کراچی میں جرنیلوں کی لسّانی سیاست

1010

پاکستان اسلام کے نام پر وجود میں آیا تھا۔ اسی لیے مولانا مودودی نے اسے مسجد قرار دیا تھا۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو پاکستان میں صرف اسلام کے نام پر سیاست کی گنجائش ہے لیکن بدقسمتی سے پاکستان میں جرنیلوں اور ان کے پیدا کردہ سیاست دانوں نے ملک میں لسانی، نسلی اور صوبائی بنیادوں پر سیاست کی ہے۔ پاکستان میں ان بنیادوں پر سیاست کا عمل ایسا ہی ہے جیسے کوئی مسجد میں کھڑے ہو کر پیشاب کردے۔
بنگالی مسلم لیگ بنانے والے تھے۔ پاکستان کے لیے جدوجہد کرنے والے تھے مگر جرنیلوں نے مشرقی پاکستان میں نسلی اور لسانی سیاست کے بیج بوئے۔ جرنیلوں نے بنگالیوں کو فوج میں داخل ہونے سے روکا۔ اس کے لیے انہوں نے مارشل ریس کا نظریہ گھڑا۔ مارشل ریس تین لوگ تھے۔ پنجابی، پٹھان اور مہاجر۔ چناں چہ فوج پر انہی قومیتوں کا غلبہ تھا۔ بنگالی پاکستان کی آبادی کا 56 فی صد تھے مگر 1960ء تک فوج میں ایک بھی بنگالی نہیں تھا۔ 1971ء میں جب پاکستان ٹوٹا تو فوج میں بنگالیوں کی موجودگی 8 سے 10 فی صد تھی، حالانکہ وہ آبادی کا 56 فی صد تھے۔ یہی صورتِ حال بیوروکریسی میں تھی۔ بنگالی آبادی کا 56 فی صد تھے مگر ان سے کہا گیا کہ وہ مساوات یا Parity کا اصول تعلیم کرکے خود کو صرف 50 فی صد تسلیم کریں۔ بنگالیوں کو پاکستان سے محبت تھی چنانچہ انہوں نے خود کو 50 فی صد تسلیم کرلیا۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو ہمارے جرنیلوں اور ان کے پیدا کردہ سیاستدانوں نے بنگالیوں کو مار مار کر بنگالی بنایا۔ ورنہ وہ صرف مسلمان اور پاکستانی تھے۔ 1970ء میں انتخابات ہوئے تو شیخ مجیب الرحمن کی عوامی لیگ نے 107 اور بھٹو کی پیپلز پارٹی نے 60 نشستیں حاصل کیں۔ اس اعتبار سے اقتدار شیخ مجیب کا حق تھا لیکن پاکستان کے جرنیلوں نے بنگالیوں کا حق اقتدار تسلیم کرنے کے بجائے اُلٹا اُن پر فوجی آپریشن مسلط کردیا۔ چنانچہ بنگالی بپھر گئے اور قابو سے باہر ہوگئے۔ لیکن وہ اب بھی پاکستان سے الگ ہونا نہیں چاہتے تھے۔ سقوط ڈھاکا ہوا تو شیخ مجیب الرحمن جیل میں تھے۔ انہیں سقوط ڈھاکا کی خبر ہوئی تو ان کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ انہوں نے کہا کہ مجھے رہا کرو اور ریڈیو سے تقریر کا موقع دو۔ میں سب کچھ ٹھیک کردوں گا۔ مگر جن جرنیلوں نے اتنی محنت سے ملک توڑا تھا وہ اس بات پر کب آمادہ ہوسکتے تھے۔ چنانچہ جرنیلوں کی نسلی اور لسانی عصبیت نے پاکستان کو دو ٹکڑے کردیا۔
بدقسمتی سے مشرقی پاکستان کی علٰیحدگی کے بعد نسلی اور لسانی عصبیت کا کھیل کراچی میں بھی کھیلا گیا۔ کراچی باشعور لوگوں کا شہر تھا۔ چنانچہ اس شہر کے لوگوں نے جنرل ایوب اور مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کے درمیان ہونے والے صدارتی معرکے میں کھل کر مادرِ ملت کا ساتھ دیا۔ چنانچہ کراچی جنرل ایوب کی آنکھوں میں کھٹکنے لگا۔ اور جنرل ایوب کے دور میں کراچی میں پہلی بار مہاجر پٹھان فساد ہوا۔ جس میں متعدد لوگ مارے گئے۔ لیکن جنرل ضیا الحق کے دور میں تو حد ہی ہوگئی۔ الطاف حسین اور آل پاکستان مہاجر اسٹوڈنٹ آرگنائزیشن پہلے سے موجود تھے مگر کراچی کی سیاست میں ان کا کوئی وزن نہیں تھا۔ جنرل ضیا الحق کہنے کو مذہبی آدمی تھے، چنانچہ انہیں کراچی میں لسانی کارڈ کھیلنے سے گریز کرنا چاہیے تھا مگر وہ کراچی میں جماعت اسلامی اور دیہی سندھ میں پیپلز پارٹی کو دیوار سے لگانا چاہتے تھے۔ چنانچہ انہوں نے الطاف حسین اور ایم کیو ایم کی سرپرستی شروع کی اور ایم کیو ایم دیکھتے ہی دیکھتے ایک طوفان بن گئی۔ اس طوفان نے کراچی میں مہاجر پٹھان فسادات کرائے۔ مہاجر سندھی کشمکش پیدا کی۔ یہاں تک کہ ایم کیو ایم نے دوسری جماعتوں کے مہاجروں کے قتل عام کی راہ ہموار کی۔ 1985ء میں ہم نے جامعہ کراچی میں داخلہ لیا تھا۔ اس زمانے میں ایم کیو ایم کے طلبہ ونگ اے پی ایم ایس او نے اس تواتر سے جمعیت کے کارکنوں کو شہید کیا کہ ہمیں لگتا تھا کہ ہم جمعیت کے کارکنوں کے جنازے پڑھنے اور انہیں دفنانے کے لیے پیدا ہوئے ہیں۔ ایم کیو ایم نے صرف جمعیت کے نوجوانوں کو شہید نہیں کیا۔ ایم کیو ایم نے جماعت اسلامی کے رہنمائوں کو بھی تواتر سے شہید کیا۔ جرنیلوں کی لسانی سیاست نے 30 سال میں کراچی میں 92 ہزار افراد کو ہلاک کردیا۔ اس سیاست نے کراچی میں بھتا خوری کا کلچر پیدا کیا۔ بوری بند لاشوں کا کھیل تخلیق کیا۔ پرتشدد ہڑتالوں کی راہ ہموار کی۔ جنرل پرویز نے کھل کر الطاف حسین کی سرپرستی کی۔ الطاف حسین نے اپنے دورہ بھارت میں صاف کہا کہ اگر وہ 1947ء میں ہوتے تو کبھی پاکستان کے حق میں ووٹ نہ دیتے۔ اس کے باوجود جنرل پرویز نے دہلی میں پاکستان کے سفارت خانے کو حکم دیا کہ وہ الطاف حسین کو عشائیے پر مدعو کرے اور پاکستانی سفارت خانے نے ایسا ہی کیا۔ ایم کیو ایم 30 سال تک کراچی کی سیاست پر چھائی رہی۔ اس کی مقبولیت کا یہ عالم تھا کہ الطاف حسین کہا کرتے تھے کہ ہم کارنر میٹنگ کرتے ہیں اور وہ جلسہ بن جاتا ہے اور ہمارے حریف جلسہ کرتے ہیں اور وہ کارنر میٹنگ میں ڈھل جاتا ہے۔ الطاف حسین غلط نہیں کہتے تھے۔ ایم کیو ایم واقعتاً کراچی میں مقبول تھی اور جماعت اسلامی نے ایم کیو ایم کی اس مقبولیت کو دل سے تسلیم کیا۔ 30 سال کی طویل رات کے بعد کراچی میں ایم کیو ایم کا زوال شروع ہوا۔ اس سلسلے میں عمران خان اور تحریک انصاف کی عوامی مقبولیت نے فیصلہ کن کردار ادا کیا اور اب کراچی میں ایم کیو ایم کی عوامی مقبولیت کا یہ حال ہے کہ اب شہر میں نہ اس کو کوئی ووٹ دینے والا ہے اور نہ کوئی نوٹ دینے والا ہے۔ حافظ نعیم الرحمن کی متحرک قیادت نے کراچی میں جماعت اسلامی کو ایک بار پھر بڑی سیاسی قوت بنادیا ہے۔
اسی پس منطر میں 2024ء کے انتخابات کا اعلان ہوا تو کراچی کے ہر باشعور شہری کو معلوم تھا کہ کراچی میں صرف تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کے نمائندے ہی فتح یاب ہوں گے۔ گزشتہ ایک ماہ میں رائے عامہ کے جو جائزے مرتب ہوئے وہ بھی یہی بتارہے تھے کہ کراچی صرف تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کو ووٹ دے گا۔ البتہ ایک دو سیٹیں پیپلز پارٹی کو بھی مل سکتی ہیں۔ رائے عامہ کے ان جائزوں میں ایم کیو ایم کہیں چوتھے نمبر پر تھی اور کہیں پانچویں نمبر پر تھی۔ لیکن بدقسمتی سے اسٹیبلشمنٹ نے پورا کراچی تحریک انصاف اور جماعت اسلامی سے چھین کر ایم کیو ایم کے حوالے کردیا ہے۔ ایم کیو ایم کو قومی اسمبلی کی 15 اور صوبائی اسمبلی کی 22 نشستیں ’’عطا‘‘ کردی گئی ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ یہ صورتِ حال جنرل عاصم منیر کے عہد میں رونما ہوئی ہے۔ جنرل عاصم منیر خیر سے ’’حافظ‘‘ بھی ہیں اور ’’سیّد‘‘ بھی۔ لیکن اس کے باوجود ان کے عہد میں اسلام اور پاکستان ہی نہیں پنجابیوں، پٹھانوں، سندھیوں اور خود مہاجروں سے نفرت کرنے والی ایم کیو ایم کو کراچی پر مسلط کردیا گیا ہے۔ جنرل عاصم منیر بات کرتے ہیں تو قرآن کا حوالہ دیتے ہیں۔ چنانچہ ہم پوچھنا چاہتے ہیں کہ قرآن کی کون سی آیت ایک لسانی جماعت کو خلق پر مسلط کرنے کا حکم دیتی ہے۔ رسول اکرمؐ کا کون سا ارشاد یہ بتاتا ہے کہ فوج کو انتخابات میں دھاندلی بلکہ عوامی مینڈیٹ پر ڈاکا ڈالنے کا حق ہے۔ ایم کیو ایم اگر مقبول عوام جماعت ہوتی اور وہ اپنی مقبولیت کی بنیاد پر پورے شہر کو فتح کرلیتی تو کسی بھی شخص کو کوئی اعتراض نہ ہوتا، مگر اس وقت تو ایم کیو ایم کراچی میں سب سے نامقبول جماعت ہے۔ رائے عامہ کے جائزوں کے مطابق کراچی میں پہلے نمبر پر پی ٹی آئی ہے۔ دوسرے نمبر پر جماعت اسلامی ہے۔ تیسرے نمبر پر ٹی ایل پی ہے۔ چوتھے نمبر پر پیپلز پارٹی ہے۔ پانچویں نمبر پر ایم کیو ایم ہے۔ مگر اسٹیبلشمنٹ نے پانچویں نمبر کی جماعت کو پہلے نمبر کی جماعت بنا کر کھڑا کردیا ہے۔ چلیے اسلام تو بڑی ہے جنرل عاصم منیر قوم کو بتائیں کہ اقبال قائداعظم کی فکر میں کہیں اس بات کا اشارہ موجود ہے کہ ملک و قوم پر دھاندلی بلکہ ڈاکے کے ذریعے لسانی جماعت کو مسلط کرایا جائے۔ اقبال نے صاف کہا ہے۔
بتانِ رنگ و خوں کو توڑ کر ملت میں گم ہوجا
نہ تو رانی رہے باقی نہ ایرانی نہ افغانی
قائداعظم جب تک زندہ رہے ایک خدا، ایک رسول اور ایک کتاب کی بالادستی کی بات کرتے رہے مگر سید حافظ جنرل عاصم منیر کے دور میں کراچی پر ایم کیو ایم کو مسلط کردیا گیا ہے۔ اس سے ثابت ہے کہ 2024ء کے انتخابات نہ تو آزادانہ تھے، نہ منصفانہ تھے، نہ شفاف تھے۔