پاکستان چاند پر

411

 

3 مئی2024ء پاکستان کی تاریخ کا ایک اہم دن بن گیا جب اس کا پہلا سیٹلائٹ ’’آئی کیوب قمر‘‘ چینی خلائی مشن ’’چینگ ای6‘‘ کے ساتھ چاند پر روانہ ہوا۔ یہ پہلا موقع ہے کہ پاکستان نے کسی خلائی مشن میں حصہ لیا۔ پاکستان کے پہلے سیٹلائٹ مشن ’’آئی کیوب قمر‘‘ کی کامیاب روانگی نے ثابت کیا ہے کہ قیام پاکستان کے بعد سے نااہل، بدترین، عالمی ایجنڈوں اور مفادات کے لیے کام کرنے والے حکمرانوں کے باوجود ہمارے ملک میں باصلاحیت افراد کی کمی نہیں، اور امید کا چراغ جل رہا ہے۔ اس مشن کی کامیابی نے نہ صرف پاکستان کو خلائی تحقیق کے میدان میں ایک اہم مقام دلایا ہے، بلکہ یہ ہمارے نوجوانوں کے لیے حوصلہ افزائی کا ذریعہ بھی ہے کہ وہ اپنے خوابوں کو پورا کرنے کے لیے محنت اور لگن سے کام کریں، اور انہیں کام کرنے کا موقع دیا جائے۔ ریاست کا تعاون حاصل ہو تو سب کچھ ممکن ہے۔ لیکن اس ضمن میں یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ یہ کام ہمارے حکمرانوں کے کسی ویژن یا توجہ کی وجہ سے نہیں ہوا، بلکہ یہ چین کی خصوصی دلچسپی و نگرانی کے ساتھ محب وطن سائنس دانوں کے حوصلے، صلاحیت اور ہمت کا ثمر ہے۔ اس کی تفصیلات یہ ہیں کہ اس مشن کو پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف اسپیس ٹیکنالوجی (IST) کے ماہرین نے سپارکو اور چین کے تعاون سے تیار کیا ہے جس میں دو آپٹیکل کیمرے نصب ہیں جو چاند کی سطح کی تصاویر اور معلومات حاصل کریں گے۔ یہ معلومات نہ صرف خلائی تحقیق کے لیے مفید ہوں گی، بلکہ موسمیات اور قدرتی آفات کے انتظام جیسے شعبوں میں بھی مددگار ثابت ہوں گی۔ اس کا پس منظر انسٹی ٹیوٹ آف اسپیس ٹیکنالوجی نے بتایا ہے اور جو ڈان نے رپورٹ کیا ہے کہ چین نے چاند پر اپنا مشن بھیجنے سے دو سال قبل ایشیائی خلائی ایجنسی ایشیا پیسفک اسپیس کوآپریشن آرگنائزیشن کے رکن ممالک کو دعوت دی کہ وہ اپنے خلائی سیٹلائٹ چین کے مشن کے ساتھ بھیج سکتے ہیں۔ ایشیائی خلائی ایجنسی کے رکن ممالک میں ترکی، ایران، بنگلادیش، منگولیا، پیرو، تھائی لینڈ اور پاکستان شامل ہیں۔ جس کے بعد پاکستان سمیت دیگر ممالک نے چین سے اپنے سیٹلائٹ بھیجنے کی درخواست کی، لیکن چینی سائنس دانوں نے پاکستانی سیٹلائٹ کا انتخاب کیا، جس کے بعد پاکستانی ماہرین اور طلبہ نے دو سال سے کم عرصے میں ’’آئی کیوب قمر‘‘ سیٹلائٹ تیار کیا۔ اس سے متعلق اخبارات میں جو تفصیلات آئی ہیں ان کے مطابق ’’آئی کیوب قمر ایک چھوٹا سا سیٹلائٹ ہے، اور اس ضمن میں ہمارے سائنس دانوں کا کمال یہ ہے کہ اس کا وزن صرف 7 کلو گرام ہے، سیٹلائٹ دو ہائی ریزولیوشن کیمروں سے لیس ہے جو چاند کی سطح کی تصاویر اور ویڈیوز زمین پر بھیجیں گے۔ یہ ڈیٹا سائنس دانوں کو چاند کی سطح اور اس کی تشکیل کے بارے میں مزید جاننے میں مدد دے گا‘‘۔ یہ بات سمجھنے کی ہے کہ قومیں علم، محنت، ایمان داری اور دیگر بنیادی اخلاقیات کے ساتھ عروج پاتی ہیں۔ اسلام نہ سائنس اور نہ ہی کبھی جدید تعلیم کا مخالف رہا ہے بلکہ انسانوں کے ربّ نے کائنات کے مطالعے کو خالق کی معرفت کا ذریعہ کہا ہے۔ اور ہم مسلمانوں نے جب عروج کے فلسفے کو سمجھا ہے تو برسوں تک سائنس میں ساری دنیا کی امامت اور قیادت کی ہے، اور آج بھی مغرب نے سائنس کے میدان میں ہماری تاریخ کے ساتھ ہی عروج حاصل کیا ہے۔ لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ ہم سائنس کے ساتھ ساتھ بنیادی اخلاقیات سے بھی محروم ہوگئے، اور ہر ہر میدان میں ایک ہولناک سنّاٹا چھایا ہوا ہے، زوال ہے کہ ختم ہی نہیں ہورہا ہے۔
’’آئی کیوب قمر‘‘ کی کامیابی جیسی خبریں کچھ حوصلہ دیتی ہیں، اور یہ اس بات کی ایک واضح مثال ہے کہ پاکستان میں سائنس و ٹیکنالوجی کے شعبے میں بڑی صلاحیتیں اور امکانات موجود ہیں۔ ہمارے پاس ایسے نوجوان ہیں جو دنیا کے کسی بھی دوسرے ملک کے نوجوانوں سے کم نہیں ہیں۔ اگر انہیں مواقع فراہم کیے جائیں تو وہ ملک کے لیے بڑے کام کرسکتے ہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ سائنس و ٹیکنالوجی کے شعبے میں سرمایہ کاری بڑھائے اور نوجوانوں کو تعلیم و تربیت کے مواقع فراہم کرے۔ اس کے علاوہ حکومت کو ایسا ماحول فراہم کرنا چاہیے جو اختراع اور جدت کو فروغ دے۔ اگر ہم یہ اقدامات کریں تو یقینی طور پر پاکستان ایک ترقی یافتہ اور خوش حال ملک بن سکتا ہے۔ اس ضمن میں امیر جماعت اسلامی پاکستان حافظ نعیم الرحمن نے درست کہا ہے کہ ’’پاکستان کا سیٹلائٹ مشن آئی کیوب قمر تازہ ہوا کا جھونکا ہے، اور معاشی بدحالی سے نکلنے کا واحد راستہ آئی ٹی و دیگر جدید ٹیکنالوجی پر خصوصی توجہ دینے میں ہے‘‘۔ انہوں نے سیٹلائٹ مشن کی کامیابی کے لیے دعا کی اور اس امید کا اظہار کیا کہ پاکستان کا مستقبل تابناک ہے۔ ہم بھی دعاگو ہیں۔ اور اس میں دو رائے نہیں کہ ہمارے باصلاحیت افراد قومی سرمایہ ہیں، ہمیں ان کی صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کے لیے ہر ممکن کوشش کرنی چاہیے، اور اب حکومت و ریاست کو مستقل بنیادوں پر اس طرف سوچنا اور قدم اٹھانا چاہیے۔