اپنے بہت ہی پیارے تحریکی ساتھیوں کے لیے

593

جماعت اسلامی سے تعلق گڑتی میں ملا، میرے دادا جان چودھری محمد اکبر گورایہ مرحوم جماعت اسلامی ضلع سرگودھا کے اس وقت کے ارکان میں سے تھے جب آنہ دو آنہ اعانت بہت بڑی اعانت سمجھی جاتی تھی عام طور پر لوگ پیسہ دو پیسہ ہی دیا کرتے تھے۔ جنرل ایوب کے دور حکومت میں لاہور میں جماعت اسلامی کے اجتماع پر جب فائرنگ ہوئی جہاں سید ابوالاعلی مودودیؒ نے تاریخی جملہ کہا کہ میں بیٹھ جاؤں گا تو پھر کھڑا کون رہے گا میں تحریک اسلامی کے پہلے شہید ہونے والے رکن کی شہادت کے وقت ان کے ساتھ پہرہ پر مامور تھے، اس اجتماع کی روداد اکثر نم آنکھوں کے ساتھ سنایا کرتے تھے۔ انتہائی سادہ، حلیم اور درد دل رکھنے والے درویش صفت انسان تھے۔ ان کی وجہ سے پورا گھرانہ ہی جماعت اسلامی سے وابستہ ہوا، تمام تحریکی رسالے باقاعدہ گھر آتے تھے، ہفتہ وار اجتماع اور مطالعہ قرآن کا اہتمام بڑے ذوق شوق سے کیا جاتا تھا۔ میرے والد محترم چودھری عبد الواحد گورایہ مرحوم اور چچا چودھری خالد اقبال گورایہ مرحوم بھی جماعت کی سرگرمیوں میں پیش پیش رہے، بچپن میں 1977 کی تحریک نظام مصطفی کے جلسے، جلوس، لاٹھی چارج و آنسو گیس سے ہم بھی مستفید ہوئے والد محترم چودھری عبد الواحد گورایہ مرحوم نے گرفتاری بھی دی اور چک 107 شمالی پولنگ اسٹیشن پر پیپلز پارٹی کے وزیر ریلوے چودھری حفیظ اللہ چیمہ کی طرف سے کی جانے والی دھاندلی کی کوشش میں سب سے بڑی رکاوٹ بھی بنے۔
بھائی عمیر یاسر گورایہ اور وسیم غلام باری گورایہ بھی اسلامی جمعیت طلبہ سے وابستہ رہے۔ راقم کی پھپھو اور ان کے بچے بلال بٹر، طلال بٹر، جمال بٹر بھی تحریک اسلامی کے سرگرم کارکن ہیں۔ اسی طرح راقم کے ننھیال و سسرال میں سے بھی بیش تر افراد جماعت سے وابستہ ہیں۔ ان حالات میں بچپن سے لڑکپن میں داخل ہوتے ہوتے راقم بھی اسلامی جمعیت طلبہ سے وابستہ ہوگیا، راقم کی خوش قسمتی اور شاید دادا جان کی دعاؤں کی تاثیر تھی کہ نوجوانی اسلامی جمعیت طلبہ کے ساتھ گزری۔ جہاں بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا، عظیم تحریکی ملکی و غیر ملکی رہنماؤں، علماء کرام و شہداء کے ساتھ وقت گزرا۔ بس انہی ایام کی بدولت اخروی کامیابی کی امید ہے۔ جواں عمری ہی میں اسلامی جمعیت طلبہ سے فراغت کے بعد جمعیتی کوٹے پر جماعت اسلامی کی رکنیت منظور ہو گئی اور خوش قسمتی کہ میرے دادا جان نے حلف لیا۔
تازہ جوش و جزبہ کے ساتھ جماعتی کام کرنے کی ترتیب بنا ہی رہا تھا کہ مرکز جماعت نے ناکردہ گناہ کی سزا دیتے ہوئے جماعت کی رکنیت سے فارغ کر دیا، الزام یہ تھا کہ میں البدر کا رکن ہوں۔ میں آج بھی یہ حلف دیتا ہوں کہ میں جماعت اور جمعیت کے علاوہ کسی اور تنظیم کا کبھی بھی رکن نہیں رہا۔ البتہ البدر کے موقف کو اس وقت بھی درست سمجھتا تھا اور اب بھی۔ شکر ہے اب اکابرین جماعت نے بھی دوبارہ رجوع کر لیا ہے اور میری طرح حق ناحق سزا پانے والوں کو اپنی صفوں میں دوبارہ شامل کرنا شروع کر دیا ہے۔ بھلا ہو ان تحریکی ساتھیوں کا جنہوں نے رابطہ نہ چھوڑا، اچھوت نہ سمجھا، ہمیشہ اپنا ہی سمجھا۔ اب جب بڑھاپے کی دہلیز پر پہنچا ہوں تو برادر محترم میاں محمد اویس قاسم تلہ نے دوبارہ حلف رکنیت پڑھوا دیا ہے، دعا ہے کہ یہ حلف بھی میری اُخروی کامیابی کا ذریعہ بنے۔
اس لمبی دوری کے بعد تحریکی حلقوں میں واپس آ کر جو میں نے فرق محسوس کیا ہے وہ یہ ہے کہ میرے پچھلے دور تک جماعت اور جمعیت میں عملی شمولیت سے زیادہ زندگیوں کو بدلنے کا درس ملتا تھا تنظیم کی محبت سے زیادہ بہترین باعمل مسلمان بننے کی جستجو رہتی تھی، خود کو اور دوسروں کو جہنم سے بچانے کا سوچا جاتا تھا۔ ہر پہلو اخروی کامیابی کے لیے ہوتا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ کم تعداد کے باوجود سب پہ بھاری تھے۔ ایک ایک رکن اپنی ذات میں انجمن تھا۔ بدقسمتی سے اب تنظیم کی محبت زیادہ اولیت اختیار کر گئی ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ وسائل اور تعداد میں کہیں زیادہ ہونے کے باوجود معاشرے میں ہم اپنا مقام کھو چکے ہیں۔ ہر کوئی اپنے سے بڑے کو خوش کرنے کی دوڑ میں ایڑی چوٹی کا زور لگائے ہوئے ہے۔ اسی حوالے سے ایک ساتھی کی تحریر فیس بک پر پڑھنے کو ملی من و عن پیش خدمت ہے۔
’’جماعت اسلامی اور اسلامی جمعیت طلبہ کی اپنی روایت اور تاریخ اتنی شاندار ہے کہ اس کا اعتراف اختلاف کرنے والے بھی کرتے ہیں لیکن اپنی حزب، تنظیم یا اجتماعیت سے عقیدت کا اظہار اپنے ہی پیاروں کی ستائش اور اپنی ہی یادوں پر فخر اعتدال سے بڑھ کر کہیں ایک سوشل کلب تو نہیں بنتا جارہا کہیں ماضی کی یادیں اور حسین لمحات ایسے تو نہیں کہ ہم تنظیم جو مقصد نہیں ذریعہ ہے اس کو ذرا زیادہ مرکزو محور بنا بیٹھے ہوں تنظیم تو اس لیے ہے کہ: اللہ کا تصور ہر وقت ہمارے ساتھ ہو، ہر روز سونے سے قبل ہم خود احتسابی کے عمل سے گزریں۔ سرکار دو عالم کی زیارت کے لیے ہم تڑپ رہے ہوں آپ کے اسم مبارک کو پڑھ کر سن کر اور بول کر لطف کی لہر پورے وجود میں دوڑ جائے، ہمارا قول اور عمل شہادت حق کا ترجمان ہو۔ تحریک اسلامی کی کئی سرگرمیوں کو اعتدال میں لا کر تعلق باللہ اور تعلق بالقرآن کی ایک پوشیدہ سی انفرادی پوٹلی تیار کرنا ضروری ہے روز محشر تنظیمیں اور جماعتیں نہیں افراد کی الگ الگ جوابدہی اس حال میں ہوگی کہ منہ پر مہر لگادی جائے گی ہاتھ اور پاؤں بولیں گے۔ ابھی بھی وقت ہے ہم اپنے آپ کو سدھار کر اپنے قول و فعل میں تضادات کو ختم کر کے اچھے جماعتی سے زیادہ اچھا مسلمان بننے کا راستہ اختیار کر کے معاشرہ میں کھوئی ہوئی ساکھ دوبارہ بحال کر سکتے ہیں‘‘۔