قید یوں کی سزا میں کمی کا اعلان

344

انسان ایسے کام کرنے کے لیے جلدی تیار ہوجاتا ہے جو کہ سہل ہو اور اس کا جلد فائدہ ہو، ایسے کام جو مشکل ہوں اور جن کا فائدہ دیر سے سامنے آتا ہے ان کاموں کے کرنے سے انسان کتراتا ہے۔ ہر عید پر حکومتیں ملک کے اندر سرکاری جیلوں میں قیدیوں کی سزاؤں میں تخفیف کرکے ایک تیر سے دو شکار کرتی ہیں۔ گزشتہ دنوں یہ خبر اخبارات کی زینت بنی کہ سندھ حکومت کے روح رواں تیسری بار وزیر اعلیٰ بننے والے سید مراد علی شاہ صاحب نے بھی سندھ بھر میں سرکاری جیلوں میں قید مجرموں کی سزا میں تخفیف کرنے کا اعلان کیا ہے۔ لیکن اس کا اطلاق ان قیدیوں پر نہیں ہوگا جو قتل، دہشت گردی، زنا، جاسوسی، بغاوت، منشیات فروشی اور سرکاری خزانے میں غبن کے جرم میں ملّوث ہوئے ہوں۔ بالکل اسی طرح کا اعلان وفاق اور دیگر صوبوں میں بھی کیا گیا ہے۔ یاد رہے کہ یہ صرف دیگر اعلان برائے اعلان کی طرح نہیں ہے بلکہ اس پر جلد عملدرآمد بھی ہونا ہے۔ یہ بھی ملاحظہ فرمالیں کہ پورے ایک سو بیس دن کی تخفیف ہے سزاؤں میں۔ پورے ملک کی امن و امان کی بات کرنا تو سورج کو چراغ دکھانے کے مترادف ہے، ہم صرف سندھ ہی کا تذکرہ کریں گے۔ اوپر جن مجرموں کو اس تخفیف سے مستثنیٰ قرار دیا گیا ہے وہ تمام جرائم سندھ کے اندر ہر شہر اور ہر قریہ میں ہر گھنٹے کی بنیاد پر ہورہے ہیں۔ اور کسی قانون نافذ کرنے والے ادارے کی کارکردگی صفر نہیں بلکہ نقطہ ٔ انجماد سے اوپر نہیں آرہی ہے۔ ایک بار ہم سر آغا خان سوم روڈ سے گزر رہے تھے جہاں ایک بہت بڑا پولیس ہیڈ کواٹر ہے اس کے چاروں اطراف ایک مضبوط کنکریٹ کی بیس فٹ اونچی دیوار ہے اس کو دیکھ کر ہمارے دوست نے کہا کہ ہمارے محافظوں کو خود اپنی حفاظت کی اتنی فکر کرنی پڑتی ہے تو وہ ہماری حفاظت کی فکر کب کریں گے۔ روزانہ کی بنیاد پر جرائم اتنی تیزی کے ساتھ سندھ میں ہورہے ہیں کہ ایک دن کی پرانی سروے رپورٹ اگلے دن بہت زیادہ پرانی لگنے لگتی ہے۔ بہر حال بات ہورہی ہے آسان کام کس طرح ہماری صوبائی حکومت کررہی ہے وہ یہ ہے کہ وزیر اعلیٰ کے ایک دستخط کے ذریعے تمام خاص مجرموں کو ایک سوبیس دنوں کی رعایت مل جائے گی اور وہ قیدی خوش نصیب ہوں گے جن کو یہ ایک سو بیس دن رمضان المبارک کے ان آخری لمحات میں رہائی کا پروانہ بن کر مل جائے، یہ تو سونے پر سہاگہ والی بات ہوگی۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ سندھ پولیس اور قانون نافذ کرنے والے ادارے ان جرائم پیشہ افراد کے خلاف بے بس نظر آرہے ہیں۔ جن جرائم پر یہ ایک سو بیس دن کا اطلاق نہیں ہوگا وہ جرائم پیشہ افراد اس وقت پورے شہر اور خصوصاً کراچی میں دندناتے پھر رہے ہیں جرائم کی تعداد کو دیکھتے ہوئے ہر صاحب عقل یہ سمجھ سکتا ہے کہ یہ ڈاکوؤں، لٹیروں اور منشیات فروشوں کی ایک فوج ظفر موج ہے ظاہر ہے جتنی بڑی تعداد میں یہ جرائم پیشہ لوگ وارداتیں کررہے ہیں کراچی کی ایک لا کھ بائیس ہزار سے زائد پولیس کی جو ایک فوج ظفر موج ہے جو بقول سربراہ سندھ پولیس جدید ہتھیاروں سے لیس بھی ہے۔ اس کے علاوہ رینجز اور دیگر ادارے، جرائم پیشہ افراد اگر ان کے قابو میں نہیں آرہے تو اس کا مطلب صاف ہے کہ جرائم پیشہ افراد کی تعداد ان سے کہیں زیادہ ہے۔ یا پھر اس کا مطلب یہ ہے کہ ان تمام اداروں کے اندر بڑی تعداد میں جرائم پیشہ افراد شامل ہیں اور جو آٹے میں نمک کے برابر ایماندار اہل کار ہیں وہ بے چارے کیا کرسکتے ہیں۔

ایک سو بیس دن کا اطلاق جن مجرموں پر نہیں ہوگا اس طرح کے تمام جرائم پیشہ افراد میرا خیال ہے کہ جیلوں میں نہیں ہوں گے بلکہ وہ تو سب کے سب شہروں کی گلیوں میں سیزن کمانے میں لگے ہوں گے جیلوں میں تو وہ ہوں گے جنہوں نے کبھی کسی کی مرغی، کسی کی چپل یا کسی کی بکری چرائی ہوگی۔ چلیں ان مجرموں کو تو اس تخفیف سے فائدہ ہوا۔ مگر وزیر اعلیٰ صاحب ذرا یہ بھی سوچیں کہ سندھ کے اندر سرکاری جیلوں کے علاوہ نجی جیلیں بھی ہیں جن کے اندر بھی ہزاروں افراد قید ہیں جن کی قید کی سزا کسی عدالت نے نہیں سنائی اور وہ لوگ جو کہ کچّے کے ڈاکوؤں کی قید میں ہیں ان کی سزا میں ایک دن کی بھی تخفیف کون کرے گا وہ بے چارے تو ڈاکوؤں کی قید میں ہیں اور ان کے اہل خانہ اس عید پر بھی ان کی جدائی میں عید کی خوشیاں کیسے منائیں گے ان کے معصوم بچّوں کو کپڑے کون لا کر دے گا، کھلونے اور عیدی کون دے گا اس دکھ اور درد کے موقع پر تو آپ کو ہر اس طرح کے قیدی کے گھر جاکر ان کے گھر والوں کو کپڑے،کھلونے اور عیدی دینی چاہیے اور ان کو یہ یقین دلانا چاہیے کہ جب تک آپ کے بابا، آپ کے خاوند اور آپ کے بھائی گھر نہیں آجاتے اس وقت تک چین سے نہیں بیٹھوں گا اس لیے کہ اب تو صرف وزیر اعلیٰ ہی نہیں بلکہ صدر پاکستان بھی سندھ صوبے کا ہے۔ چلتے چلتے ایک اور واقعہ ملاحظہ فرمائیے کہ گزشتہ دنوں دورے پر پولیس کے ایک اعلیٰ افسر کا گزر کچے کے علاقوں سے ہونا تھا سفر سے پہلے چند اہل کار کچّے کے ڈاکوؤں کے پاس اس بات کے لیے گئے کہ وہ جب افسر یہاں سے گزر رہا ہو تووہ کہیں اور چلے جائیں اس پر ڈاکوؤں نے کہا کہ کوئی بات نہیں ہم ان کے کسی چھوٹے افسر کو اغواء کرکے تاوان وصول کرلیں گے۔ چونکہ ان سب کا تعلق وزارت داخلہ سے ہے لیجیے حالیہ وزیر داخلہ نے سابق نگراں وزیر داخلہ کو ان سب حالیہ بدامنی کا ذمّہ دار ٹھیرایا ہے اس بیان پر نگراں وزیر داخلہ جو کہ ایک سابق بریگیڈیر ہیں۔ انہوں نے جو بیان دیا ہے وہ قابل غور ہے وہ فرماتے ہیں کہ کچّے کے ڈاکوؤں کو وڈیروں اور ارکان صوبائی و قومی کی حمایت حاصل ہے۔ یہ بات مضحکہ خیز ہے کہ یہ بات ان کو وزارت سے فراغت کے بعد معلوم ہوئی ویسے اکثر اس طرح کے انکشافات پاکستان میں وزارت سے فراغت کے بعد ہی ہوتے ہیں۔ ویسے ڈاکوؤں کی سرداروں کی اور اسمبلیوں کے ارکان کی حمایت کو آپ آصفہ صاحبہ کی بلا مقابلہ فتح سے بھی جوڑ سکتے ہیں جو کہ قرین قیاس ہے۔