طالبان کی ہیبت۔ جہاد کی برکت

559

پاکستان کے سیکولرز اور نام نہاد لبرلز خواہ کتنا ہی پیچ و تاب کھائیں لیکن یہ حقیقت ہے کہ جہاد کی برکت سے اس وقت پوری دنیا پر افغان طالبان کی ہیبت طاری ہے۔ مادی اعتبار سے دنیا کی سپرپاور امریکا ان کے سامنے غیر مشروط طور پر ہتھیار ڈالنے پر مجبور ہوگیا ہے اور اس کا صدر برملا یہ اعتراف کررہا ہے کہ وہ امریکا کی دوسری نسل کو افغان جنگ میں نہیں جھونک سکتا۔ روس طالبان کے ساتھ اپنا رابطہ بڑھانے میں مصروف ہے وہ طالبان کے وفد کو اپنے ملک میں بلا کر ان سے مذاکرات کرچکا ہے۔ چین بھی طالبان کے ساتھ رابطے میں ہے۔ طالبان کی قیادت پڑوسی ملکوں کے ساتھ بھی بات چیت میں مصروف ہے۔ طالبان کا وفد ایران کا دورہ کرچکا ہے، پاکستان کو وہ اپنا بھائی سمجھتے ہیں۔ انہوں نے پاکستانی حکمرانوں پر یہ واضح کردیا ہے کہ وہ ان کی ڈکٹیشن قبول نہیں کریں گے۔ البتہ مخلصانہ مشوروں پر ضرور توجہ دیں گے۔ بھارت ان کے حریفوں کی سرپرستی کررہا ہے، طالبان نے اسے خبردار کیا ہے کہ وہ آگ سے نہ کھیلے اور اپنی منافقانہ پالیسی ترک کردے۔ مستقبل قریب میں بھارت کے ساتھ بھی ان کے مذاکرات ہوسکتے ہیں۔
اِس وقت طالبان افغانستان کی غالب اور فیصلہ کن قوت ہیں۔ امریکا اکیلا افغانستان پر حملہ آور نہٰں ہوا تھا وہ ناٹو کے چالیس ملکوں کی افواج کو بھی اپنے ہمراہ لایا تھا اور ایک پسماندہ، مفلوک الحال اور بے وسیلہ ملک پر دنیا کی جدید ترین افواج نے چڑھائی کی تھی۔ امریکا اس متحدہ فوجی قوت کی قیادت کررہا تھا۔ اس نے طالبان پر دہشت گردی کا لیبل لگا کر انہیں پوری دنیا سے کاٹ دیا تھا۔ کوئی انہیں منہ لگانے کو تیار نہ تھا۔ امریکا اپنی جدید ترین اور ہولناک ترین جنگی مشینری کے ذریعے پورے افغانستان کو آگ اور خون میں نہلا بھی رہا تھا اور اپنے مظلوم حریف طالبان کو بدنام بھی کررہا تھا۔ افغانستان کے تمام ضمیر فروش لادین اور بکائو عناصر امریکا کی پشت پر تھے وہ ان پر ڈالروں کی بارش کررہا تھا اور یہ عناصر اپنے مالی مفاد کے لیے افغانستان پر غیر ملکی افواج کو خوش آمدید کہہ رہے تھے جب کہ ان کے مقابلے میں صرف طالبان ہی اپنے ملک کی آزادی و خود مختاری کے حامی تھے وہ ہر قیمت پر اپنے وطن کو غیر ملکی حملہ آوروں اور قابضین سے پاک کرنا چاہتے تھے۔ ان کا دین بھی انہیں اسی بات کی تعلیم دیتا تھا اور انہیں حملہ آوروں کے خلاف جہاد کا علم بلند کرنے کا حکم دیتا تھا۔ چناں چہ وہ اس حکم پر آمنّا و صدقنا کہتے ہوئے میدان میں کود پڑے اور فتح و شکست سے بے نیاز اپنے مشن میں جُت گئے۔ جہاد کی فضیلت تو خود قرآن نے بیان کی ہے اور اللہ کے رسولؐ نے فرمایا ہے کہ جب مسلمان جہاد ترک کردیں گے تو ذلت و رسوائی ان پر مسلط ہوجائے گی اور غیر قومیں ان پر اس طرح ٹوٹ پڑیں گی جس طرح بھوکے دستر خوان پر ٹوٹ پڑتے ہیں۔ آپؐ سے پوچھا گیا کہ کیا اس وقت مسلمان تھوڑی تعداد میں ہوں گے۔ رسول برحقؐ نے فرمایا نہیں، مسلمان بھاری تعداد میں ہوں گے لیکن ان میں ’’ھن‘‘ یعنی موت سے خوف کی بیماری لاحق ہوجائے گی آج عالم اسلام کا نقشہ وہی ہے جس کا ذکر اس حدیث میں آیا ہے۔ اس میں اگر کوئی استثنا ہے تو وہ طالبان ہیں۔ طالبان نے اللہ اور اس کے رسولؐ کے اس فرمان کو سچ کر دکھایا ہے کہ جہاد سے ہی مسلمان دنیا میں اپنی عزت بحال کرسکتے ہیں۔ جہاد ہی وہ راستہ ہے جس سے کفر کی طاقتوں کو زیر کیا جاسکتا ہے اور ان پر ہیبت طاری کی جاسکتی ہے۔
طالبان کے جنگجوئوں کی تعداد ساٹھ ستر ہزار سے زیادہ نہیں ہے۔ انہوں نے ایک طرف جہاد کی قوت سے امریکا اور چالیس ناٹو ممالک کی افواج کو افغانستان سے راہِ فرار اختیار کرنے پر مجبور کردیا ہے، وہیں امریکا کی تیار کردہ تین لاکھ نفوس پر مشتمل افغان آرمی بھی طالبان کے آگے ریت کی دیوار ثابت ہورہی ہے۔ اس آرمی کو کھڑا کرنے میں امریکا نے 80 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی تھی اور اسے طالبان کے مقابلے میں جدید ترین جنگی مشینری سے لیس کیا تھا۔ امریکا کا خیال تھا کہ افغانستان سے اس کی واپسی کے بعد افغان آرمی طالبان کا ڈٹ کر مقابلہ کرے گی اور کابل میں اشرف غنی کی کٹھ پتلی حکومت اپنی رِٹ برقرار رکھنے میں کامیاب رہے گی لیکن اس کا یہ خیال محض ایک قیاس ثابت ہوا۔ افغان آرمی کے سپاہیوں نے کہیں کہیں طالبان کی مزاحمت ضرور کی لیکن وہ کہیں بھی استقامت نہ دکھا سکے اور انہوں نے ہتھیار ڈالنے ہی میں عافیت سمجھی۔ طالبان نے ہتھیار ڈالنے والے فوجیوں کو گرفتار نہیں کیا بلکہ انہیں زادِ راہ دے کر ان کے گھروں کو روانہ کردیا۔ طالبان اِس وقت کابل کے دروازے پر کھڑے ہیں لیکن افغان دارالحکومت میں داخل ہونے سے قبل وہ باقی افغانستان پر اپنا کنٹرول مستحکم بنارہے ہیں۔ انہوں نے افغانستان کی سرحدوں پر واقع تمام چوکیوں پر قبضہ کرلیا ہے اور بیرونی مداخلت یا ملک سے فرار کے تمام راستے بند کردیے ہیں۔ کہا جارہا ہے کہ وہ کابل میں اُس وقت داخل ہوں گے جب اگست میں امریکا کا آخری فوجی بھی کابل سے نکل جائے گا تا کہ افغان دارالحکومت میں خونریزی کا امکان کم سے کم ہوجائے۔ طالبان کے ترجمان نے کہا ہے کہ وہ غلبہ حاصل کرنے کی قوت رکھنے کے باوجود اپنے افغان حریفوں کے ساتھ مذاکرات کے ذریعے اس مسئلے کا سیاسی حل چاہتے ہیں لیکن فریق مخالف مذاکرات سے گریز کی پالیسی اختیار کرکے وقت ضائع کررہا ہے۔ ظاہر ہے کہ مذاکرات نہیں ہوں گے تو طالبان کو بزور طاقت اپنی بات منوانا پڑے گی جس میں خونریزی کا بھی امکان ہے اس کی ذمے داری طالبان پر نہیں ان کے حریفوں پر عائد ہوگی۔
طالبان نے واضح کیا ہے کہ وہ عالمی برادری کے ساتھ برابری کی بنیاد پر سفارتی و سیاسی تعلقات قائم کرنا چاہتے ہیں۔ افغانستان میں غیر ملکی سفارت خانوں اور انسانیت کی بنیاد پر کام کرنے والی این جی اوز کی حفاظت کی جائے گی اور اپنی سرزمین پر کسی دہشت گرد تنظیم کو کام کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ یہ ساری باتیں بین الاقوامی اصولوں کے عین مطابق ہیں اور توقع کی جارہی ہے کہ کابل میں طالبان کی حکومت قائم ہوتے ہی چین اور روس سمیت بیشتر بڑے ممالک اسے تسلیم کرلیں گے۔ برطانیہ نے تو پیشگی تسلیم کرنے کا اعلان کردیا ہے۔ امریکا کے اشارے پر تمام مسلمان ممالک بھی طالبان حکومت کو تسلیم کرلیں گے، پھر آخر میں امریکا بھی طالبان حکومت پر اپنی مہر ثبت کردے گا۔ افغان امور کے ماہرین کا دعویٰ ہے کہ امریکا اور طالبان کے درمیان اس سلسلے میں مفاہمت ہوچکی ہے اور طالبان نے امریکا سے تعلقات قائم کرنے میں دلچسپی ظاہر کی ہے۔
ہم آخر میں پھر یہی عرض کریں گے کہ طالبان کی جیت اور دنیا پر ان کی ہیبت جہاد کی وجہ سے قائم ہوئی ہے۔ وہ جہاد کا راستہ نہ اختیار کرتے تو ذلت و رسوائی ان کا مقدر بن جاتی۔