پروپیگنڈا اور نتائج

574

پروپیگنڈا ہر دور میں نہایت موثر ہتھیار رہا ہے اس کا مقابلہ صرف مضبوط اور سچے پیغام، کھرے عمل اور کردار اور جرأت سے کیا جاسکتا ہے بلکہ ان چیزوں کی مدد ہی سے پروپیگنڈا وار کو جیتا جاسکتا ہے۔ یہ بات بھی سب ہی جانتے ہیں کہ پروپیگنڈے کا ہتھیار عام طور پر بلکہ اکثر ان لوگوں کے ہاتھوں میں ہوتا ہے جن کا اپنا کردار، عمل اور پیغام کھرا نہ ہو، وہ کسی کھلے میدان میں مقابلے کی صلاحیت یا کم از کم جرأت نہ رکھتے ہوں اس لیے مخالف کو بدنام کرنے اپنی مظلومیت یا معصومیت کا پرچار کرنے کی اولین حکمت عملی اختیار کرتے ہیں۔ پاکستان میں بھی اوّل روز سے اسلام اور نظریہ پاکستان کی دشمن قوتوں نے پروپیگنڈے کا ہتھیار استعمال کیا ہے۔ قیام پاکستان کو غلط ثابت کرنے کے لیے طرح طرح کے مفکرین پیدا کیے گئے چھوٹے چھوٹے لوگوں کو بڑا بنا کر پیش کیا گیا۔ اس کی ابتدائی مثال تو یہ ہے کہ قائداعظم محمد علی جناح مرحوم نے بانی جماعت اسلامی مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی کو اسلامی ریاست کے خدوخال بیان کرنے کے لیے نو قائم شدہ ریاست پاکستان کے واحد پروپیگنڈا ہتھیار ریڈیو پاکستان پر تقاریر کا حکم دیا لیکن جوں جوں مولانا اسلامی ریاست کے خدوخال بیان کرتے جارہے تھے اسی تیزی سے پاکستان کے نظریے کے مخالفین کے چہرے زرد ہوتے جارہے تھے چنانچہ یہ پروپیگنڈا کیا گیا کہ مودوی صاحب اسلامی ریاست کی جو خصوصیات بیان کررہے ہیں ان کے مطابق تو وہ خود امیرالمومنین بننا چاہتے ہیں۔ اسے جماعت اسلامی اور مولانا کے لیے منفی پروپیگنڈا تو کہا جاسکتا ہے لیکن اس کا مثبت پہلو یہ تھا کہ مخالفین یہ اعتراف کررہے تھے کہ اگر اسلامی ریاست میں کوئی امیرالمومنین ہوسکتا ہے تو وہ جماعت اسلامی کے امیر سیدابوالاعلیٰ مودودی ہی ہیں۔ بہرحال اس پروپیگنڈے کے ساتھ ہی قائداعظم کے انتقال کے بعد اگلے ہی مہینے سے مولانا مودودی کی تقاریر کا سلسلہ بند کردیا گیا۔ ایک طرف اسلامی ریاست کا پروپیگنڈا تھا جو سرکاری بھونپو یعنی ریڈیو پاکستان سے چل رہا تھا۔ پیغام بھی مضبوط، پیش کرنے والا بھی کردار و عمل میں مضبوط اگر یہ سلسلہ جاری رہتا تو کوئی بعید نہیں کہ ۱۹۵۶ کا پہلا دستور مکمل اسلامی ہوتا اور ملک میں شریعت کے نفاذ کا کام شروع ہوجاتا لیکن منفی پروپیگنڈا اندر اندر کام کرتا رہا اور قائداعظم کی آنکھ بند ہوتے ہی اسلامی ریاست کے قیام کی راہیںبھی بندکردی گئیں۔

مولانا مودودی کی تقاریر پر پابندی ہی ان لوگوں کی منزل نہیں تھی بلکہ جماعت اسلامی کے خلاف بھی مہم چلائی گئی کہ یہ ایک چھوٹا سا ٹولہ ہے اپنا اسلام لارہا ہے۔ انبیاؑ اور صحابہؓ کا گستاخ ہے۔ یہاں تک کہ نبوت کا دعویٰ کرنے والا ہے، پھر جب جماعت اسلامی سیاست میں آئی تو پروپیگنڈا کیا گیا کہ یہ تو امریکی ایجنٹ ہیں۔ ان کو ڈالر ملتے ہیں ان کو واشنگٹن سے ہدایات ملتی ہیں ان کے لوگ اسی لیے وہاں گئے ہیں۔ ۱۹۶۰ اور ۷۰ کے عشروں میں پروپیگنڈا بھی خوب ہوا لیکن قدرت کی ستم ظریفی یہ ہے کہ جتنے لوگ، سیاسی رہنما، دانشور بائیں بازو والے، المعروف سرخے، جماعت اسلامی پر امریکی ہونے کا پروپیگنڈا کرتے تھے وہ خود ہی امریکی کیمپ میں جا بیٹھے۔ اور ۱۹۸۰ سے آج تک یہ لوگ امریکا کے گن گاتے ہیں اس کے ہمدرد ہیں وہیں سے ہدایات لیتے ہیں اور جماعت اسلامی پر سے تمام الزامات داغ دھبے دور ہوگئے کیونکہ اس کا پیغام سچا، کارکنوں اور قیادتوں کا کردار کھرا تھا اور جرأت و استقامت تھی۔

یہ تو صرف پاکستان اور جماعت اسلامی کا معاملہ تھا۔ اب ذرا دیگر سیاسی جماعتوں اور قائدین کا معاملہ دیکھتے ہیں۔ پہلا وار محترمہ فاطمہ جناح پر کیا گیا اور پاکستان کے پہلے فوجی حکمران جنرل ایوب خان کے لیے فضا ہموار کی گئی۔ پروپیگنڈا جس مقصد کے لیے ہوا وہ تو حاصل ہوگیا لیکن آج کوئی بھی فاطمہ جناح اور ایوب کا موازنہ کرے عزت و وقار محترمہ فاطمہ جناح کے حصے میں آیا۔ پھر بھٹو صاحب لائے گئے انہوں نے وہی ہتھیار اپنے ڈیڈی جنرل ایوب خان کے خلاف استعمال کیا اور پروپیگنڈے سے اپنے لیے راستہ صاف کیا ان کو بھی عارضی مطلب و مقصد حاصل تو ہوگیا لیکن تاریخ میں وہ بھی اچھے نام سے یاد نہیں کیے جاتے، جو الزام ایوب خان پر لگایا کہ ڈکٹیٹر ہے خود ہی ڈکٹیٹر بن بیٹھے، پارٹی میں بھی ڈکٹیٹر اور اقتدار میں بھی۔ آگے چلیں جنرل ضیا الحق آئے تو بھٹو ملک دشمن، غدار، ملک کو تباہ کرنے والا قرار پایا اور جنرل ضیا الحق نجات دہندہ۔ جنرل ضیا الحق نے گیارہ برس حکمرانی کی اور سرکاری اور خرید کردہ لوگوں کی مدد سے بھٹو کے خلاف مہم چلائی اور اتنی زیادہ چلائی کہ

وہی بھٹو ایک نظریہ قرار پاگیا۔ جنرل ضیا الحق طیارے کے حادثے میں جاں بحق ہوگئے اور بظاہر ملک میں جمہوریت آگئی بھٹو کی بیٹی اور ان کی پارٹی نے جنرل ضیا کے خلاف جو پروپیگنڈا کیا اس کا پھل انہیں ملا اور وہ اقتدار میں آگئیں۔ لیکن صرف دو سال میں نکالی گئیں کیونکہ جنرل ضیا کی تخلیق کردہ مسلم لیگ نے پروپیگنڈا کیا کہ بے نظیر ملک دشمن اور بھارت کی دوست ہے۔ نواز شریف لائے گئے اور انہیں بھی زیادہ مدت نہیں ملی انہوں نے بے نظیر سے بڑھ کر بھارت دوستی کا مظاہرہ کیا۔ بھارتی وزیراعظم واجپائی کا لاہور میں سرخ قالینوں سے استقبال کیا اور احتجاج کرنے والی جماعت اسلامی کے کارکنوں کے خون سے لاہور کی سڑکوں کو سرخ کر ڈالا۔ نواز شریف پھر نکالے گئے، بے نظیر پھر لائی گئیں اور نواز شریف پھر ان کو نکال کر لائے گئے۔ یہ سب باریاں منفی پروپیگنڈے کی مدد سے لگائی گئیں۔ بالآخر جنرل پرویز مشرف آگئے۔ جنرل پرویز کے دور میں کہا جاتا تھا کہ یہ ملک کا نجات دہندہ ہے جب تک ان کے کارناموں کا پنڈورا بکس نہیں کھلا تھا۔ یہ سوال اٹھایا جاتا تھا کہ جنرل پرویز نہیں تو ملک کون بچا سکتا ہے۔ اس پر ہمیں یہ سوال یاد آیا کہ جنرل ایوب ملک کے نجات دہندہ ہیں وہ نہیں تو ملک نہیں۔ لیکن جلد ہی یہ پروپیگنڈا آگیا کہ جنرل ضیا نہیں تو ملک نہیں۔ یہی پروپیگنڈا بے نظیر اور نواز شریف نے بھی کیا وہ نہیں تو ملک نہیں۔ لیکن قائداعظم، لیاقت علی خان، ایوب، بھٹو، ضیا الحق، بے نظیر، نواز شریف اور جنرل پرویز سب چلے گئے ملک چلتا گیا۔ ہاں ملک کا بیڑا غرق کرنے میں قائداعظم اور لیاقت علی خان کے سوا سب نے اپنا بھرپور حصہ ڈالا۔

(جاری ہے)