نئی حکومت کے لیے معاشی چیلنجز

740

تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد شہباز شریف نے پاکستان کے 23 ویں وزیراعظم کا حلف اٹھالیا ہے جس کے نتیجے میں غیر یقینی کے بادل جو پاکستانی فضائوں میں ایک ماہ سے چھائے ہوئے تھے وہ چھٹ گئے اور معیشت پر اس کا اثر یہ ہوا کہ اگلے ہی دن پاکستان اسٹاک مارکیٹ میں 1700 پوائنٹس کا اضافہ ہوا اور انڈیکس 46000 کی حد عبور کرگیا۔ مارکیٹ کی حالیہ تاریخ میں یہ ایک دن میں سب سے بڑا اضافہ ہے۔ اسی کے ساتھ روپے کی قدر میں اضافہ ہوا اور اضافے کا یہ سلسلہ جاری ہے۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ تجارت، معیشت اور کاروبار کے لیے مستحکم، پرامن اور پرسکون فضا کتنی ضروری ہے۔ لیکن ابھی بھی سب کچھ اچھا نہیں ہے، پاکستانی معیشت آندھیوں اور طوفانوں کی زد میں ہے جن سے بچا کر معیشت کی کشتی کو کنارے پر لے جانا نئے وزیراعظم کے لیے بہت بڑا چیلنج ہے۔ اس لیے آتے ہی انہوں نے اس طرف توجہ دی اور قومی اقتصادی مشاورتی کونسل (NEAC) بنانے کا اعلان کیا جس میں ملک کے معاشی ماہرین اور کاروباری افراد شامل ہوں گے۔
بڑے معاشی چیلنجز میں مالیاتی خسارہ، کرنٹ اکائونٹس خسارہ اور تجارتی خسارہ شامل ہیں۔ مالیاتی خسارے (fiscal deficit) کے بارے میں مفتاح اسماعیل کا کہنا یہ ہے کہ گزشتہ حکومت نے رواں مالی سال 2021-2022 کا بجٹ پیش کرتے ہوئے مالیاتی خسارے کا تخمینہ 4000 ارب روپے لگایا تھا لیکن اس کے بعد اخراجات جس لاپروائی اور بے دردی سے کیے گئے ان کی وجہ سے خدشہ ہے یہ خسارہ 6400 ارب روپے تک پہنچ جائے گا جو جی ڈی پی (GDP) کا 10 فی صد ہے، جب کہ ہدف 4 فی صد ہے، اس میں ایک اہم وجہ پٹرولیم مصنوعات اور بجلی پر سبسڈی ہے، صرف پٹرول اور ڈیزل پر فی لٹر حکومت کو 30 سے 35 روپے کا بوجھ پڑ رہا ہے اور اس سلسلے کو آئندہ 3 ماہ تک جاری رہنا ہے جس کی مجموعی رقم 350 ارب روپے ہے۔ حال ہی میں عالمی بینک نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ بڑے مالیاتی خسارے سے بچنے کے لیے یہ سبسڈیز ختم کی جائیں اور نئی حکومت کو یہ کڑوی گولی بہت جلد نگلنی پڑے گی۔ مالیاتی خسارے کے بڑھنے سے قرضوں میں بھی اضافہ ہوا جن کا مجموعی حجم 43000 ارب روپے ہوگیا ہے جو جی ڈی پی کے 70 فی صد ہیں۔ ان قرضوں کی واپسی کے لیے پاکستان کو اگلے سال 20 ارب ڈالر کی ضرورت ہوگی، جب کہ اس وقت اسٹیٹ بینک میں غیر ملکی ذخائر کی سطح 11 ارب ڈالر ہے اور ذخائر کے گرنے کی وجہ بھی بیرونی قرضوں کی ادائیگی ہے۔ عالمی ریٹنگ ایجنسی فچ کے مطابق پاکستان کو اپنے فارن ریزرو کو بڑھانے پر توجہ دینی ہوگی۔ اس سلسلے میں پاکستان نے آئی ایم ایف سے دوبارہ رابطہ کرنے کا عندیہ ظاہر کیا ہے اور اس معاملے میں پاکستان کو سخت شرائط ماننا ہوں گی۔ جن کو بہرحال عوام کو برداشت کرنا ہوگا جو پہلے ہی مہنگائی اور بے روزگاری سے نڈھال ہوئے ہیں۔ بے روزگاری میں کمی کے لیے اہم قدم اونچی معاشی ترقی کی شرح سمجھی جاتی ہے لیکن تمام عالمی اداروں کا اندازہ یہ ہے کہ رواں سال معاشی نمو کی شرح 4 سے 4.5 فی صد رہے گی۔
دوسرا معاشی سر درد تجارتی خسارہ ہے جو رواں سال کے 9 ماہ میں 35.4 ارب ڈالر ہوچکا ہے۔ ان 9 ماہ میں ملکی برآمدات 23.3 ارب ڈالر جبکہ درآمدات 58.7 ارب ڈالر تک چلی گئیں۔ عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمتوں میں اضافے، آٹوموبائل، مشنری، ویکسی نیشن اور پام آئل کی درآمدات کے باعث درآمدی بل تخمینہ سے آگے چلا گیا جبکہ برامدات میں اس رفتار سے اضافہ نہ ہوسکا۔ پورے سال کے لیے برآمدی ہدف 31.2 ارب ڈالر اور سروس برامدات کا ہدف 7.5 ارب ڈالر ہے۔ اگر یہ پورا ہو بھی جائے تو تجارتی خسارہ 45 ارب ڈالر تک پہنچنے کا امکان ہے اور تجارتی خسارہ (trade deficit) کے باعث کرنٹ اکائونٹ خسارہ بھی بلند ہونا شروع ہوجاتا ہے اور عالمی ریٹنگ ایجنسی فچ کے مطابق یہ خسارہ جی ڈی پی کے چار فی صد تک ہوسکتا ہے، اس کے باعث پاکستانی کرنسی پر دبائو پڑتا ہے اور روپے کی قدر کم ہونا شروع ہوجاتی ہے اور اس کا پھل پاکستان کو مہنگائی کی شکل میں ملتا ہے۔