پاکستان کا نقشہ تو پلٹ چکا

1191

وزیراعظم پاکستان نے گویا قوم کو ڈانٹ پلائی ہے کہ آئی ایم ایف پروگرام حلوہ یا لڈو پیڑا نہیں ہے ایک چیلنج ہے ہم نے ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر بڑھنے پر پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں کم کرکے عوام کو ریلیف دیا ہے۔ انہوں نے حیرت انگیز بات بتائی کہ عالمی منڈی میں پٹرولیم کی قیمتیں کم نہیں ہوئی ہیں۔ انہوں نے دوسری حیرت انگیز بات یہ کی کہ اگر عوام نے نواز شریف کو دوبار موقع دیا پاکستان کا نقشہ بدل دیں گے۔ یہ بات حیرت انگیز ہی نہیں جھوٹ بھی ہے۔ وہ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ نواز شریف کو دوبارہ موقع دیا گیا۔ نواز شریف کو تو اب چوتھا موقع دیا جانے والا ہے یا اس کے آثار ہیں۔ اور حقیقت بھی یہی ہے کہ ایک آزاد پاکستان کا نقشہ بدل دیا گیا ہے۔ وزیراعظم جس آئی ایم ایف پروگرام پر عوام کو طعنے دے رہے ہیں کہ یہ حلوہ یا لڈو پیڑا نہیں چیلنج ہے تو پھر اس چیلنج کے ملنے پر بغلیں بجانے اور خوشیاں منانے کی کیا ضرورت تھی۔ وہ خود لڈو پیڑے اور حلوہ کھائیں اور ٹیکس عوام دیں ایسا لگتا ہے کہ ہمارے حکمرانوں نے اپنے عوام کو اتنا جاہل سمجھ رکھا ہے کہ وہ جو چاہے کہ دیں ان سے کوئی کچھ نہیں پوچھے گا۔ وزیراعظم ایسے دعوے کرکے یہ تاثر دینا چاہ رہے ہیں کہ اب اگر مسلم لیگ کو موقع ملا تو وہ ملک کو ترقی دے دیں گے۔ مگر کیسے ۔۔۔۔ اس سوال کا جواب ان کے پاس بھی نہیں ہے۔ یہی لوگ پہلے بھی حکمراں رہے ہیں اور اب بھی ہیں۔ اسحق ڈار صاحب ملک کے مسائل کا حل نکالنے آئے تھے اور آئی ایم ایف کے چیلنجنگ پروگرام میں قوم کو پھنسادیا ابھی تو اسٹینڈ بائی معاہدہ ہے جس کے تحت ملک کو تین ٹکڑوں میں 3 ارب ڈالر ملیں گے۔ اور اس کے نتیجے میں بجلی گیس کے نرخ بڑھاکر اسے اپنے عوام کے لیے چیلنج بنارہے ہیں البتہ ایک اعتبار سے یہ پروگرام چیلنج بننے جارہا ہے اور وہ یہ ہے کہ اب آئی ایم ایف نے حکومت سے رئیل اسٹیٹ اور زرعی شعبے پر ٹیکسوں کا منصوبہ طلب کیا ہے زرعی شعبہ تو اب تک صاف بچتا چلا آرہا ہے اور رئیل اسٹیٹ کے سارے دو نمبر کاغذی کاموں کا بھی پاکستان کی تمام عدالتوں کو پتہ ہے۔ بلکہ باقاعدہ رجسٹرار آفس اور عدالتوں میں یہ زبان استعمال کی جاتی ہے کہ مارکیٹ کی قیمت فلاں ہے جبکہ رجسٹری اتنی قیمت میں ہوئی ہے۔ مارکیٹ اور رجسٹرار کی قیمتوں کا فرق صرف ملک کو اور ٹیکس کے اہداف کو کم کرنے کے لیے استعمال ہوتا ہے خریدار اور بیچنے والے کو انکم ٹیکس دینا پڑتا ہے یہ دونوں تو ایک ارب کی جائیداد 25 کروڑ ظاہر کرکے اس کے مطابق ٹیکس دیتے ہیں لیکن ریاست کو 75 کروڑ کا ٹیکس نہیں ملتا۔ البتہ رئیل اسٹیٹ پر ٹیکسوں میں اضافے کا اثر بھی براہ راست عوام پر پڑے گا جو قسطوں میں زمین یا فلیٹ بک کرتے ہیں اور ان کو بھی زیادہ ادائیگی کرنا پڑے گی۔ ممکن ہے رئیل اسٹیٹ اور رجسٹرار آفس والے مزید ہیر پھیر کرکے قیمت مزید کم ظاہر کرکے اپنا ٹیکس تو بچالیں گے لیکن بوجھ عام خریداروں پر پڑے گا اور سب سے بڑا چیلنج زرعی ٹیکس کا ہے۔ آیا زرعی ٹیکس نافذ ہوگا یا نہیں۔ اس میں کیا کیا چور دروازے چھوڑے جائیں گے۔ یہ لوگ تو پہلے سے اس کی تیاریاں کررہے ہوں گے۔ زرعی زمینوں کی لاگت کاغذات میں کچھ مارکیٹ میں کچھ کریں گے۔ پیداوار کچھ ہوگی ظاہر کچھ کریں گے۔ اور سیلاب وغیرہ تو ان کے لیے نعمت بن جائیں گے۔ بڑے بڑے علاقوں کا ٹیکس معاف کردیا جاتا ہے کہ یہ سیلاب سے متاثرہ ہیں اب کون دیکھنے آرہا ہے کہ کون سا علاقہ کتنا متاثر ہوا ہے یہ بحث الگ چل رہی ہے کہ ملک کے دفاع کے ذمے داروں کو زرعی شعبے کا چیلنج پکڑا دیا گیا ہے اسے اپنا کام کرنے دیا جائے اس کو تین طرف سے خطرات ہیں اور ملک کے اندر نہ جانے کتنے خطرات چھپے ہوئے ہیں۔ جہاں تک زرعی ٹیکس کے ذریعے ملک کے محاصل میں اضافے کا منصوبہ ہے اس کو سننے اور دیکھنے میں اچھا لگتا ہے لیکن اگر پیپلز پارٹی آئی تو بھی اسمبلیوں میں زرعی شعبے والوں کی اکثریت ہوگی اور مسلم لیگ آئی تو بھی زرعی شعبے والوں کا غلبہ ہوگا۔ پی ٹی آئی سے تو حال ہی میں ان دونوں کے لوٹے ہی واپس لوٹ رہے ہیں یا کہیں اور لڑھک رہے ہیں لیکن وہ اس شعبے کے بھی تھے تو یہ کیسے ممکن ہے کہ یہ لوگ اپنے اوپر ٹیکس لگائیں گے جو لوگ ڈیفالٹ ہونے والے ملک کے ارکان پارلیمنٹ کی مراعات میں بے تحاشہ اضافہ کرتے ہیں چیئرمین سینیٹ اور سابقہ چیئرمینوں کے معاملے میں بھی وسعت قلبی کا مظاہرہ کرتے ہوں وہ اپنے شعبے پر کیونکر ٹیکس لگائیں گے۔ اس اعتبار سے یہ چیلنج ہے لیکن یہ نئی حکومت پر چھوڑا جائے گا۔ دیکھنا یہ ہے کہ نئی حکومت میں زرعی شعبے سے کتنے لوگ آتے ہیں اور عوام کے حقیقی نمائندے کتنے آتے ہیں۔