گورنر اور ان کا منصب

864

گورنر سندھ کامران ٹیسوری جس دن سے اپنے منصب پر فائز ہوئے ہیں وہ عوامی گورنر بننے کی تگ دور میں مصروف عمل رہتے ہیں۔ ایم کیو ایم کے کوٹے پر سندھ کی گورنر شب کے عہدے پر فائز کامران ٹیسوری نے رمضان المبارک کے پورے مہینے گورنر ہائوس میں عوامی افطار کی تقریبات کا انعقاد کیا اور گورنر ہائوس کے دروزے ہر خاص وعام کے لیے کھول دیے جس سے انہیں کافی عوامی پزیرائی بھی ملی اور کراچی کے ہزاروں شہریوں نے گورنر ہائوس میں افطار کی اور گورنر صاحب کے اس اقدام کا خیر مقدم بھی کیا۔ اس کے علاوہ گورنر ہائوس کے باہر کچھ عرصہ قبل سائلین کی شکایات اور مسائل کے حل کے لیے گھنٹی نصب کی گئی جس نے سترہ ویں صدی کے مغل بادشاہ جہانگیر کے دور کی یاد کو تازہ کیا گیا اور عوام رات بارہ بجے سے صبح آٹھ بجے تک اپنی شکایات گھنٹی بجا کر گورنر ہائوس کے افسران کے سامنے درج کرواتے ہیں یہ الگ بات ہے کہ اب تک کوئی ریکارڈ سامنے نہیں آسکا کہ کتنے سائلین کے مسائل حل کیے گئے اور عوام کو حقیقی طور پر گھنٹی لگائے جانے کا کوئی فائدہ بھی ہوا یا پھر یہ کام فوٹو سیشن اور شعبدہ بازی تک ہی محدود رہا۔
گورنر وفاق نمائندہ اور نامزد کردہ فرد اور صوبے کا سربراہ ہوتا ہے۔ اس کی ذمے داری ہوتی ہے کہ وہ صوبے کی سلامتی کے لیے کام کرے اور صوبے کے روابط وفاق اور دیگر صوبوں سے مضبوط کرے۔ عموماً گورنر کا عہدہ رسمی ہوتا ہے اور اس کے پاس زیادہ اختیارات نہیں ہوتے لیکن اگر کبھی صوبے میں ایمرجنسی کی صورت میں گورنر راج کی نوبت آجائے تو تمام تر اختیارات گورنر کے پاس آجاتے ہیں زیادہ تر گورنر راج مارشل لا کے ادوار میں ہی لگایا جاتا رہا ہے اور اس دوران گورنرز نے اپنے بھرپور اختیارات کے ذریعے صوبوں کا نظم ونسق سنبھالا۔
اب جب کہ صوبے سندھ میں بلدیاتی انتخابات کا بھی انعقاد ہوچکا ہے گو کہ اس پر جماعت اسلامی سمیت حزب اختلاف کی تمام کی جماعتوں کے بڑے تحفظات ہیں اور ان انتخابات کو ریاستی طاقت کا استعمال اور الیکشن کمیشن کی سرپرستی میں بدترین دھاندلی قرار دیا گیا ہے۔ بلدیاتی حکومتوں کے قیام کے بعد دو جون سے ٹرانزیکشن پریڈ ہنوز جاری ہے جس کی وجہ کوئی ترقیاتی کام نہیں کیے جارہے اور نہ ہی آئندہ کی کوئی منصوبہ بندی کی جارہی ہے۔ ان حالات میں گورنر سندھ کامران ٹیسوری کی ذمے داری تھی کہ وہ ٹرانزیکشن پریڈ کے خاتمے کے لیے اپنا کردار ادا کرتے تاکہ کراچی کے عوام کو ہونے والی پریشانی اور مشکلات کا خاتمہ کیا جاتا۔ کراچی میں تمام تر ترقیاتی کام اب منتخب ٹائون چیئرمین کے ذمہ ہے اور گورنر کا اس میں کوئی عمل دخل نہیں ہے۔
لیکن گزشتہ دنوںگورنر سندھ خود سابق صوبائی وزیر اور ایم کیو ایم کے رہنما رئوف صدیقی کے ہمراہ نارتھ ناظم آباد بلاک ایل نزد لنڈی کوتل چورنگی پہنچے اور انہوں نے جیفکو گراونڈ پر پرائیوٹ فرم کے حوالے کرنے اور یہاں کمرشل پارک قائم کرنے کا افتتاح کرنے کی کوشش کی لیکن وہاں عوام امڈ آئے۔ جیفکو گراونڈ جہاں ایک عرصے سے تجارتی اداروں کا قبضہ تھا اور یہاں کنکریٹ کا پلانٹ نصب تھا۔ اس اسفالٹ پلانٹ کی وجہ سے دھول، مٹی، آلودگی سے پوری فضا اور ماحول ابتر ہوچکا تھا۔ علاقے کے لوگ دمے اور پھیپھڑے کے امراض میں مبتلاہو رہے تھے اور اس وجہ سے کئی اموات بھی ہوچکی تھیں۔
بھاری گاڑیوں اور ٹرالروں کی آمد کی وجہ سے تمام قریب وجوار کے روڈ تباہ ہوچکے تھے اور آس پاس کی تمام آبادیاں اس عذاب سے شدید متاثر تھیں اور علاقے کے عوام نے اس مسئلے کے حل کے لیے جماعت اسلامی کی پبلک ایڈ کمیٹی سے رابطہ کیا اور علاقے کے لوگوں نے ہی جماعت اسلامی کے پلیٹ فارم سے نارتھ ناظم آباد بچائو تحریک شروع کی اور اس سلسلے میں عدالت میں کیس داخل کیا گیا۔ حافظ نعیم الرحمان خود کئی مرتبہ وہاں پہنچے اور اس اسفالٹ پلانٹ کے خاتمے کے لیے جدوجہد کی جو کامیابی سے ہمکنار ہوئی۔
جیفکو گراونڈ سے اسفالٹ پلانٹ کے خاتمے کے بعد چائنا کٹنگ ماسٹر ایک بار پھر سرگرم ہوگئے اس سے قبل ان لوگوں نے قلندریہ چوک سے لیکر عبداللہ کالج تک تمام خالی پلاٹوں پر زبردستی قبضہ کر کے وہاں چائنا کٹنگ کی اور اربوں روپے کی زمین بیچ کر کھا گئے۔ چائنا کٹنگ ماسٹرز نے اس مرتبہ گورنر سندھ کو استعمال کیا اور گورنر سندھ نے بھی اپنے منصب کا خیال نہیں کیا اور پارٹی کارکن بن کر رئوف صدیقی کے ہمراہ پارک کا افتتاح کرنے پہنچ گئے جب کہ اب یہ ذمہ داری ٹائون اور یوسی کی بنتی ہے لیکن انہوں نے ناصرف یہ کہ ٹائون کے چیئرمین کو اعتماد میں نہیں لیا بلکہ انہیں بائی پاس کرتے ہوئے جیفکو گراونڈ پہنچے لیکن علاقے کے عوام کو شدید مشتعل اور غصے میں دیکھتے ہوئے وہ الٹے پائوں واپس جانے پر مجبور ہوگئے ہیں۔ باخبر ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ پچھلی تاریخوں میں یہ گراونڈ ایم کیو ایم کے رہنما رئوف صدیقی کو پرائیوٹ پارک کے لیے الاٹ کیا گیا ہے اور وہ پرائیوٹ طور پر یہاں پارک قائم کریں گے اور یہاں جھولے ودیگر تفریح کا سامان بھی لگایا جائے گا۔ اس پارک میں عوام کے داخلے کے لیے ٹکٹ مقرر ہوگا۔ اسی طرح کا ایک پارک کورنگی نمبر پانچ میں ماڈل پارک کے نام پر قائم ہے اور اس پارک کا سنگ بنیاد 2003 میں نعمت اللہ خان کے ہاتھوں رکھا گیا تھا اور بعد میں مصطفی کمال کے زمانے میں یہ مکمل ہوا اور اس پر پرائیوٹ کمپنی نے قبضہ کیا اور اب عوام کو اس پارک میں داخل ہونے کے لیے چالیس روپے کا ٹکٹ خریدنا پڑتا، روزانہ تقریباً پانچ ہزار افراد اپنے بچوں کے ہمراہ اس فیملی پارک میں آتے ہیں۔ ماہانہ کروڑوں روپے کی کمائی ہے لیکن سارا پیسہ سرکار کو جانے کے بجائے ان قبضہ گروپ کو جاتا ہے۔ اس کے لیے کے ایم سی، ٹائون اور بلدیہ کے افسران کو پیسے کھلائے جاتے ہیں اور علاقہ تھانہ، پولیس ودیگر اداروں کی مٹھی گرم کی جاتی ہے اور اب یہ حربہ جیفگو گراونڈ پر قبضہ کے لیے کیا جا رہا ہے۔ عدالت عظمیٰ نے پبلک مقامات پر کسی بھی قسم کا کوئی ٹکٹ یا داخلہ فیس کی وصولیابی پر سختی کے ساتھ پابندی عائد کی ہوئی ہے لیکن عدالت عظمیٰ کے واضح احکامات کے باوجود شہر کے فیملی پارکوں میں داخلہ فیس کی وصولیابی ایک المیہ اور ظلم ہے۔ گورنر سندھ نے جیفکوگراونڈپر قبضے کے لیے نہ اپنے منصب کا خیال کیا اور نہ اپنی حیثیت کا بلکہ انہوں نے ایک پارٹی کارکن کا کردار ادا کیا جو قابل مذمت ہے اور وہ قبضہ مافیا کے ترجمان بن کر سامنے آئے ہیں۔
چائنا کٹنگ اور قبضہ مافیا پہلے ہی شہر کے اہم کھیلوں کے میدان اور پارکوں پر قابض ہے۔ ضلع وسطی ہی میں النور گراونڈ، ہاکی گراونڈ پر بھی قبضہ مافیا قابض ہے اور کھیلوں کے میدان اور پارکوں کو کمائی کا دھندہ بناتے ہوئے انہیں ٹھیکہ پر دیا جارہا ہے۔ جیفکو گراونڈ خالصتاً ٹائون انتظامیہ کا مسئلہ ہے کس نے گورنر صاحب کو اجازت دی کہ وہ اس کے کسٹوڈین بنیں۔ بلدیاتی انتخابات سے قبل اس کا اختیار اے سی اور ڈی سی کے پاس ہوتا تھا اور اب بلدیاتی انتخابات کے بعد تمام تر اختیارات ٹائون چیئرمین اور ان کی کونسل کے پاس آگیا ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ گورنر صاحب ٹرانزیکشن پریڈ کے خاتمے کے لیے بات کرتے تاکہ جلد سے جلد ٹرانز یکشن پریڈ کا خاتمہ ہو اور پیپلز پارٹی، جماعت اسلامی، پی ٹی آئی سمیت تمام پارٹیوںکے ٹائون چیئرمین اور یونین کونسل پورے اختیارات اور وسائل کے ساتھ عوام کی خدمت کرسکے اور شہر میں ترقیاتی کام تیزی کے ساتھ شروع ہوسکے لیکن جیفکو گراونڈ میں پارک کی آڑ میں قبضہ مافیا کی جانب سے قبضے کی کوشش عوام کے لیے ناقابل برداشت ہے۔ گورنر صاحب اپنے عہدے کا پاس رکھے اور ایک پارٹی کے کارکن کے بجائے سندھ کے عوام کے گورنر بنیں تاکہ کسی کو ان پر انگلی اٹھانے کا موقع نہ مل سکے۔