اب بات ہڑتال سے آگے بڑھ گئی ہے

1329

ایک جانب پوری قوم بجلی کے بلوں میں ظالمانہ ٹیکسز کے خلاف احتجاج کر رہی ہے اورآج2ستمبر کو جماعت اسلامی نے اس مسئلے پر ہڑتال کی اپیل کر رکھی ہے لیکن حکمرانوںکے بیانات اور انداز سے ایسا محسوس ہو رہا ہے بلکہ وہ ایسا محسوس کرا رہے ہیں کہ عوام کی حیثیت ان کے نزدیک کیڑے مکوڑوں کی طرح ہے ۔ چنانچہ ایک جانب وزیر اعظم عوام کو دھمکی دے رہے ہیں اور دوسری جانب پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں بھاری اضافہ کر دیا ۔گویا ان کی بلا سے ہڑتال کرو یا خود کشی ہمیں کوئی سروکار نہیں ۔ ہم آئی ایم ایف کے غلام ہیں ۔ افسوس ناک بات یہ ہے کہ وزیر اعظم ساری باتوں کے ساتھ ساتھ پھر48 گھنٹے میں ریلیف دینے کی بات کر گئے ۔ گویا ان کا نام اب48گھنٹے کے ساتھ ہی لیا جائے گا۔شاید اسی لیے امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے کہا ہے کہ حکومت چلانا نگرانوں کا کام نہیں ۔ مصیبت یہ بھی ہے کہ تمام حکمرانوں کے نگرانوں میں بھی یہ صلاحیت نہیں کہ وہ حکومت سنبھال سکیں ۔ ان کے فیصلوں سے ظاہر ہو رہا ہے کہ ایک طرف قوم چیخ رہی ہے بجلی کے بل جلائے جا رہے ہیں ۔ خودکشیاں ہو رہی ہیں اور وزیر اعظم کہہ رہے ہیں کہ جہاں بل جلائے گئے بجلی بھی وہیں چوری ہوتی ہے اور اس کے ساتھ ہی قوم پر پیٹرول کے نرخوں میں تقریباً15روپے اور ڈیزل کے نرخ میں ساڑھے اٹھارہ روپے اضافہ کر دیا گیا ۔ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ایسے حکمران ٹولے کا علاج ایک دن کی ہڑتال نہیں ہے ۔ انہیں ایوانوں میں ڈرایا بھی گیا ہے کہ انقلاب فرانس سے ڈروایسے مواقع پر جب عوام نکلتے ہیں تو ان کو کوئی کنٹرول نہیں کر سکتا۔ لیکن یہ کچھ سمجھنے والے نہیں ہیں۔ ان کے پاس مقدمات درج کرانے کے سوا اور کیا ہے ۔ وہ زیادہ سے زیادہ یہ کریں گے کہ چند سو ، چند ہزار لوگوں کے خلاف دہشت گردی کے مقدمات درج کر لیں گے کچھ گرفتار ہو جائیں گے ، کچھ کو سزا بھی ہو جائے گی ۔ اگر سزا سنانے اوردینے والے بچ گئے ۔ لیکن عوام جس عذاب میں گرفتار ہیں وہ خود کسی سزا سے کم نہیں ۔ا ب تو لوگ کہنے لگے ہیں کہ خود کشی نہ کرو ، یہ ظلم کرنے والوں کا گریبان پکڑ کر پوچھو کہ ایسا کیوں کر رہے ہو ۔ معاملہ صرف یہی نہیں ہوا ہے بلکہ ڈالر323 روپے کا ہو گیا ہے اوربالآخر پاکستانی روپیہ سری لنکن روپے سے بھی نیچے آ گیا ۔ سونا دو لاکھ چالیس ہزارفی تولہ ہو گیا ۔ اس صورتحال کی وجہ سے اسٹاک مارکیٹ میں بھی تباہ کن مندی ہو گئی لیکن آئی ایم ایف کے نوکروں کو اس سے کیا غرض ۔ انہیں تو یہ نہیں پتا کہ ا صل مسائل کیا ہیں ۔ جب وزیر اعظم کہہ رہے ہیں کہ مہنگائی اتنا بڑا مسئلہ نہیں ہے کہ پہیہ جام کیا جائے ۔ بلوں کا معاملہ بڑھا چڑھا کر پیش کیا جا رہا ہے ۔48گھنٹے میں ریلیف کا اعلان کریں گے ۔ لیکن48 گھنٹے میں ریلیف کیا دیں گے ۔ یہ پانچویں مرتبہ48 گھنٹے کی بات کر چکے ہیں جبکہ جس چیز میں قوم ریلیف مانگ رہی ہے اسے تو انہوں نے ماننے سے ہی انکار کر دیا ہے ۔ وزیر اعظم کہتے ہیں کہ مہنگائی اتنا بڑا مسئلہ نہیں کہ پہیہ جام کیا جائے لیکن شاید وہ نہیںجانتے بلکہ یقیناً نہیں جانتے کہ مہنگائی ہوتی کیا ہے ۔اس سے تو لوگوں کا چولہا جام ہو گیا ہے ا گر عوام اس بات کا جواب دینے پر تل گئے تو وزیر اعظم صاحب کو90 دن دور کی بات ہے48گھنٹے بھی منصب پر رہنا ممکن نہیں رہے گا ۔ شاید اسلام آباد سے گھر کے بجائے بیرون ملک جانا پڑے اوریہ جو وہ کہہ رہے ہیں کہ بلوں کا معاملہ بڑھا چڑھا کر پیش کیا جا رہا ہے اس سے تو لگتا ہے کہ ان کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیتیں بھی خبط ہو چکی ہیں اور شاید وہ کبھی بل ادا بھی کرتے ہیں یا نہیں ۔ انہیں کیا معلوم بجلی گیس پیٹرول اورد یگر اشیاء کو خریدنا کیسا کام ہے ۔ انہوں نے سب سے بڑی بات یہ کہی ہے کہ جہاں بل جلائے گئے ہیں بجلی چوری بھی وہیں ہوتی ہے ۔ یہ بالکل ٹھیک بات ہے جہاں سے ایسی قانون سازی ہوتی ہے وہیں سے بجلی چوری شروع ہوتی ہے ۔مفت بجلی کا فیصلہ وہیں ہوتا ہے بجلی چوری صرف کنڈا مارنے کا نام نہیں ۔ بجلی چوری یہ بھی ہے کہ قوم سے ٹیکس وصول کیا جائے اور اشرافیہ کو مفت بجلی ، مفت پیٹرول ، مفت ٹیلی فون ، مفت سفر کی بے حساب سہولتیں حاصل ہوں ۔ ان حالات میں بجلی چوری بھی ہو گی اور مزید چوریاں ڈاکے بھی ہوں گے ۔اس کا اندازہ اس امر سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ قوم کوبجلی کی پڑی ہے اور پی ٹی آئی کے صدر کو اپنی تنخواہ کی وہ جس امن و امان کو یہ کہہ رہے ہیں کہ امن و امان کی صورتحال زیادہ خراب نہیں وہ بتائیں کہ جن کا کام عوام کو تحفظ دینا ہے ان کے قافلوں کے قریب خود کش دھماکے ہو رہے ہیں اور اس میں9اہلکار جاں بحق ہونے کی خبر ہے ۔ اور یہ خبرہر دوسرے روز کی ہے ۔ کبھی بلوچستان میں کبھی کے پی کے میں اور کبھی کہیں ۔ عسکری اداروںکو نشانہ بنایا جاتا ہے ۔ اور اب کوئی گلی محلے کی چوری ڈکیتی کو امن و امان کامسئلہ بھی نہیں سمجھتا بلکہ جس ملک کے وزیر کے نوکر کے گھر سے کھربوں روپے برآمد ہو رہے ہیں جس ملک کے ایک ایک وی آئی پی کے پاس بیرون ملک کئی کئی گھر ہوں اور جو مفت بجلی ، پیٹرول اور سفر کے مزے لے رہے ہوں وہاں اتنے بڑے بڑے ڈاکوئوں کے سامنے گلی محلے کی چوری کی کوئی اہمیت نہیں ۔ دو ستمبر کی ہڑتال تو کامیاب ہو ہی رہی تھی کہ اب حکومتی اقدامات نے اسے بھرپور طریقے سے کامیاب کرانے کا اہتمام کردیا ہے۔ لیکن کیا قوم ایک دن ہڑتال کرکے گھر بیٹھ جائے گی۔ انہیں بھی یہی امید ہے کہ لوگ 2 ستمبر کو ہڑتال کرکے گھر بیٹھ جائیں گے۔ لیکن اب ایسا لگ نہیں رہا ہے اب احتجاج کو پرامن رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ الیکشن بروقت کرائے جائیں اور اس ملک کی تباہی کے تمام ذمے داروں کو الیکشن میں مسترد کردیا جائے۔ یہ کھیل اب ختم ہونا چاہیے کہ ہر آنے والا پچھلے پر ساری ذمہ داری عاید کرکے نکل جاتا تھا۔ اب اس سے کام نہیں چلے گا کیونکہ اب کس کا چہرہ چھپا رہ گیا ہے۔ پی پی پی، مسلم لیگ پہلے باری باری بے نقاب ہوئے اور اب پی ڈی ایم حکومت بن کر تو بے لباس ہی ہوچکے ہیں اور ان دونوں کو چور کہنے والی پی ٹی آئی ان ہی دونوں چوروں کے ٹولے سے الیکٹ ایبلز لے کر حکومت بناکر اور چار سال چلاکر بھی کچھ نہیں کرسکی اس لیے کہ اس کے پاس پوری ٹیم ہی ان گروہوں کی تھی جنہیں عمران خان چور کہتے تھے اور انہوں نے 9 مئی کے سانحے کے بعد ثابت بھی کیا کہ وہ مسلم لیگ کے اور پی پی پی کے نہیں رہے تو پی ٹی آئی کے کیوں رہ سکتے ہیں۔ اب ہڑتال کرکے غصے کا اظہار تو کیا جائے لیکن اگلا قدم تمام سابق حکمرانوں کو مسترد کرنے کا ہونا چاہیے اس کے بغیر مسائل حل نہیں ہوں گے۔جب تک قوم کنویں کی صفائی کا اصل طریقہ اختیار نہیں کرے گی چالیس ڈول نکالے یا چار سوڈول پانی پاک نہیں ہو گا ۔ کنویں کو صاف کرنے کا جو طریقہ بتایا گیا ہے اس پر عمل کرنا ہوگا ۔ اپنے چھوٹے چھوٹے مفادات،محبتوں اور دائروں کو تج کر مشترکہ معاملات کے لیے اپنے مخلص لوگوں کو منتخب کرنا ہو گا ۔