تجربات کے اونٹ

320

مملکت خداداد اسلامی جمہوریہ پاکستان روز اوّل سے تجربہ گاہ بنی ہوئی ہے۔ قائداعظم محمد علی جناح کے فرمودات اور نظریات اُن کی رحلت کے ساتھ ہی رخصت قرار پائے۔ اور تجربوں کے شوقین حکمرانوں نے نوزائیدہ معصوم ریاست پر شوقِ تجربہ آزمانے شروع کردیے۔ ابھی قائداعظم کا کفن بھی میلا نہ ہوا تھا کہ پاکستان کی اسلامی شناخت، مسلم جسد واحد کا تجربہ یوں ہوا کہ مشرقی پاکستان جو ایک صوبہ ہے اور بڑا حصہ ہے تو اس کی برابری کرنے کے لیے مغربی پاکستان کے صوبوں کو وحدت الوجود کے فارمولے کے تحت ون یونٹ بنادیا جائے اور پھر بڑے چھوٹے کی تمیز ختم کرکے زبانی کلامی مشرقی اور مغربی پاکستان مشترکہ پاکستان ہو جائے، سو ملک فیروز خان نون نے 2 مارچ 1949ء کو برابری کا یہ فارمولا اسمبلی کے سامنے رکھا اور اس میں جلدی اتنی تھی کہ اس کام کو قرار داد مقاصد جو مملکت کی بنیاد تھی اس کو تاخیر کا شکار کیا جو اس وحدت الوجود مملکت کے فارمولے کے ایک عشرہ ایام کے بعد یعنی 12 مارچ 1949ء جو اسمبلی سے پاس کرائی گئی۔ 2 مارچ کو ون یونٹ بنانے کا منصوبہ اسمبلی میں اٹھا تو دوسرے دن ہی چودھری محمد علی، مشتاق احمد گورمانی، جہاں آرا شہناز اور ممتاز دولتانہ اس بل کو پاس کرانے کے لیے لنگوٹی کس کر مصروف عمل ہوگئے۔ مشرقی پاکستان کے کچھ زعما کرام معترض تھے کہ یہ کون سا انصاف ہے کہ 60 فی صد آبادی کا حامل مشرقی پاکستان 50 فی صد کا قرار پائے اور 40 فی صد کا مغربی پاکستان 50 فی صد بنا دیاجائے اس مخالفت نے برق رفتاری کو سست رفتار تو کردیا مگر کام رُکا نہیں۔ اپریل 53ء میں محمد علی بوگرہ وزیراعظم بنے تو یہ وحدت الوجود یعنی ون یونٹ پلان پھر سرسبز شاداب ہوگیا تو اس پلان کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے عسکری دوا سے یوں کام لیا گیا کہ چیف کمانڈر آرمی ایوب خان کو ملک کے وزیر دفاع کے عہدے سے سرفراز کردیا گیا تو ریٹائرڈ جنرل اسکندر مرزا کے تجربات سے استفادہ کرنے کے لیے ان کو وزیر داخلہ مقرر کردیا گیا کہ بس یہ کچھ کرنا ہے۔ یہ منصوبہ سول و عسکری دونوں قوتوں سے پروان چڑھنے لگا مگر اس منصوبے کو ایک دھچکا لگا۔

24 اکتوبر 54ء کو قومی اسمبلی تحلیل کردی گئی تو ضروری ہوا کہ صوبائی اسمبلیوں سے اس کی منظوری لی جائے، سو اس دور میں پنجاب، سندھ اور سرحد ہی کی اسمبلیاں تھیں وہاں یہ قرار داد ون یونٹ پیش کی گئیں۔ صوبہ سندھ جو پہلے ہی انگریز برطانیہ کی حکومت کے ظالمانہ اقدام یعنی سندھ کا ممبئی سے الحاق جو 1847ء کو کیا گیا اس کے سنگین نتائج بھگت چکا تھا اور اس سے نجات خاطر 1936ء تک برسرپیکار رہا تھا وہ اب اس نئے جال میں پھنسنے کے لیے تیار کیسے ہوتا۔ سو اس میں سندھ کی پھانس سے نجات کی خاطر اس وقت کے گورنر جنرل غلام محمد نے سندھ کے سابق وزیراعلیٰ محمد ایوب کھوڑو جن کو 1951ء میں بدعنوانیوں کے الزامات پر پروڈا ایکٹ کے تحت سیاست میں حصہ لینے کے لیے نااہل قرار دیا گیا کہ خدمات حاصل کیں اور پیش کش کی کہ وہ یہ بل سندھ اسمبلی سے پاس کرادیں تو نااہلی کا داغ بھی صاف ہو کر پاک پوتر ہوجائیں گے اور جب تک پورا مغربی پاکستان ون یونٹ میں ڈھل کر روپ دھارے گا آپ سندھ کے وزیراعلیٰ بھی بن جائیں گے۔ یہ چپڑی اور دو دو کا معاملہ تھا یہ لالچ اور دھلائی کا فارمولا کامیاب ٹھیرا۔ ایوب کھوڑو نے دست راست پیر علی محمد راشدی کی خدمات کا سہارا لیا۔ سندھ اسمبلی کا اجلاس کراچی کے اسمبلی ہال کے بجائے حیدر آباد کے دربار ہال میں بلایا اور 11 دسمبر 1954ء کو سندھ اسمبلی سے ون یونٹ منظور ہے، منظور ہے کی قرار داد بلند آہنگ منظور ہوگئی۔ اس خدمت کے صلے میں ایوب کھوڑو 4 اکتوبر 1955ء تک وزیراعلیٰ سندھ بنے رہے اور پھر ون یونٹ کا ڈھانچہ مکمل ہوا تو کھوڑو کے اقتدار کا ڈھانچہ زمین بوس ہوا۔

گورنر جنرل غلام محمد کا طریقہ واردات اب تک پاکستان میں چلا آرہا ہے۔ کل کے کالے قرار دیے اب کے اُجلے بنا کر من پسند فیصلوں پر انگوٹھا لگوانے کے لیے مسند اقتدار پر بٹھائے جانے کا کھیل زور و شور سے جاری ہے۔ اپنی قے کو پھر چاٹنے کا مکروہ فعل اب کراہت والا نہ رہا کیوں؟ دراصل سیاست اب عبادت نہیں رہی، یہ سائنس اور کاروبار بن گئی ہے، مکروہ سیاست دان بھی دانہ ڈالتے، فصل جمہوریت اُگاتے ہیں اور اقتدار کی خاطر ہر اقدار کو تج دے دیتے ہیں، ان کے پاس مقتدروں کے لیے ’’نہ‘‘ کا لفظ نہیں ہوتا جو حکم سرکار کا سر آنکھوں پر، تو پھر بات ہو رہی ون یونٹ کی جو لگے باندھے کا تھا دل پھٹے ہوئے تھے اور اس منصوبے کی چیردستیوں نے اُس ہی قسم کی تحریک کو جنم دیا جو سندھ کی ممبئی سے علٰیحدگی کی تھی، نفرتوں کا اُمڈتا طوفان پاکستان کی سالمیت کو خطرے سے دوچار کرنے لگا تو یحییٰ خان کے دور حکومت میں پاکستان یہ ون یونٹ دو میں سے ایک کے خاتمے کی صورت حال پر غور کرکے بالآخر ون یونٹ کا خاتمہ کا فیصلہ کیا گیا اور یوں مغربی پاکستان تو بچالیا مگر مشرقی پاکستان نہ بچایا جاسکا۔

شیخ مجیب الرحمن نے ون یونٹ کی چیرہ دستیوں کو ہتھیار کے طور پر استعمال کیا۔ بھارت عسکری قوت کے ساتھ اُس کی مدد کو آیا اور دسمبر 71ء کو ہمارا بڑا بھائی الگ ہو کر بنگلادیش کا روپ دھار گیا۔ بڑے بھائی کو برابر بنایا مگر سمجھا نہیں گیا۔ دیگر صوبوں کو بھی یہ شکایت رہی کہ ہمارے مغربی پاکستان کے بڑے بھائی پنجاب نے برابری تو کجا چھوٹے کی شفقت سے محروم رکھا۔ ون یونٹ بھینٹ لے گیا، مشرقی پاکستان کی اور نفرت بڑھا گیا بقیہ پاکستان میں ون یونٹ کے خاتمے کے ساتھ ہی صوبوں نے اس آزادی کو نامکمل جانا اور سیاست چمکائی جانے لگی کہ خود مختاری صوبوں کی ہو وفاق باپ بن کر ملک کے چاروں صوبے اولاد کی طرح اس کا حق پدر، موجودہ معاشرے کے لحاظ سے ادا کریں گے۔ اب جوائنٹ فیملی سسٹم کا رواج گھرانوں میں کمتر ہے تو صوبوں اور ملک کا جوائنٹ سسٹم بھی رسماً ہی ہونا چاہیے سو آصف علی زرداری نے اپنے دور صدارت میں ماہرین کی کئی ماہ کی کاوشوں سے اٹھارویں ترامیم کا مسودہ تیار کرایا اور دنوں میں اس کو پاس کراکر آئین کا حصہ بنا ڈالا۔ اس ترمیم میں صوبوں کو کہتے ہیں کہ اتنے اختیارات مل گئے جو اُن کے وہم و گمان میں بھی نہ تھے اور وفاق کی حیثیت چوکیدار کی سی ہوگئی۔ اب صوبے دھمکاتے ہیں وفاق انہیں مناتا ہے اور مادر پدر آزادی صوبوں پر کڑھتا ہے اور اپنی بزرگی جتاتا ہے۔ ’’ون یونٹ‘‘ کے بعد یہ اٹھارویں ترمیم وفاق کے گلے کی ہڈی بنی ہوئی ہے اور اس سے گلو خلاصی قومی، صوبائی اسمبلیوں سے لے کر صدر تک کے ہاتھ ہے وہ ہی معالج ہیں اب جس عطار سے بیمار ہوئے اس ہی سے دوا درکار ہے۔ صوبے کے بگڑے اور نافرمان ذہن اغیار کے سرمایہ پر کہہ رہے ہیں اگر پاکستان باپ بن کر ہمارے دیے ہر صبر شکر اور قناعت سے کام نہیں لیتا تو ہمیں گود لینے کے لیے پڑوسی موجود ہیں۔ پالیسی سازوں کی اس سازندے میں حالت یہ ہے کہ وہ ڈور کو سلجھا رہے ہیں مگر اُن کو سرا ملتا نہیں۔ سندھی زبان کا ایک جملہ ’’حاضر سائیں‘‘ سن سن کر اُن کے کان پک گئے ہیں، حاضر سائیں بھی ’’پاکستان کھپے‘‘ کی طرح ذو معنے جملہ ہے۔ یہ نہ ہاں میں ہے نہ نا میں ہے۔ ون یونٹ سے 18 ویں ترامیم تک کے تجربوں نے پاکستان کو ہر لحاظ سے دیوالیہ کردیا ہے اور اس کو وینٹی لیٹر تک پہنچادیا۔ اس کا نسخہ کیا وہی ہے جو پاکستان کے حصول کے وقت لگایا گیا۔ پاکستان کا مطلب کیا ’’لاالہ الااللہ‘‘ کا عملاً نفاذ ملک میں کیے جانے والے تجربات اونٹ کے کل کی طرح ثابت ہوئے اور یوں الٹی ہوگئیں سب تدبیریں کچھ نہ دوا نے کام کیا۔