بھی۔ اس کی پوری تاریخ انسانوں اور قوموں کے قتل عام اور ان پر ڈھائے جانے والے مظالم سے بھری ہوئی تھی۔ یہ ’’مددگار‘‘ اپنا صرف حصہ نہیں بلکہ پورا جثہ چاہتا تھا۔
افغان جہاد میں شامل تنظیموں کے سرپرست اعلیٰ پاکستان فوج کے سربراہ اور صدرپاکستان جنرل ضیا الحق تھے۔ ان کے رہتے ہوئے مجاہد تنظیموں کو حق اقتدار سے محروم رکھنا مشکل تھا چنانچہ انہیں ان کے ان ساتھی جرنیلوں سمیت جن کا افغان جہاد میں نمایاں رول تھا، شہید کر دیا گیا۔ اور اس کے بعد افغان مجاہد تنظیموں کو بے یار و مددگار چھوڑ دیا گیا۔ بدقسمتی یہ ہے کہ یہ مجاہد تنظیمیں اپنے معاملات کو باہمی گفتگو کے ذریعہ حل نہ کر سکیں۔ اور ان کے باہمی تنازع سے افغانستان میں امریکا کے لیے راہ ہموار ہوگئی۔ جنرل ضیا الحق کے بعد جنرل اسلم بیگ آئے اور انہوں نے جلد ہی انتخاب کراکے حکومت منتخب پاکستان پیپلز پارٹی کے حوالہ کر دی۔ کہا جاتا ہے کہ اس کامیابی میں امریکی مدد اور سرمایہ کا خصوصی رول تھا۔
بے نظیر بھٹو کی حکومت امریکی مفادات کے تحفظ کے لیے سرگرم ہو گئیں۔ افغان مجاہد تنظیموں اور ان کی قیادت کو افغانستان کے اقتدار سے ہمیشہ کے لیے ہٹا دینا اور اس معاملہ میں امریکا کے ساتھ مکمل تعاون کرنا ان کا پہلا مقصد تھا۔ بے نظیر بھٹو نے وزارت دفاع کا قلمدان اپنے پاس رکھا، اور سابق لیفٹیننٹ جنرل نصیراللہ خاں بابر کو اپنا خصوصی معاون بنایا۔ جنرل بابر ذوالفقار علی بھٹو کے وزارت عظمیٰ میں صوبہ سرحد (اب خیبر پختونخواہ) کے گورنر رہ چکے تھے۔
جنرل بابر کا سب سے اہم ٹاسک تھا افغان مجاہد تنظیموں اور ان کے قائدین کے مقابلہ میں ایک نئے گروہ کو کھڑا کرنا۔ پاکستان کے مدارس میں زیر تعلیم افغان طلبا کو جمع کیا گیا، انہیں ضروری تربیت دی گئی اور کابل فتح کرنے کے لیے بھیج دیا گیا۔ اس وقت کا پاکستانی اسٹیبلشمنٹ طالبان کی پشت پر تھی۔ ادھر افغانستان کی مجاہد تنظیمیں آپس میں لڑ لڑ کر تھک چکی تھیں۔ کسی کے اندر مزاحمتی قوت باقی نہیں رہی تھی۔ علاوہ ازیں وہ مدارس کے نوجوان طلبا سے ٹکرانا عبث سمجھتے تھے۔ چنانچہ معمولی مزاحمت سے ہی طالبان کا کابل پر قبضہ ہوگیا۔ اور وہ آہستہ آہستہ ایک ایک کر کے شہر بہ شہر، صوبہ در صوبہ قابض ہوتے چلے گئے۔
افغان مجاہدین کے مقابلہ میں طالبان کا انتخاب غالباً اس نقطہ نظر سے تھا کہ افغان مجاہدین کے اسلام کے عالمی اپیل کے مقابلہ میں طالبان کی اپروچ مقامی ہوگی۔ وہ فروعی معاملات پر زیادہ توجہ کریں گے۔ وہ داڑھی کے سائز اور ٹخنہ سے اوپر پاجامہ کی پیمائش میں لگے رہیں گے، اور امریکا اپنے تجارتی اور سیاسی مفادات کو حاصل کر لے گا۔ لیکن امریکا کی امید بر نہیں آئی۔ پائپ لائن جیسے بظاہر معمولی مسئلہ پر بھی امریکی شرائط (جو بہر حال انتہائی غیر منصفانہ ہوتی ہیں) پر طالبان سے معاہدہ نہ ہو سکا۔ اسلام کا تصور حریت اور افغانی غیرت آڑے آگئی۔ اور اس کے بعد طالبان کو امریکا اور پاکستان دونوں نے تنہا چھوڑ دیا۔ معاشی بدحالی کا تو ایک حل طالبان نے یہ نکالا کہ وہ چندہ کے لیے اسی طرح نکل گئے، جیسا کہ وہ مدرسہ اور مسجد کے چندہ کے لیے نکلتے ہیں۔محمد علی ہاوسنگ سوسائٹی، کراچی میں ایک ظہر کے بعد میں نے منبر سے یہ اعلان سنا کہ افغانستان کے چند وزرا آئے ہوئے ہیں جو آپ سے خطاب کریں گے۔ ایک ریاست کے لیے چندہ کی اپیل اور چندہ جمع کرنا عجیب سا لگا۔ لیکن یہی حقیقت تھی۔ میں ایک دن پی ای سی ایچ، کراچی میں ایک دوست کے گھر بیٹھا تھا، جومواصلاتی ٹیکنالوجی کے بزنس کو سمجھتے تھے اور متعلقہ عالمی کمپنیوں سے واقف تھے، وہ کہنے لگے کہ وہ طالبان حکومت کی مدد کرنا چاہتے ہیں،’’ وہ بہت غریب ہیں لیکن بہت اچھے لوگ ہیں‘‘۔ یہ سب باتیں ہمارے لیے اس وقت انتہائی تعجب خیز لگتی تھیں۔ بعد میں کئی دوسری عالمی اسلامی اور فلاحی و رفاہی ادارے افغانستان آگئے اور کئی ترقیاتی پروجیکٹ کو ان لوگوں نے سنبھال لیا۔
نائن الیون سے بہت قبل افغانستان سے طالبان اور عراق سے صدام حسین کو ہٹانے کا فیصلہ ہو چکا تھا۔ نائن الیون کا پلان ایک اسموک اسکرین تھا جو ان دو ملکوں کو تباہ کرنے کے لیے بنایا گیا تھا۔ امریکا میں جنگ مخالف تحریکیں زوروں پر تھیں۔ اور جنگ (حملہ) کرنے کے لیے ان مخالفت کی آواز کو دبانے کا نائن الیون بہترین بہانہ تھا۔
امریکا کا افغانستان بزنس پلان یہ تھا کہ ترکمانستان کی 33 ٹیریلین ڈالر کی گیس کو پائپ لائن میں لانے کے لیے اگر اس وار میں 3ٹریلین ڈالر خرچ ہو جائیں تو یہ کوئی گھاٹے کا سودا نہیں ہے۔ لیکن جب دوٹریلین ڈالر سے معاملہ اوپر جانے کے بعد دور دور تک کامیابی کے کوئی آثار نظر نہیں آئے، اتحادی ملکوں نے ساتھ چھوڑ دیا، اور ہر طرف سے پسپائی شروع ہوگئی ، ہزاروں افرادی قوت کے جانی اور دماغی (فوجیوں میں پاگل پن کا اضافہ) نقصان کے بعد بھی کچھ حاصل نہ ہوا۔ تو جس طرح ہر بزنس کا ایک خروجی منصوبہ (Exit Plan) بھی ہوتا ہے، ٹھیک اسی طرح یہ پلان بھی خروج کے فیز میں داخل ہوگیا۔ امریکی عوام کی نوے فیصد آبادی کو پتہ ہی نہیں کہ افغانستان میں کیا ہو رہا ہے۔ اسے اپنی گلیوں اور اپنے گاوں، شہروں، اور اس کے یہاں کھیلے جانے والے اسپورٹس کے علاوہ کسی دوسری خبر سے مطلب ہی نہیں ہے۔ان کے یہاں انٹرنیشنل اسپورٹس ٹورنامنٹ کا بھی مطلب صرف یہ ہے جس میں امریکا اور کینیڈا کی تمام ریاستوں (صوبوں) کے درمیان مقابلہ ہو جائے۔امریکا کی افغانستان سے واپسی میں ٹرمپ فیکٹر کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ہے۔ امریکی میڈیا کے بڑے بڑے ادارے ڈونلڈ ٹرمپ کو جھوٹا ثابت کرنے کے لیے رات دن ایک کیے ہوئے تھے۔ حالانکہ اصل حقیقت یہ ہے کہ امریکا کے کسی صدر نے کبھی ایک سچ نہیں بولا ہے سوائے صدر مسٹر ٹرمپ کے ایک سچ کے کہ : ’’ ہم نے تاریخ میں ایک بھی سچ نہیں بولا۔‘‘
سوویت یونین کی افغانستان میں شکست بہت معنی رکھتی تھی کیونکہ اس کی شکست کی تاریخ نہیں تھی۔جب کہ امریکا کی فتح کی کوئی تاریخ ہی نہیں ہے، ملکوں کو فضائی بمباری سے تباہ کرنا فتح کی نہیں ، شکست خوردہ بزدل فوج کا کارنامہ ہے۔ وہ ہر جگہ سے یا تو مار کھا کر بے آبرو نکلا ہے، یا مار کھا کر معاہدہ پر مجبور ہوا ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے طالبان کو بہادر کہا، ہیرو کہا، ان سے امریکی فوج کے انخلا کا معاہدہ کیا۔ طالبان کی ہر بات مان لی گئی۔ طالبان بلاشبہ ایک بڑی طویل جنگ کے فاتح ہیں۔ جنگی، سیاسی اور سفارتی ہر محاذ پر وہ کامیاب رہے۔انہوں نے ایک نئی تاریخ رقم کی ہے۔