بے نتیجہ نہیں یہی نتیجہ آنا ہے

474

نگراں حکومت نے بالکل مایوس نہیں کیا اور مسلسل چوتھے روز بھی ان کے اجلاس کا کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوا۔ طرح طرح کی تجاویز گشت کررہی ہیں کہ حکومت اگست ستمبر کے بلوں میں ریلیف دینے کی تجویز پر غور کررہی ہے۔ اسے تجویز دی گئی ہے کہ بجلی کے بلوں میں 30 تا 35 فیصد کمی کردی جائے۔ کم کی جانے والی رقم کا اثر صارفین پر موسم سرما میں پہنچایا جائے گا۔ یہ خبر بھی معاصر روزنامہ جنگ اور دی نیوز نے اندرونی ذرائع کے حوالے سے دی ہے اور کہا ہے کہ جو رقم کم کی جائے گی وہ موسم سرما میں وصول کرلی جائے گی۔ گویا عوام کو کسی طور معاف نہیں کیا جائے گا۔ اگرچہ اس تجویز کی منظوری کے امکانات نہیں تھے لیکن اگر یہ منظور کرلی جاتی تو کل کی ہوتی ہڑتال آج سے شروع ہوجاتی۔ جس قسم کی یہ تجویز ہے اس سے صاف ظاہر ہورہا ہے کہ نگراں حکومت پچھلی کٹھ پتلی حکومتوں کی طرح بلکہ ان سے بھی زیادہ بے اختیار اور بے بس حس ہے۔ اس تجویز کے ساتھ وہ حقیقت بھی بیان کردی گئی ہے جو پاکستانی عوام پر بم بن کر مسلسل برس رہی ہے اور وہ آئی ایم ایف کی غلامی ہے۔ اس خبر کے مطابق بجلی کے بلوں سے سرچارج، جی ایس ٹی اور دیگر ٹیکسوں کی کٹوتی کے لیے آئی ایم ایف کو اعتماد میں لینا پڑے گا۔ بات اعتماد میں لینے کی نہیں اجازت لینی پڑے گی۔ اور یہ بہت واضح ہے کہ آئی ایم ایف محاصل کے ہدف 9.2 کھرب روپے پر سمجھوتے کی ہرگز اجازت نہیں دے گا۔ اور یہی مطالبہ پوری قوم کا ہے کہ بجلی کے بلوں سے ناجائز ٹیکس ختم کیے جائیں۔ نگراں حکومت یہ کام کر نہیں سکتی اور یہ بھی نہیں کہا جاسکتا کہ آنے والے حکمران بھی یہ کام کرسکیں گے کہ نہیں، کیوں کہ آئی ایم ایف کی غلامی ان سب کا مشترکہ ایجنڈا ہے۔ اگر حکمران عوام کے لیے مخلص ہوتے تو بڑی آسانی سے ٹیکس کے ہدف تک پہنچ سکتے تھے۔ بجلی پر جو ناجائز ٹیکس عائد کررکھے ہیں یہ رقم بلکہ اس سے کہیں زیادہ رقم زراعت اور بڑے زمینداروں پر ٹیکس لگاکر تو حاصل کی جاسکتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اگست ستمبر کے بلوں کی رقم سردیوں میں وصول کرنے جیسی بے ہودہ تجاویز کے بجائے اربوں روپے کی مفت بجلی بند کی جائے۔ ان لوگوں سے جو رقم وصول ہوگی وہ بھی بجلی بلوں میں عوام پر ظالمانہ ٹیکسوں سے زیادہ ہوگی۔ اگر بڑے لوگوں کی ٹیکس چوری اور زرعی شعبے سے ٹیکس لینے کے علاوہ دیگر چھپے ہوئے بااثر طبقات کو بھی ٹیکس نیٹ میں لایا جاتا تو بھی صورت حال اتنی خراب نہیں ہوتی۔ نگراں حکومت نے پہلے بجلی کے مسئلے پر نوٹس لینے کی خبر جاری کی پھر اجلاس ہوا پھر وزیراعظم کی جانب سے عوام کو زیادہ سے زیادہ ریلیف دینے کی ہدایت کی جھوٹی خبر چلوائی گئی اور اس کے بعد 48 گھنٹوں میں ریلیف کا اعلان ہوا۔ بالآخر آئی ایم ایف کا نام سن کر سب کے اوسان خطا ہوگئے اور معاملہ پر آئی ایم ایف سے رجوع کرنے کا فیصلہ ہوا۔ اس ساری بھاگ دوڑ کا محور صرف چار سو یونٹ تک کے صارفین کے لیے رعایت تھی۔ یعنی اصل مسئلے پر توجہ ہی نہیں تھی یہ بھی آئی ایم ایف کی طرف دھکیل دیا گیا۔ اسے اجلاس بے نتیجہ رہا کی سرخی کے ساتھ خبروں میںجگہ دی جارہی ہے لیکن یہ اجلاس بے نتیجہ نہیں رہا اس کا نتیجہ یہی ہوتا تھا۔ جب حکمرانوں کے اندر عوام کی فلاح، ان کے لیے کسی قسم کا ریلیف اور ان کے لیے کسی قسم کا درد ہوگا تو کوئی نہ کوئی نتیجہ اجلاسوں کا برآمد ہو ہی جاتا ہے۔ یہ بات یقین سے کہی جاسکتی ہے کہ وزرا، بیوروکریٹس اور طاقتور اداروں کو ریلیف دینے کے لیے کسی مسئلے پر اجلاس ہوتا تو چند لمحوں میں تنخواہوں اور مراعات میں اضافے کا فیصلہ ہوتا اور اجلاس کا نتیجہ سامنے آجاتا۔ اصل مسئلہ مفت بجلی کا تھا اس پر فیصلہ کرنے کے لیے تو آئی ایم ایف سے منظوری نہیں لنی تھی اس کے لیے کس سے منظوری لینی تھی اس کا نام بتانے کی بھی منظوری نہیں ہے۔ ایسے حکمرانوں اور ایسے نگرانوں سے کسی خیر کی توقع کیسے ہوسکتی ہے۔ یہ حرکتیں تو عوام کو مزید مشتعل کرنے والی ہیں۔ حکمرانوں اور نگرانوں کو اچھی طرح معلوم ہے کہ اگر عوام مشتعل ہوگئے اور جلائو گھیرائو پر آگئے تو ان کو کہیں پناہ نہیں ملے گی۔ یہ لوگ تو لندن، امریکا، دبئی وغیرہ میں ڈیرہ جمالیتے ہیں لیکن عوامی غضب والا سیلاب طیاروں کو بھی روک لیتا ہے اور گھروں میں چھپے ہوئے مجرموں کو بھی نکال لاتا ہے۔ اس سے پہلے کہ پانی سر سے گزر جائے حکمران کوئی سنجیدہ فیصلہ کرلیں۔ اگر عوام کو اسکولوں کی فیس، مکان کے کرایہ اور گھر کے کھانے کے لیے پیسے میسر نہیں ہوں اور تنخواہوں سے زیادہ بجلی کے بل آنے لگیں تو لوگ اور کیا کریں گے۔ اس کے ساتھ ساتھ بجلی کے نرخوں میں مزید اضافے کی باتیں بھی ہورہی ہیں اور پٹرول و ڈیزل کی قیمتیں بڑھانے کی بھی، گویا اسے ہی جلتی پر تیل کا کام کہا جاتا ہے۔ ایسے حالات میں تو یہ حکمران اصل مینڈیٹ اور عوامی مسائل کے حل کی طرف نہیں آنے والے بلکہ ان کے انداز سے تو لگ رہا ہے کہ جب خوب ہنگامے ہوجائیں تو انتخابات ملتوی کرنے کا اعلان کردیا جائے گا اور شاید یہی ان کا مقصد بھی ہے۔