سیاسی غیر یقینی اور ملکی معیشت

357

متحدہ اپوزیشن کی جانب سے وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد قومی اسمبلی میں جمع کرائے ہوئے تین ہفتے سے زائد ہوچکے ہیں اس دوران حکومت کی توجہ اپنے اتحادیوں کو اپنے ساتھ جوڑے رکھنے پر رہی جبکہ متحدہ اپوزیشن کو جہاں جہاں ایم این اے مل سکتے تھے ان کو چارہ ڈالتی رہی، اس سے ملک کی فضا غیر یقینی کا شکار رہی ایسے ملک میں جہاں معیشت پہلے ہی مصنوعی آکسیجن پر چل رہی ہو غیر یقینی کا نتیجہ سوائے تباہی کے کچھ نہیں۔ اسی دوران وزیراعظم عمران خان نے اپنی حکومت بچانے کی خاطر پنجاب کی وزارت اعلیٰ، اپنے پسندیدہ وزیر اعلیٰ عثمان بزدار سے لے کر چودھری پرویز الٰہی کو دینے کا اعلان کردیا۔ اس سے وفاقی حکومت کے ساتھ ساتھ ملک کے سب سے بڑے صوبے میں بھی ہلچل، اکھاڑ پچھاڑ اور تبدیلی کا ماحول پیدا ہوگیا ہے۔ چناں چہ تین ہفتوں سے بڑی سرمایہ کاری کا عمل تعطل کا شکار ہوگیا ہے۔ سرکاری افسران اہم فائلوں پر دستخط کرنے کے بجائے ’’دیکھو اور انتظار کرو‘‘ کی پالیسی اپنائے ہوئے ہیں۔ سرکاری محکموں اور اداروں میں کام ٹھپ ہوگیا ہے، سرکاری ملازمین کام کرنے کے بجائے اہم پوزیشنوں پر تبادلے کرانے میں مصروف ہوگئے ہیں۔ تین چار ہفتوں سے کابینہ کی میٹنگ نہ ہوسکی، ابھی حالیہ ایک میٹنگ ہوئی ہے اس کا موضوع بھی تحریک عدم اعتماد ہی تھا۔ اس کے علاوہ سالانہ وفاقی بجٹ سال 2021-2022 کا وسط مدتی جائزہ میٹنگ نہیں ہوسکی۔
اسی دوران وزارت خزانہ اور آئی ایم ایف کی ملکی معیشت اور مالیاتی امور پر بات ہوئی لیکن آئی ایم ایف کی زیادہ توجہ وزیراعظم کے امدادی پیکیج برائے پٹرول اور بجلی پر رہی اور آئی ایم ایف اس کا کھوج لگانے میں مصروف ہے کہ اس پیکیج کے لیے رقم کہاں سے آئے گی۔ پٹرول کی قیمت میں 10 روپے کمی کرنے سے آئل مارکیٹنگ کمپنیوں کی طرف سے قیمتوں کے فرق پر ادائیگی کے حکومت سے مطالبے بڑھ گئے ہیں جس کے لیے وفاقی حکومت نے 20 ارب روپے آئل کمپنیوں کو جاری کردیے ہیں۔ حکومت نے اس فرق کا تخمینہ اس بنیاد پر لگایا تھا کہ عالمی مارکیٹ میں آئل کی قیمت 95 ڈالر تک ہوگی اور ڈالر 177 روپے کا ہوگا۔ لیکن آئل کی قیمت 120 ڈالر تک چلی گئی تھی اور ڈالر بھی مزید مہنگا ہوگیا۔ اوپن مارکیٹ میں 183 روپے کا ہوگیا اس سے مالیاتی خسارہ بڑھ گیا۔
اسی طرح جولائی سے لے کر 25 مارچ 2022ء تک روپے کی قدر میں 15 فی صد کمی آئی ہے جس سے ملکی معیشت کے اندرونی اور بیرونی شعبے سخت دبائو کا شکار ہیں اور اس سے تجارت، صنعت اور زراعت سب پر منفی اثر پڑے گا۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ ایک تو بیرونی قرضوں کی واجب الادا رقم ادا کی گئی ہے۔ اسی کے ساتھ اسٹاک مارکیٹ میں بیرونی سرمایہ کاری ختم کرکے فنڈ باہر بھجوادیے گئے ہیں۔ مزید یہ کہ عالمی مارکیٹ میں تیل مہنگا ہونے سے درآمدی بل بڑھتا جارہا ہے اور اسی وجہ سے اسٹیٹ بینک میں ڈالر کے ذخائر میں کمی آئی ہے جن کا حجم 25 مارچ تک 21.4 ارب ڈالر رہ گیا ہے اور اس میں اسٹیٹ بینک اور کمرشل بینکوں کے ذخائر شامل ہیں اگر یہی رجحان رہا تو درآمدات کی ادائیگی مشکل ہوجائے گی جبکہ ترسیلات زر کے حجم میں اضافہ نہیں ہورہا۔ اسی طرح آئی ایم ایف کی جانب سے اگلی قسط کا معاملہ تاخیر کا شکار ہوگیا ہے۔ یہ تمام امور معیشت کے بیرونی سیکٹر کو مشکلات کی طرف لے جارہے ہیں۔ دوسری طرف تحریک عدم اعتماد کے معاملے میں اپوزیشن کو واضح اکثریت حاصل ہوگئی ہے اور شہباز شریف کے وزیراعظم بننے کے امکانات روشن ہوگئے ہیں۔ لیکن غیر مستحکم صورت حال کو استحکام لانے میں مزید وقت لگے گا جو ملکی معیشت کے لیے اور عوام کے لیے تباہ کن ہوگا۔