شوکت ترین صاحب! قرضے لینا بند کریں

362

عمران خان کے وزیرِ خزانہ شوکت ترین نے اطلاع دی ہے کہ ہماری خارجہ پالیسی آزاد نہیں ہے‘ امریکا کے زیر اثر ہے۔ انہوں نے انکشاف اعتراف یا ڈھٹائی کے ساتھ بتایا کہ ہم جب تک قرضے لیتے رہیں گے معاشی طور پر آزاد نہیں رہیں گے۔ تو جناب شوکت صاحب! حکمران شان و شوکت دکھانے کے بجائے اپنے ملک کے معاملات کفایت شعاری سے چلائیں۔ ہمیں تو یہ حکم کہ ’’فلاح پا گیا وہ جس نے اقتصاد سے کام لیا۔‘‘ یعنی اعتدال اور کفایت شعاری کا طریقہ اختیار کرنا وزیر موصوف بتائیں کہ کون کہتا ہے کہ قرضے لو…؟ آپ قوم میں اپنا اعتماد پیدا کریں۔ اگر قوم ایک پتھر پیٹ پر باندھ کر زندگی گزار رہی ہو تو سربراہ دو پتھر باندھے ہوئے ہو۔ ایسی مثال تو پیش کریں۔ یہاں تو شکوہ ہے کہ 8 لاکھ میں بھی گزارا نہیں ہوتا۔ اوپر کے اخراجات الگ ہیں۔ وزیروں کی فوج کے الگ بیورو کریسی کے الگ۔ اور خفیہ اور چھپے ہوئے الگ ہیں۔ وزیر خزانہ کی بات کی تصدیق اسی روز کے اخبارِ جنگ سے ہوتی ہے جس میں امریکی قونصل جنرل نے کہا ہے کہ پاکستان کو 2018ء سے 2020ء تک سب سے زیادہ امداد دی ہے۔ اس کے بعد انہوں نے امریکی احسانات گنوائے ہیں۔ اس کیا جواب دیا جاسکتا ہے۔ امریکی قونصل جنرل نے تو طلبہ‘ صحت‘ سماجی شعبے میں امریکی امداد کی فہرست گنوا دی۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ سرمایہ وہیں لگتا ہے جہاں قواعد شفاف ہوں۔ یہ حیرت انگیز بات ہے پاکستان میں کہاں قواعد شفاف ہیں بلکہ بیشتر مواقع پر قواعد ہی نہیں ہوتے۔ اس کا اصل مطلب یہ ہے کہ امریکا جن شعبوں میں امداد دے رہا ہے ان سب سے وہ خود فائدہ اٹھاتا ہے۔ اگر امریکی امداد سے سالانہ 8 سو طلبہ اور پیشہ ور افراد امریکا جاتے ہیں تو ان کا 90 فیصد امریکی مشینری چلانے میں استعمال ہو جاتے ہیں جہاں جہاں جامعات میں امریکا شراکت کر رہا ہے اور انگریزی سکھا رہا ہے وہاں ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے کیوں کہ جس سے امداد اور قرض لیتے ہیں اس کی ماننی بھی پڑتی ہے‘ وہ انگریزی ہی کیوں سکھا رہے ہیں؟ پنجاب کی جامعات کیا انگریزی نہیں سکھا سکتیں۔ اصل معاملہ یہی ہے کہ غلاموں کو اپنا سبق پڑھایا جاتا ہے۔ شوکت ترین صاحب! پہلے قرض اور امداد لینا بند کریں ساری پالیسیاں آزاد ہو جائیں گی۔