داغ دار ماضی کے قصے

1059

نوے کی دہائی کے آخر میں شہید محترمہ بینظیر بھٹو کی میڈیا سے کی گئی گفتگو دلچسپی سے خالی نہیں۔ اس گفتگو میں بیان کردہ حقائق سے پہلے ایک اور قصہ سن لیجیے۔ یہ نواز شریف کی وزارتِ عظمیٰ کا پہلا دور تھا۔ محترمہ بینظیر بھٹو شہید نے انتخابی دھاندلیوں پر ایک وائٹ پیپر شائع کیا۔ جب کہیں کوئی شنوائی نہ ہوئی تو پھر احتجاج کا راستہ اپنانے کا فیصلہ کیا۔ محترمہ بے نظیر بھٹو شہید نے حکومت کیخلاف ٹرین مارچ کا اعلان کیا تو حکومتی صفوں میں پریشانی کے آثار نمایاں ہوئے۔ ٹرین مارچ کو ناکام ثابت کرنے کے لیے میڈیا کو بطور ہتھیار استعمال کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ حاجی اکرم سیکرٹری اطلاعات تھے، انور محمود غالباً پی آئی او اور اشفاق گوندل ان کے جونیئر تھے جبکہ عبد الستار لالیکا کے پاس اطلاعات کی وزارت تھی۔ حکومتی اکابر نے بتایا کہ ہمارے لیے سب سے پریشان کن حالات لاہور کے اخبارات پیدا کر سکتے ہیں۔ اجلاس میں عبد الستار لالیکا نے اپنے کلاس فیلو اشفاق گوندل سے کہا ’’حضور سامان باندھیں اور لاہور جائیں‘‘۔ اشفاق گوندل لاہور چلے گئے۔ چمبہ ہائوس لاہور میں ڈیرے لگ گئے۔ اشفاق گوندل نے پورا زور لگایا اخبارات میں ذاتی مراسم استعمال کیے۔ اشتہارات کا قصہ الگ مگر ذاتی مراسم نے کام کر دکھایا، یوں لاہور کے اخبارات نے ٹرین مارچ ناکام ثابت کر دیا۔ لاہور کے ایک بڑے اخبار کے جیالے ایڈیٹر نے بھی ٹرین مارچ کی ناکامی کی سرخی جمائی۔ رات گئے وہ کاپی بھیج کر سیدھا چمبہ ہائوس آیا اور اس نے اشفاق گوندل سے کہا ’’آپ نے مجھ سے ظلم کروا دیا ہے‘‘ پھر وہ ایڈیٹر اشفاق گوندل کو نہاری کھلانے کے لیے لے گیا۔ یوں اچھا بھلا ٹرین مارچ میڈیا کے زور پر ناکام ثابت کر دیا گیا۔ اشفاق گوندل کام مکمل کر کے اسلام آباد آ گئے کہ ایک دن عبدالستار لالیکا کا فون آیا کہ وزیراعظم بہت خوش ہیں، آپ سے ملنا چاہتے ہیں۔ وزیراعظم ہائوس تشریف لے آئیں۔ اشفاق گوندل پہنچے تو نواز شریف واقعی بڑے خوش تھے۔ وہ اشفاق گوندل کو لان میں لے گئے اور پوچھنے لگے’’ کتنے پیسے لگے ہیں؟‘‘ اشفاق گوندل نے جواب دیا’’ سر! اٹھاسی ہزار‘‘۔
نواز شریف حیران ہوئے۔ ’’بس اٹھاسی ہزار! اتنے کم؟‘‘ اشفاق گوندل نے کہا ’’جی سر، آپ اس میں دو ہزار مزید شامل کر لیں نوے ہزار سمجھ لیں‘‘۔ اس پر نواز شریف نے کہا ’’آپ مجھے 5 کروڑ کہتے تو زیادہ خوشی ہوتی۔ آپ نے اتنا بڑا کام اتنے کم پیسوں میں کیسے کر لیا؟‘‘ اشفاق گوندل نے جواباً کہا ’’سر میں نے ذاتی تعلقات کو استعمال کیا‘‘۔ نواز شریف مزید تفصیلات سنتے رہے اور پھر کہنے لگے ’’تمہیں چاہیے تھا کہ جیالے ایڈیٹر کی جیب میں پچاس لاکھ ڈال دیتے۔ آئندہ بھی تو کام ہے اور یاد رکھنا کسی کے لیے اپنے آپ کو کبھی نہیں بیچتے۔ اگر بیچنا ہی پڑے تو خود کو اپنے لیے بیچ ڈالو‘‘۔
یہ پرانا قصہ آپ کو اس لیے سنایا ہے کہ آپ کو معلوم ہو سکے کہ پاکستانی سیاست میں کیا کچھ ہوتا رہا۔ اب آجائیے شہید محترمہ بے نظیر بھٹو کی گفتگو کی طرف۔ محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کہتی ہیں کہ ’’کسی نے کہا رائیونڈ میں شفٹ ہونے کے بعد شریف فیملی کا ایک اجلاس ہوا جس میں انہوں نے طے کیا کہ ہمیں اقتدار کے لیے سہارتو جیسے بیس سال چاہئیں نہ کہ ضیاء الحق جیسے 11 سال۔ آپ لوگ تو جانتے ہیں کہ سیاست میں سہارتو کے خاندان نے معیشت کے شعبے کی تمام کلیدی جگہوں پر قبضہ کیے رکھا۔ مقصد یہ تھا کہ ہم بیس سال کے لیے سیاسی اور معاشی طاقت چاہتے ہیں۔ اجلاس میں یہ بات زیر بحث آئی کہ منصوبے کی راہ میں پانچ رکاوٹیں ہو سکتی ہیں۔ پہلی رکاوٹ اپوزیشن کی صورت میں پیپلز پارٹی، دوسرا خطرہ صدر مملکت کیونکہ اس زمانے میں آٹھویں ترمیم زندہ تھی، تیسرا خطرہ فوج، چوتھا عدلیہ اور پانچواں خطرہ میڈیا کو قرار دیا گیا۔ یہ پانچ نکاتی پروگرام ترتیب دیا گیا تاکہ قائد اعظم کے تصور پاکستان کو ختم کیا جا سکے اور اپنا ویژن مسلط کیا جا سکے۔ آپ پچھلے ڈھائی سال کو دیکھیں تو ان میں ایسے قوانین بنائے گئے جیسے چیف الیکشن کمشنر وہی سنے گا جو سیف الرحمن کہے گا۔ ہمارے ساتھ جو ہوا وہ آپ کے سامنے ہے۔ مجھ سمیت میرے خاندان پر مقدمات بنائے گئے۔ حتیٰ کہ گھر کے ملازمین کو بھی نہ بخشا گیا۔ یہ تو اللہ کا شکر ہے کہ اس نے ہمیں مقابلے کی ہمت دی۔ اسی پانچ نکاتی پروگرام کے تحت صدر کا اسمبلی توڑنے کا اختیار ختم کر دیا گیا اس کے بعد عدلیہ پر حملہ کیا گیا۔ حملہ آوروں کو نہ صرف لایا گیا بلکہ ٹیلی ویژن پر دکھایا گیا۔ بسیں بھر کر لائی گئیں۔ حکومتی وزراء حملہ آوروں کو شہ دیتے رہے۔ حملے کے نتیجے میں ججوں کو بھاگنا پڑا اور پھر نواز شریف نے اپنے ایک چہیتے جسٹس تارڑ کو صدر پاکستان بنا دیا۔ حالانکہ چیف الیکشن کمشنر نے جسٹس تارڑ کے کاغذات نامزدگی اس لیے مسترد کیے تھے کہ انہوں نے تکبیر رسالے میں جج کو دہشت گرد کہا تھا پھر اس کا اقرار بھی کیا تھا۔ اس کے نتیجے میں چیف الیکشن کمشنر کو جانا پڑا جبکہ تارڑ صدر بن گیا، جہانگیر کرامت نے نواز شریف کو بچایا کیونکہ جب صدر اور وزیراعظم کے تنازعے میں شدت تھی تو ایک ہفتے کے لیے معاملات کو جہانگیر کرامت نے ٹھنڈا کر دیا اسی ایک ہفتے میں نواز شریف کے بریف کیس چل گئے اور صورتحال بدل گئی۔ اس کے بعد محض تجویز دینے پر آرمی چیف جنرل جہانگیر کرامت کو برخاست کر دیا گیا۔ اس کے بعد اخبارات میں مسلم، جنگ، دی نیوز اور فرائیڈے ٹائمز کو نشانہ بنایا گیا۔ خاص طور پر روزنامہ جنگ پر پریشر تھا کہ چودہ صحافیوں کو نکال دو اور نواز شریف کی کرپشن پر کچھ نہ لکھو۔ اس طرح اداروں کو یرغمال بنانے کی کوشش کی گئی۔ میں اوورسیز پاکستانیوں سے کہتی ہوں کہ وہ اپنے اپنے ملکوں کے اراکین پارلیمنٹ کو خط لکھیں۔ حالات سے آگاہ کریں۔ نواز شریف کی کرپشن کا بتائیں آخر آئی ایم ایف سے ملنے والے 5 ارب ڈالر کہاں گئے؟‘‘
یہ اگرچہ ماضی کے قصے ہیں لیکن پیپلز پارٹی کی سینئر قیادت کی آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہیں۔ ہم تو آواز ہی بلند کر سکتے ہیں بقول ڈاکٹر خورشید رضوی
جس پھول کو دیکھوں یہی لگتا ہے کہ اس میں
اک رنج بھی رہتا ہے مسرت کے علاوہ