ڈاکٹر امجد علی کی رحلت

831

دنیا کی زندگی دھوکا اور فریب کے سوا کچھ نہیں ہے، ہر فرد کو موت کا مزا چکھنا ہے اور اپنے ربّ کے حضور پیش ہوکر اپنے پل پل کا حساب دینا ہے۔ گزشتہ دنوں ملک کے معروف عالم دین، تبلیغی جماعت کے بزرگ، جامعہ ابن عباس کے بانی اور مہتمم اور مشہور ماہر امراض قلب ڈاکٹر امجد علی اپنی حیات پوری کر کے راہی سفر آخرت ہوگئے اور اپنے ربّ کے حضور پیش ہوگئے۔ ان کی نماز جنازہ میں عوام کا سمندر اُمڈ آیا اور خلق خدا کا جم غفیر نمازِ جنازہ میں موجود تھا اور ہر شخص اشکبار آنکھوں سے درویش صفت عظیم بزرگ عالم دین کو رخصت کر رہا تھا اور اللہ کے محبوب بندوں سے خلق خدا کی محبت اور تعلق کا اظہار ہورہا تھا۔
بہت کم لوگوں کے علم میں ہے کہ داعی اسلام ڈاکٹر امجد علی پاکستان کے سابق وزیراعظم چودھری محمد علی کے صاحبزادے تھے۔ 1956 میں میڈیکل کی تعلیم کے حصول کے لیے وہ برطانیہ گئے وہاں ان کی ملاقات تبلیغی جماعت کے رفقاء سے ہوئی اور پھر ان کا دین سے ایسا تعلق جڑا کہ آخری دم تک ان کی شناخت بنا رہا۔ برطانیہ سے واپسی پر ڈاکٹر امجد علی اعلیٰ ڈگریوں کے ساتھ ساتھ دین اور تبلیغ کی نعمت بھی اپنے ہمراہ لائے تھے۔ وہ ماہر امراض قلب تھے اس شعبے میں ان کا بڑا نام تھا۔ ڈاکٹر امجد علی لیاقت نیشنل اسپتال میں مریضوں کے دل کا علاج کرنے کے ساتھ ساتھ مسجد میں ان کے قلوب میں لگا باطنی زنگ بھی صاف کرتے اور انہیں دین کی دعوت دیتے۔
ڈاکٹر امجد علی نے اپنی عمر کے آخری حصے میں باقاعدہ طور پر دینی سند حاصل کی۔ انہوں نے باقاعدہ طور پر درس نظامی کا کورس کیا اور نام، شہرت، دولت ہونے کے باوجود چٹائی پر بیٹھ کر مولانا انور بدخشانی سے درس نظامی کی تعلیم حاصل کی اور دورۂ حدیث مکمل کیا۔ انہیں قرآن وحدیث عربی زبان سے بے حد لگائو دلچسپی تھی۔ انہوں نے اپنی پوری زندگی دین کی خدمت میں بسر کی اور وہ ڈاکٹر ہونے کے ساتھ ساتھ دین کے بہترین مبلغ اور داعی تھے اور متوازن انسان تھے۔ لوگوں کے ساتھ انتہائی محبت، شفقت کے ساتھ پیش آتے اور لوگوں کو آخرت کی فکر کرنے اور ربّ سے تعلق کو مضبوط بنانے پر زور دیتے تھے۔ انہوں نے پاکستان میں دین کے فروغ کے لیے اپنا علمی سفر جاری رکھا اور جامعہ ابن عباس جیسی عظیم الشان دینی درس گاہ قائم کی اور اپنا علمی لوہا منوایا۔ جامعہ ابن عباس کی ایک شاخ اورنگی ٹائون میں اور ایک شاخ اسلام آباد بہارہ کہو میں ہے جبکہ مرکزی شاخ گلستان جوہر میں ہے۔ ڈاکٹر امجد علی عالم باعمل تھے، فہم وتقویٰ کے پیکر، اخلاص وللہیت اور عاجزی وانکساری کے حقیقی مصداق تھے۔ عربی زبان کی آبیاری کے لیے علماء عرب سے انہوں نے خصوصی رابطہ کیا اور عربی کے فروغ کے لیے ان کی خدمات حاصل کی۔ مولانا امجد علی کو خود بھی عربی پر عبور حاصل تھا اور اکثر وہ جامعہ کے پروگرامات میں عربی میں تقاریر کیا کرتے تھے انہوں نے عربی کے فروغ کے لیے ملک بھر میں نیٹ ورک قائم کردیا تھا۔ مدرسہ ابن عباس اور عائشہ البنات کا شمار پاکستان کے معروف دینی مدارس میں ہوتا ہے۔
بلاشبہ ڈاکٹر امجد علی امت مسلمہ کا قیمتی اثاثہ تھے۔ ہزاروں کی تعداد میں دنیا بھر میں پھیلے ہوئے ان شاگرد اور ان کے علمی ودینی ادارے ان کے لیے صدقہ جاریہ کا کام کریں گے۔ ڈاکٹر امجد علی اپنی حسنات لیے اپنے ربّ کے حضور پیش ہوگئے ہیں اور ہم سب کو وہ ایک پیغام بھی دے گئے ہیں کہ آخرت کی نہ ختم ہونے والی زندگی کی تیاری کی جائے۔ انسان کی زندگی برف کی طرح پگل رہی ہے۔ دنیا کی ٹھاٹ باٹ اور چمک دمک عارضی ہے۔ اللہ پاک نے ہم سب کو ایک بڑے مقصد کے لیے پیدا کیا ہے۔ ہماری زندگی کا مقصد یہ ہے کہ ہم اپنے ربّ کی بندگی اختیار کریں اور دین کو اپنے اوپر نافذ کریں۔ دین دنیا میں نافذ ہونے کے لیے آیا ہے اور زندگی کے ہر دائرے میں اس کو عملی طور پر نافذ کرنا ہم سب کی ذمے داری ہے۔ ہمارے قول وفعل میں تضاد ہے اور ہم دین کو عبادات تک محدود کیا ہوا ہے جبکہ دین پورا ایک نظام ہے اور یہ نظام اگر دنیا میں حقیقی طور پر نافذ ہوجائے تو کوئی بھوکا نہیں رہے گا اور لوگ زکوٰۃ باٹنے نکلے گے اور زکوٰۃ لینے والا کوئی نہیں ہوگا۔ بلاشبہ ان کی رحلت سے علمی حلقوں کا بھاری نقصان ہوا ہے اللہ تعالی اس خلا کو جلد پر فرمائے۔
عالم تھے باعمل وہ، تقویٰ لباس ان کا
دار البقاء میں لینے وہ سعادت چلے گئے