اسلامی تعاون تنظیم کے قدرتی اور انسانی وسائل

763

اسلامی تعاون تنظیم (OIC) کا دو روزہ وزرائے خارجہ کونسل کا 48 واں اجلاس، جو پاکستانی سیاست کی غیر یقینی کے سائے میں اسلام آباد میں منعقد ہوا جس میں 46 ممالک کے وزرائے خارجہ شریک ہوئے اور اُن کے علاوہ اس اجلاس میں چین کے وزیر خارجہ بھی شریک ہوئے۔ اس اجلاس کا موضوع ’’اتحاد، انصاف اور ترقی کے لیے شراکت کی تعمیر‘‘ تھا۔ اس اجلاس میں امت مسلمہ کے دیرینہ اور سلگتے ہوئے مسائل، جن میں فلسطین کی تحریک آزادی، کشمیریوںپر بھارتی مظالم، افغانستان کی صورت حال، دہشت گردی اور اسلاموفوبیا، برما کے مسلمانوں کی حالت زار، پاکستان پر بھارتی میزائل کا حملہ وغیرہ جیسے ایشوز پر تمام وزرائے خارجہ نے اظہار خیال کیا اور ان مسائل کے حل کے لیے مشترکہ کوششوں کو برائے کار لانے پر زور دیا گیا۔ مزید یہ کہ روس اور یوکرین کے تنازعے کے لیے حل کے لیے مختلف آپشنز پر غور کیا گیا اور اس دو روزہ اجلاس کے اختتام پر ’’اسلام آباد اعلامیہ‘‘ کے نام جاری ہونے والے بیان میں تمام ممالک کی جانب سے ان مسائل کے نمٹنے کے لیے حمایت جاری رکھنے، 15 مارچ کو اسلاموفوبیا کا دن منانے کی تجویز کا خیر مقدم کیا گیا۔
اسلامی تعاون تنظیم جو 25 ستمبر 1969ء کو مسلم ممالک کے مسائل کی مشترکہ آواز بننے اور ان کے مفادات کے تحفظ کے لیے قائم کی گئی تھی اور اس کا مقصد دنیا میں امن اور ہم آہنگی پیدا کرنا تھا۔ لیکن یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ ڈیڑھ ارب سے زائد مسلمانوں کی اس تنظیم جس میں 57 اسلامی ممالک شامل ہیں کے باوجود فلسطین اور کشمری کے مسائل، برما کے مسلمانوں کے ساتھ انسانیت سوز مظالم، بوسینیا کے مسلمانوں کا قتل عام، عراق پر 20 مغربی ممالک کا حملہ اور افغانستان کی تباہی جیسے ایشوز پر کوئی موثر اور طاقتور کردار ادا نہیں کیا۔ چناں چہ مسائل آج بھی جوں کے توں ہیں۔
اسلامی تعاون تنظیم، جو اس وقت 57 ممالک پر مشتمل ہے، چاروں براعظموں میں پھیلی ہوئی ہے، دنیا کی 25 فی صد آبادی اس تنظیم کے ساتھ ہے جسے خدائے بزرگ و برتر نے بہترین انسانی اور قدرتی وسائل سے نوازا ہے۔ دنیا کے 65 فی صد تیل کے ذخائر اسلامی ممالک کے پاس ہیں۔ مزید یہ کہ توانائی کی دوسری شکل قدرتی گیس کے 50 فی صد ذخائر ان ممالک کو عطا کیے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ اہم زرعی پیداوار میں اسلامی ممالک کا نمایاں حصہ ہے، جن میں پٹ سن، ربڑ، اجناس، کپاس اور گنا شامل ہیں۔ آبادی کے لحاظ سے ترقی یافتہ ممالک میں نوجوانوں کا تناسب 28 فی صد جبکہ اسلامی ممالک میں 53 فی صد ہے۔ ان نوجوانوں کو تعمیری اور مثبت انسانی وسائل میں ڈھالنے کے لیے اعلیٰ تعلیم، ہنر اور تربیت کی ضرورت ہے۔ جب کہ اسلامی ممالک کے صرف 18 فی صد نوجوان اعلیٰ تعلیم حاصل کرپاتے ہیں جب کہ ترقی یافتہ ممالک میں یہ تناسب 77 فی صد ہے۔
اسلامی ممالک کو معاشی حجم کے لیے دیکھا جائے تو دنیا کی آبادی میں اس کا حصہ 25 فی صد ہے، جب کہ مجموعی قومی پیداوار (GDP) کے لحاظ سے یہ دنیا کا صرف 11 فی صد ہے۔ قدرتی وسائل سے مالا مال ہونے کے باوجود پیداواریت کا انتہائی کم تناسب ان ممالک کی صنعتی پسماندگی، معاشی کمزوری اور ناقص منصوبہ بندی کو ظاہر کرتا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق زراعت، صحت، ماحول، تعلیم اور ذرائع ابلاغ کے شعبوں میں اسلامی ممالک کو سائنسی اور ٹیکنالوجی میں ترقی اور پیشرفت پر بھرپور توجہ دینی چاہیے۔ ٹیکنالوجی کے میدان میں ملائیشیا، کرغستان، ایران اور یو اے ای نے تسلی بخش پیشرفت کی ہے، لیکن باقی ممالک بہت پیچھے ہیں۔ معیشت کے تمام شعبوں میں ترقی اور بہتری کے لیے جدید ٹیکنالوجی کا کردار بہت اہم ہے جس کی مدد سے قدرتی اور انسانی وسائل سے تعمیری کام لیا جاسکتا ہے اور آج کے دور سے اسی طرح معاشی خوشحالی آسکتی ہے۔