پروپیگنڈا اور نتائج

522

(آخری قسط)

جب بھٹو، نواز شریف پروپیگنڈا اور تجربے بہت ہوگئے تو ایک نیا پروپیگنڈا ہوا تبدیلی کا… اور لوگ اس تبدیلی کے پروپیگنڈے میں آگئے۔ قوم کو یہ تاثر ملا کہ نجات دہندہ آگیا۔ اس نے بھی ریاست مدینہ کا نعرہ لگایا اور پروپیگنڈا سر چڑھ کر بولنے لگا تو انتخابات کرادیے گئے۔ اور پھر آر ٹی ایس، اور سرکاری مشینری نے تبدیلی واقع کردی، اس تبدیلی کا نشہ بھی جلد ہی اُترنے لگا اور لوگوں نے ریاست مدینہ کے نام پر ٹوائن جینڈر، سویلین پر فوج کی بالادستی، عدالتوں، نیب اور ایف آئی اے کا ناجائز استعمال دیکھا۔ قادیانیوں کو عروج ملتے دیکھا، فوج میں نقب لگانے کی کوشش کی گئی اور اب پی پی پی، ن لیگ اور پی ٹی آئی کو لگ پتا گیا کہ پروپیگنڈا ہوتا کہاں سے ہے۔ ہم تو صرف آلہ کار ہوتے ہیں، آج کل تازہ پروپیگنڈا، نہیں تازہ نہیں بلکہ پرانا پروپیگنڈا تازہ ہدف کے خلاف ہورہا ہے۔ عمران خان ملک دشمن ہے، غدار ہے، اس کو سیاست سے باہر کردیا جائے، اسے پھانسی لٹکادیا جائے، جو اس کا نام لے اس کو بھی پکڑ کر نااہل قرار دلوایا جائے، اس قدر زور دار پروپیگنڈا کیا کہ جس طرح بھٹو نے ایک نظریے کا روپ دھار لیا اور اس کے چاہنے والے بھٹو ازم، اور زندہ ہے بھٹو کے نعروں کے دیوانے ہوئے اب سرکاری پروپیگنڈے نے اپنی سیاسی موت آپ مرجانے والے تبدیلی کے نعرے کو ایک نظریہ بنادیا ہے۔ اب پروپیگنڈا کے ماہرین کا مقابلہ اپنے ہی آلہ کاروں سے ہے۔ وہ غدار اور ملک دشمن ثابت کرنا چاہتے ہیں اور یہ اسے ملک کی ضرورت اور نجات دہندہ بنا کر پیش کررہے ہیں جو غلطی بھٹو کے معاملے میں ہوئی وہی عمران خان کے معاملے میں ہورہی ہے۔ ان لوگوں کے نظریے اور دعوے ایک دور حکومت میں ہی پٹ چکے تھے لیکن ایجنسیوں اور اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت نے ان کو ہیرو بنا کر رکھ دیا اور بھٹو آج بھی زندہ ہے۔ اب شاید یہ عمران خان کو سیاست سے باہر کردیں لیکن ان کی اپنی حماقتوں سے تبدیلی کا نعرہ زندہ رہے گا اور جس طرح بھٹو کا ورثہ اب مفاد پرستوں کے ہاتھ میں ہے پی ٹی آئی کا ورثہ اگلے ہی دور میں ایسے لوگوں کے ہاتھ جاتا نظر آرہا ہے۔

اسٹیبلشمنٹ سب سے پہلا جو کام کرتی ہے وہ کسی سیاسی جماعت سے اس کا نام اور انتخابی نشان چھینتی ہے۔ یہ کام جماعت اسلامی کے ساتھ بھی کیا گیا، عدالتوں کے ذریعے پابندی لگائی گئی اور کام کرنے سے روک دیا گیا۔ یہ اور بات ہے کہ عدالت ہی کے ذریعے پابندی ہٹ گئی۔ پھر بھٹو کی پارٹی، بھٹو کے نام پر پابندی لگی تو پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹرینز وضع کی گئی، انتخابی نشان تلوار کی جگہ تیر بن گیا، لیکن چونکہ ٹریڈ مارک بھٹو تھا اس لیے وہ اب بھی زندہ ہے۔ اسی طرح مسلم لیگ کا معاملہ ہے اس نے اپنا ٹریڈ مارک شیر، سائیکل، ہاکی اور نشان کو نہیں بنایا اس نے شروع سے نواز شریف کو ٹریڈ مارک بنایا۔ چناں چہ اس پارٹی کو اس کے بغیر یعنی نواز شریف کے بغیر تسلیم ہی نہیں کیا جاتا اور آج کل وہ لائے جارہے ہیں بلکہ عملاً لائے جاچکے ہیں۔ آگے کی ساری کارروائی رسمی ہے۔ اب یہ پروپیگنڈا ہورہا ہے کہ نواز شریف ملک کی معیشت مستحکم کریں گے۔ جیسے پچھلے تین ادوار رہی تو جاپان کو پیچھے چھوڑ چکے تھے۔ ایک جملہ پی ٹی آئی کی طرف سے کہا جارہا ہے اور ایک اس پر۔ اور پروپیگنڈے کا ہتھیار پی ٹی آئی کے انتخابی نشان کو بنایا جارہا ہے۔ اور پی ٹی آئی اسی نشان کے نام پر مقبولیت حاصل کررہی ہے اور یہاں تک بات پہنچ گئی ہے کہ اس کے نشان بلے پر پابندی لگی تو انتخابات کو نہیں مانا جائے گا۔ اور دلچسپ بات یہ ہے کہ پروپیگنڈا اس طرح ہورہا ہے کہ جو لوگ اس پارٹی یا دوسری دو پارٹیوں سے کوئی تعلق نہیں رکھتے اس کا تذکرہ کرتے نظر آرہے ہیں۔ جس طرح کسی زمانے میں الطاف حسین اور مہاجر کا پروپیگنڈا تھا۔ مہاجر سے نکل کر متحدہ اور اب پانچ ٹکڑوں تک بات پہنچ گئی لیکن الطاف حسین کا جادو اب بھی موجود ہے۔ آج کل جو لوگ پی ٹی آئی کے خلاف الیکشن لڑتے ہیں وہ بھی بلے کے نشان پر بحثوں میں لگے ہوئے ہیں۔ اب پروپیگنڈے کی لڑائی میں بات یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ نشان کوئی بھی ہو ووٹ عمران خان کا… اب اسٹیبلشمنٹ پھر مشکل ہے۔ دراصل ان کی سوچ ہی ایسی ہے کہ پابندی لگادو، بند کردو، راستہ روک دو، یا راستے سے ہٹادو… کھلی سیاست وہ کرنے نہیں دیتے کیونکہ انہیں خوف ہے کہ صحیح نظریے والے، جرأت مند اور مضبوط کردار کے لوگ آگئے تو انہیں کس بنیاد پر بلیک میل کرکے پروپیگنڈا کیا جائے گا۔ اب اسٹیبلشمنٹ اپنے ہی کاشتہ ایک پودے کو ختم کرنے اور پرانے پودوں میں سے ایک کو مسلط کرنے کے مشن پر ہے لیکن اسے یاد رکھنا چاہیے کہ غیر فطری طریقے سے جو پودا بھی کاشت کیا جائے گا وہ بظاہر پھلتا پھولتا ہے لیکن اس میں پھول کم اور کانٹے زیادہ ہوتے ہیں اور ان کانٹوں سے ہاتھ پائوں چہرہ اس کے کاشتکار کا ہی کا زخمی ہوتا ہے۔