آئی جی پنجاب کی منطق اور غیر ملکی نیٹ ورک

396

انسپکٹر جنرل پولیس پنجاب ڈاکٹر عثمان انورنے کہا ہے کہ سانحی جڑانوالہ کے تانے بانے دشمن انٹیلی جنس ایجنسیوں سے ملتے ہیں ۔ شر پسندوں نے گھروں اور عبادت گاہوں کو نشانہ بنایا ۔ مسلمانوں اور مسیحی برادری کو لڑانے کی کوشش کی گئی ۔ واقعے میں ذاتی رنجش کا بھی دخل ہے ۔ اس کے ساتھ انہوں نے انکشاف کیا ہے کہ نیٹ ورک توڑد یا گیا ہے اور اب ایسے واقعا ت دوبارہ نہیں ہوں گے ۔ دشمن کے آلہ کاروں کو کیفر کردار تک پہنچانے کا وعدہ کرتے ہیں ۔ یکجا ہو کر یہ جنگ جیتیں گے کسی کو قانون ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں ہو گی ۔ آئی جی کا بیان تو بڑا زبر دست اور کسی ٹھنڈے کمرے میں بیٹھ کر لکھا گیا لگتا ہے ۔ کیا وہ یہ بتا سکتے ہیں کہ جب نیٹ ورک توڑدیا ہے ۔ دشمن انٹیلی جنس ایجنسیوں سے تانے بانے ملتے تھے اور سارے مجرم پکڑ لیے ہیں تو انصاف کبہو گا۔ اور یہ بات بھی بتا دیں کہ اب تو کسی کو قانون ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں ہو گی لیکن جڑانوالہ سانحے والے دن قانون ہاتھ میں لینے والوں کو کیوں چھوڑا گیا ۔ اس روز قانون کہاں سو رہا تھا ۔ مساجد کے لائوڈ اسپیکر سے اعلانات ہو رہے تھے تو قانون کوکیوں پتا نہیں چلا اور کیا صرف مسجد کے لائوڈ اسپیکر کا غلط استعمال روکاجا رہا ہے یا قرآن پاک کی بے حرمتی بھی روکی جا رہی ہے ۔آئی جی پنجاب کی پریس کانفرنس سے تو لگ رہا ہے کہ سانحات کے موقع پر معاملات سنبھالنا پولیس کی ذمے داری ہی نہیں ہے بعد میں پولیس اور ادارے اتنے چابکدست ہو جاتے ہیں کہ غیر ملکی ایجنسیوں کے نیٹ ورک بھی توڑ دیتے ہیں لیکن یہ نیٹ ورک بنتے کیو ںہیں ۔