!سچے پاکستانی: سید علی گیلانی کی دوسری برسی

444

تحریک آزادی کشمیر کے عظیم رہنما سید علی شاہ گیلانی کی دوسری برسی یکم ستمبر کو کشمیر، پاکستان اور دنیا بھر میں بڑے اہتمام سے منائی گئی۔ اس موقع پر کانفرنسوں اور سیمینارز شہید قائد کو تحریک آزادی کشمیر کے حوالے سے ان کی تاریخی جدوجہد کو شاندار الفاظ میں خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے اسے آزادی کی منزل سے ہمکنار کرنے کے لیے بھرپور عزم کااظہار کیا گیا ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ سید علی گیلانی جیسی شخصیات صدیوں میں پیداہوتی ہیں۔ جو نامساعد حالات میں تاریخ کے دھارے کا رخ موڑ لیتی ہیں۔ سید علی گیلانی کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ بھارت کے تمام استعماری ہتھکنڈوں کا مقابلے کرتے ہوئے انہوں نے ایک ایسی نسل کی آبیاری کی جو جبر و تشدد اور خوف و لالچ کے تمام ہتھکنڈوں کو مسترد کرتے ہوئے ایک بڑے استعمار کے سامنے سینہ سپر ہے اور اپنے بنیادی اصولی موقف سے انحراف کرنے کے لیے قطعاً تیار نہیں ہے۔

ریاست جموں وکشمیر ایک غالب مسلم اکثریت ریاست سے بھی اور باہم معاشی، دینی، تہذیبی رشتوں کی نسبت سے بھی اور برصغیر کی تقسیم کے اصولوں کے تحت بھی فطری طور پر ممملکت پاکستان ہی کا حصہ تھی۔ لیکن انگریزوں اور کانگریس کی مکارانہ چالوں کے نتیجے میں ہندوستان نے ریاست پر قبضہ کرنے کی کوشش کی۔ جس کے خلاف مجاہدین کشمیر نے علم جہاد بلند کیا۔ جن کی پشت پر قبائلی عمائدین بھی پہنچ گئے۔ چنانچہ مختصر مدت میں مہاراجا کی فوجوں کو شکست فاش سے دو چار کردیا۔ مہاراجا ہری سنگھ دارالحکومت سری نگر سے بھاگ کر جموں میں پناہ گزیں ہوا کہ بھارت مجاہدین کے خوف سے سلامتی کونسل میں یہ درخواست لے کر گیا کہ مسئلہ کے پر امن حل کے لیے اقوام متحدہ اپنا کردار ادا کرے۔ مجاہدین پیش قدمی کرتے چلے جارہے تھے کہ ہندوستان نے شیخ عبداللہ کو اپنے دام میں گرفتار ہوئے سری نگر میں براجمان کرلیا جس کی حکومت اور کارکنان نے چن چن کر مجاہدین سے بدلہ لیا اور پاکستان کے نام لیوا ہر فرد کو ریاست بدر ہونے پر مجبور کردیا، اگر شیخ عبداللہ بھارت کو کندھا پیش نہ کرتے تو بڑی آسانی سے مجاہدین آزاد ی کی منزل حاصل کرلیتے۔ وادی کشمیر میں شیخ عبداللہ کے بڑے اثرات تھے۔ اس لیے کہ 1930ء کی دہائی میں اس نے بڑی دلیری سے مہاراجہ کے مسلم دشمن نظام حکومت کو چیلنج کیا تھا۔ یوں بھارت مطمئن ہو گیا کہ مسئلہ اقوام متحدہ کی قرار دادوں میں دفن ہوگیا ہے اور کشمیریوں کا سب سے بڑا لیڈر ہمارے ساتھ شامل ہوگیا ہے۔ اب کشمیر میں کبھی بھارتی استعمار کے خلاف کوئی تحریک نہ اْٹھ پائے گی۔

مایوسی کے ان گھٹا ٹوپ اندھیروں میں سید علی گیلانی نے بھارتی استعمار اور اس کی سہولت کار کشمیری قیادت کو چیلنج کیا۔ بھارت کے ساتھ نام نہاد الحاق کو انہوں نے تاریخی جرم قرار دیتے ہوئے نوجوانوں کو ذہنی غلامی کا جوا اتارنے کا درس دیا۔ اس جدوجہد میں جماعت اسلامی مقبوضہ کشمیر نے نظریاتی محاذ پر تاریخی کردار کامظاہرہ کیا۔ امیر جماعت مولانا سعید الدین مرحوم جو خود بھی ایک ماہر تعلیم تھے اور علماء و روحانی شخصیت بھی تھے انہوں نے دعوت وتبلیغ اور تعلیمی اداروں کے ایک وسیع نظام کے ذریعے لاکھوں نوجوان تیار کیے۔ جنہوں نے آزادی و حریت کو اپنی زندگی کا مشن بنایا۔ میر واعظ خاندان کے زیر اثر چلنے والے دینی اداروں اور دیگر دینی انجمنوں نے بھی کشمیری مسلمانوں اور ان کے اسلامی تشخص کے تحفظ میں اہم کردار ادا کیا، لیکن سید علی گیلانی کو اللہ تعالیٰ نے تحریر و تقریر اور جرأت اور استقامت کی بہترین صلاحیتوں سے نوازا تھا۔ چنانچہ یہ ساری صلاحیتیں اور زندگی کا ایک ایک لمحہ آزادی ٔ کشمیر اور اسلام کی سربلندی کے لیے بروئے کار لائے، بلاشبہ وہ اپنے وقت کے ایک بڑے شعلہ بیاں خطیب تھے۔ اس لحاظ سے جماعت اسلامی کے وابستگان ہی نہیں بلکہ کشمیری مسلمانوں کے علاوہ غیر مسلم بھی ان کے خطابات سنتے تھے۔ وہ بڑے استدلال کے ساتھ انسانیت کی فلاح کے لیے دین اسلام کو واحد حل پیش کرتے تھے، اسمبلی کے فلور سے بھی انہوں نے عوامی مسائل کے حل کے ساتھ ساتھ کشمیر کے حوالے سے بھارت کے مکارانہ ہتھکنڈوں کو بے نقاب کیا۔ حق گوئی کی پاداش میں انہوں نے زندگی کا طویل عرصہ جیلوں اور عقوبت خانوں میں بسر کیا۔ وہ برصغیر کے جید رہنمائوں میں سے ہیں جنہوں نے اسیری کے ایام میں تاریخی مزاحمتی لٹریچر اپنی سوانح عمری اور دیگر کتب کی صورت میں تصنیف کیا۔

وہ ایک نظریاتی پاکستانی تھے۔ اس لیے پاکستانی حکمرانوں کی بے تدبیریوں کی وجہ سے یہاں کے حالات پر رنجیدہ رہتے تھے۔ کشمیری جو پاکستان سے بے پناہ محبت رکھتے تھے۔ بد قسمتی سے پاکستانی حکمران ان کی توقعات پر پورا نہ اتر سکے۔ ان حالات میں خدشہ تھا کہ بھارتی ایجنسیاں نوجوانوں کو مایوس کرتے ہوئے کسی ردعمل کا شکار کریں۔ گیلانی صاحب سری نگرمیں لاکھوں کے جلسے میں صحت کی خرابی کے باوجود خطاب کرنے پہنچے۔ پاکستان کو اْمت مسلمہ کی اْمیدوں کا مرکز قرار دیتے ہوئے ’’ہم پاکستانی ہیں پاکستان ہمارا ہے‘‘۔ کا تاریخ ساز نعرہ دیا جو کشمیر کے بچے بچے کا نعرہ بھی ہے اور عزم بھی۔

یہ امر افسوسناک ہے کہ اگست 2019ء کے بھارتی اقدامات جن کے نتیجے میں ریاست مسلم اور کشمیری تشخص سخت خطرات سے دوچار ہے۔ اس پر حکومت پاکستان کوئی جامع حکمت عملی تشکیل نہ دے سکی بلکہ سابق سپہ سالار کے خیالات کو جس طرح سینئر صحافیوں نے بے نقاب کیا شدید لمحہ فکر ہے۔ سیاسی اور بالخصوص عسکری قیادت کو وضاحت اور ازالہ کرنا چاہیے۔ بلاشبہ پوری پاکستانی قوم اور اس کا بچہ بچہ اہل کشمیر کی پشت پر ہے لیکن جب تک حکومت اور ریاست پاکستان جرأت مندانہ اقدامات تیز کرے گی۔ مسئلہ جوں کا توں رہے گا۔ اس لیے وقت کا تقاضا ہے کہ ریاست پاکستان بھارت کو اپنا پیغام دے کہ پاکستان بطور فریق مزاحمت کے ہر محاذ پر کشمیریوںکی مدد کرنے کا پابند ہے۔ نیز ریاست کے حصوں آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کو با اختیار بناتے ہوئے تحریک آزادی کا حقیقی بیس کیمپ بنایا جائے۔ سید علی گیلانی شہید کو خراج عقیدت پیش کرنے کا بہترین طریقہ یہی ہے کہ حالات سے مایوس ہونے کے بجائے پْر عزم ہو کر ہر سطح پر تحریک آزادی کشمیر کی پشتیبانی کی جائے۔