جنگ بندی: اسرائیل یا حماس کی ضرورت!

460

اللہ کو ہے پامردی مومن پہ بھروسا
ابلیس کو ہے یورپ کی مشینوں کا سہارا

7اکتوبر کے حماس کے اسرائیل پر حملوں نے ایک بار پھر ثابت کردیا ہے کہ اگرکوئی گروہ تعداد میں قلیل ہی کیوں نہ ہو وہ کثیر تعداد پر غالب آکر رہے گا شرط ایمان کی ہے۔ اسی کی وجہ سے اس گروہ کو ثابت قدمی بھی نصیب ہوگی اور ان کے دلوں سے موت کا خوف بھی نکل جائے گا اور صرف یہی نہیں بلکہ دشمن کے دلوں میں ان کا خوف بھی اللہ پیدا کردے گا اور وہ موت کا خوف ان کے دلوں میں ہر روز بڑھتا چلا جائے گا حتیٰ کہ وہ تعداد میں کثیر ہونے کے ساتھ وسائل اور ہتھیار سے لیس ہونے کے باوجود شکست کھا جائے گا۔

نیتن یاہو حماس کے خاتمے تک جنگ کو جاری رکھنے پر بضد تھا اس لیے کہ اسے اپنے حواریوں امریکا، برطا نیہ اور یورپ یہ یقین دلا رہے تھے کہ حماس ایک چھوٹی سی تنظیم ہے اس کو چند دنوں میں ختم کیا جاسکتا ہے۔ اس کے علاوہ ساری دنیا کے دانشور بھی یہی کہ رہے تھے کہ حماس اسرائیل کا کوئی موازنہ ہی نہیں یہ چند دنوں میں ڈھیر ہوجائیں گے۔ لیکن گزشتہ دنوں یہ خبر سننے کو ملی کہ صدر امریکا جو بائیڈن نے یہ کہا ہے کہ رمضان میں اسرائیل غزہ پر حملے عارضی طور پر بند کردے گا۔ یر غمالیوں کی رہائی پر بھی پیش رفت ہوگی۔ جنگ بندی کی قرار داد کو تو سلامتی کونسل میں امریکا تین بار ویٹو کرچکا ہے لیکن یہ اچانک اہل غزہ پر جوبائیڈ ن کو کیسے رحم آگیا کہ وہ مسلمانوں کے مقدس مہینے میں اہل غزہ کے لیے مسیحا بن گئے۔ اب تک تو فلسطینیوں کی نسل کشی کے لیے وہ ہتھیار سے بھی اسرائیل کی مدد کر رہے تھے اور ساری دنیا کی مخالفت کے باوجود بھی وہ اسرائیل کی کو شاباش دے رہے تھے۔

واقعہ یہ ہے کہ سات اکتوبر کے واقعے نے اسرائیل کو اس مقام پر لاکر کھڑا کردیا ہے کہ ساری دنیا کے سامنے اس کا مکروہ چہرہ سامنے آگیا ہے اور ساری دنیا یہ سمجھ گئی ہے کہ اسرائیل صرف فلسطین کے لیے ہی نہیں بلکہ ساری دنیا کے امن کے لیے خطرہ ہے اس لیے ساری دنیا اور خود امریکا، یورپ کے انصاف پسند لوگ سراپا احتجاج ہیں اور وہ اسرائیل کے اس جارحیت کی مذمت کررہے ہیں جس کی وجہ سے اب امریکا یہ سوچنے پر مجبور ہوگیا ہے کہ اس طرح مسلسل جنگ جاری رہی تو وہ اور اس کا بغل بچّہ اسرائیل عالمی برادری کی حمایت کھودیں گے اس لحاظ سے اب جنگ بندی اسرائیل اور امریکا کی ضرورت بن گئی ہے۔ تاکہ وہ عالمی مذمّت کی شدّت کو کم کرسکے۔ اس طرح سے امریکا خود بھی اور اپنے لاڈلے اسرائیل کو بھی دنیا تنہا ہونے سے بچانا چاہتا ہے۔ مگر اس طرح دنیا کو دھوکہ دینا ممکن نہیں ہے۔

اسرائیل نے دنیا کے تمام ہی جنگی قوانین اور اصولوں کو پیروں تلے اسی طرح روند ڈالا ہے جیسے امریکا اب تک روندتا چلا آیا ہے ان کے تمام جنگی اصول دوسروں کے لیے ہوتے ہیں اور جب اپنی باری آتی ہے تو وہ تمام جنگی اصول و قوانین بالائے طاق رکھ دیتا ہے جس کی حالیہ مثالیں افغانستان اور عراق میں امریکی جارحیت اور دہشت گردی تھی جس میں بڑی تعداد میں شہری آبادیوں کو نشانہ بنایا گیا جس کے نتیجے میں بچّوں اور خواتین کی بڑی تعداد شہید ہوئی۔ آج بھی اسرائیل بالکل اسی طرح جنگی جنون میں مبتلا ہے وہ زیادہ تر مساجد، گرجا گھروں، اسپتالوں، مدارس، اسکولوں، پناہ گزین کیمپوں، امداد وصول کرنے والے نہتّے بھوکے پیاسے شہریوں ہی نہیں بلکہ اس سے ایک قدم آگے اپنے اور دوسرے ممالک کے شہریوں کو جو یرغمال تھے اور ان کی طرف سفید جھنڈے اٹھائے آرہے تھے ان کو بھی بری طرح فائرنگ کرکے ہلاک کر رہا ہے۔ ایسے میں بوڑھے شیطان یعنی برطانیہ کے وزیر اعظم رشی سونک جو کہ نسلاً ہندو توا کے پجاری ہیں مسلم دشمنی میں پیش پیش ہیں انہوں نے بھی بیان داغا ہے اور حماس کے حمایت کرنے والے مظاہرین کو دہشت گردوں کی حمایت قرار دی ہے اور برطانیہ میں ایسے مظاہرے جو کہ اہل غزہ کی حمایت میں ہورہے ہیں ان پر پابندی لگانے کی باتین کررہے ہیں۔ ان کی نسبت مودی سے ہے اور اہل کشمیر کی نسبت فلسطین سے ہے۔ اسرائیل کشمیر میں ہندوستان کے غاصبانہ قبضے کی حمایت کرتا ہے اور ہر ممکن تعاون ہندوستان کو مہّیا کرتا ہے۔ اسرائیل کو اس جنگ میں جانی نقصان کے ساتھ مالی نقصان بھی اٹھانا پڑرہا ہے۔

اب تک لڑی جانے والی جنگوں میں یہ جنگ سب سے مہنگی جنگ ہے جس کا خرچ اربوں ڈالر میں ہے جس سے اسرائیل کی معیشت ہچکولے کھارہی ہے۔ اس عارضی جنگ بندی کا ایک دوسرا مقصد امریکا اسرائیل کو ایک وقفہ دینا چاہتا ہے کہ اسرائیل کے فوجیوں کو سانس لینے کا موقع دینا ہے تاکہ وہ تازہ دم ہوسکیں۔ حماس نے جس ایمانی جذبے سے اس جنگ کو جاری رکھا ہے انہوں نے دشمن کو سانس لینے کا موقع نہیں دیا ہے۔ دشمن یہ اچھی طرح جانتا ہے کہ رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل ہوا ہے اور یہ مہینہ خاص طور پر جہاد کا مہینہ ہے۔ یہی وہ مہینہ ہے جس میں مسلمانوں کی قلیل تعداد نے مشرکین مکّہ کی کثرت تعداد اور کیل کانٹوں سے لیس لشکر کو بدترین شکست فاش دی تھی یہ تو فتح مکّہ کا مہینہ ہے جس کے بعد سرزمین عرب پر اسلام غالب ہوگیا تھا۔ رمضان المبارک میں مسلمانوں کی بڑی تعداد دل کھول کر زکواۃ اور عطیات اپنے مالوں سے ادا کرتے ہیں اس وقت ان اموال کے سب سے زیادہ مستحق اہل غزہ ہیں اس لیے تمام مسلمانوں کو چاہیے کہ پہلے سے بڑھ کر اپنے غزہ کے بھائیوں کے لیے دل کھول کر ایثار کریں تاکہ تمام امت مسلمہ اس جہاد میں شریک ہوسکے اگر کے ایف سی اور میکڈونلڈ اور دوسری کمپنیاں کھل کر اسرائیل کی مالی امداد کرنا اپنا فرض سمجھتی ہیں تو امت مسلمہ کیو ں ایسا نہیں کرسکتی۔ وہ کیا منظر ہوگا جب روز محشر مسلمان ہونے کے باوجود حکمران اسرائیل کے ساتھ ہوں گے اور اہل غزہ کے ہاتھوں میں ان مسلم حکمرانوں کا گریبان ہوگا۔ اس کی وجہ اس دنیا میں بھی صاف نظر آرہی ہے کہ ایٹمی ہتھیاروں سے لیس لاکھوں کی تعداد میں افواج رکھنے کے باوجود یہ اہل غزہ کی مدد سے معذور ہیں۔