ایک اور سانحہ اور ’’کہا نامہ‘‘

777

پاکستان کے ملکہ کوہسار سیاحوں کی جنت مری میں جمعہ اور ہفتے کو ایک سانحہ گزر گیا اس کے بعد پاکستانی حکمرانوں کا روایتی کہا نامہ شروع ہو گیا حکومت کی جانب سے وزیراعظم نے تحقیقات کا حکم دے دیا۔ شیخ رشید نے اطلاع دی کہ شام تک ٹریک بحال کر دیا جائے گا۔ فواد چودھری، شہباز گل اور دیگر کا زور اس امر پر تھا کہ سیاح غلط کر رہے تھے ان کو جانا نہیں چاہیے تھا۔ اپوزیشن کے لیڈر شہباز شریف نے کہنا شروع کیا اور حکومت کو ذمے دار قرار دیا۔ مریم نواز نے کہا ہے کہ حکومت نے الرٹ کے باوجود کوئی اقدام نہیں کیا۔ اب تحقیقات ہوگی شاید ایک دو ڈپٹی کمشنرز معطل ہو جائیں۔ پھر انہیں کہیں اور تعینات کر دیا جائے گا۔ تحقیقات تو کبھی ختم نہ ہونے والے عمل کو کہتے ہیں۔ بے نظیر بھٹو کا قتل ہو، لیاقت علی خان کا قتل ہو، پاکستان کے خلاف الطاف حسین کی تقریر ہو یا ججوں پر حملہ کیس ہو۔ سب کی تحقیقات کافی اور شافی طریقوں سے جا ری ہیں۔ ایک طرف یہ حکمران ہیں اور (اپوزیشن بھی ان ہی میں شامل ہے کل کو وہ پھر حکمران بن سکتی ہے) جو صرف بیان بازیاں کر رہے ہیں اور دوسری طرف جماعت اسلامی نے مری میں دختران اسلام اکیڈمی میں ریسکیو سینٹر قائم کر دیا۔ تمام علاقوں کے ذمے داروں کا تعین کرکے سب کے نام اور نمبروں سے سماجی میڈیا کے ذریعے عام کر دیا، مین اسٹریم یا مرکزی دھارے کا میڈیا کسی اور کے حکم پر بہتا ہے اس لیے اسے بھی نظر نہیں آیا۔ اور مری کے شاہد خاقان عباسی صاحب لاہور میں بیٹھ کر پریس کانفرنس کر رہے ہیں۔ کم ازکم گاڑی لے کر مری کے قریب ہی پہنچ جاتے۔ ان لوگوں کے پاس تفریح کے لیے ہیلی کاپٹر بھی ہیں یہ تو براہ راست جھیکا گلی کے ریسکیو سینٹرپر اُتر سکتے ہیں لیکن یہ لوگ صرف بیان بازی پر گزارہ کر رہے ہیں یہ برف اچانک نہیں پڑی اچانک 20 انچ نہیں ہو گئی، یہ کام 20 گھنٹے اور اب 36 گھنٹے گزرچکے صبح تک 48 گھنٹے سے زیادہ ہو جائیں گے۔ تمام اداروں کی جانب سے کہا جا رہا ہے کہ کریں گے وہ کریں گے لیکن کیا کر دیا اس کی اطلاع اب تک نہیں ملی۔ اب ذرا اس امر کا جائزہ بھی لے لیں کہ اگر محکمۂ موسمیات نے شدید برفباری کی پیش گوئی کر دی تھی تو بھی اس بحث میں کیوں پڑے ہوئے ہیں کہ اس نے 2 فٹ برف باری کا نہیں بتایا تھا شدید برف باری ہی کافی تھا۔ اس پر سوالات تو کھڑے ہو گئے ہیں لیکن ان سوالات کا جواب کبھی نہیں ملے گا۔ دو تین لوگ کو معطل کرکے کہیں اور تعینات کر دیا جائے گا۔ لیکن جو سوال نہیں اُٹھایا گیا وہ یہ ہے کہ حکومت اب کوئی مکینزم بنائے اور قوانین وضع کرنے کی بات کر رہی ہے۔ اس پر افسوس سے کام چل جائے گا یا ایسے لوگوںپر لعن طعن کی جائے۔ ان کو شرم نہیں آتی اتنے بڑے حادثے کے بعد قانون وضع کرنے کی بات کر رہے ہیں۔ اگر ان کو کچھ سمجھ میں آجائے تو وہ یہ تو سوچیں گاڑیاں کون گن رہا تھا اور کیوں۔ مری میں کتنی گنجائش ہے۔ ایک لاکھ گاڑیوں کا مطلب کم ازکم 5 لاکھ افراد۔ یہ چوکیاں جو گاڑیاں گن رہی تھیں کیا ان کے ذمے داروں کومعلوم تھا کہ مری میں برفباری سے راستے خراب ہیں۔ مری میں کتنی گنجائش ہے۔ کتنی گاڑیاں آسکتی ہیں، ہوٹلوں میں کتنی گنجائش ہے یہ سب اعداد و شمار حکومت کے پاس ہونے چاہیے تھے جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ اب قانون وضع کیا جائے گا انہیں ڈوب مرنا چاہیے۔ بلکہ انہیں غرق کر دینا چاہیے۔ لوگ کہتے ہیں کہ قازقسان جیسا ہنگامہ کیوں نہیں اُٹھا۔ مصر جیسا معاملہ کیوں نہیں ہوا۔ یمن اور تیونس والا معاملہ کیوں نہیں ہوا۔ اب یہ بات سمجھ لینے کی ضرورت ہے کہ پورے عالم اسلام میں عوامی تحریکوں اور لہروں کے پیچھے ایک ہی قوت ہوتی ہے۔ بڑی طاقتوں نے ہر ملک میں طاقتور ترین گروہ کو ٹاسک دیا ہوا ہے۔ آپ اسے برا بھی نہیں کہہ سکتے۔ غداری کا سر ٹیفکیٹ نکال کر دے دیا جائے گا۔ اسے بھی اتفاق کہا جاسکتا ہے کہ جب بھی پیپلز پارٹی، جماعت اسلامی اور دیگر جماعتیں حکومت کے خلاف یک آواز ہوتی ہیں کوئی حادثہ ہو جاتا ہے۔ یہ حادثہ کسی نے کرایا نہیں ہے بلکہ انہیں ان کے نتائج کا پتا نہیں تھا وہ یہی سمجھے کہ ساٹھ ستر ہزار گاڑیاں پھنسی رہیں گی دو تین دن بیان بازی اور ٹی وی چینلز کو منجن مل جائے گا لیکن ان کے منجن کی قیمت بہت زیادہ نکلی۔ یہ جو بات بات پر ترقی یافتہ ممالک کی بات کرتے ہیں۔ یورپ کے بھاشن دیتے ہیں ان سے پوچھیں کہ یورپ اور امریکا کو چھوڑیں۔ سعودی عرب اور امارات میں بھی گاڑیاں روک دی جاتی ہیں۔ دھند کی وجہ سے رات کو طائف سے جانے اور طائف آنے والی گاڑیوں کا راستہ بند کر دیا جاتا ہے۔ پولیس والے کھڑے ہو جاتے ہیں وہ گاڑیاں نہیں گنتے اور غیر قانونی طور پر گاڑیاں چھوڑ کر نوٹ بھی نہیں گنتے۔ یہ طائف سے ہدیٰ جانے والوں کو روک دیتے ہیں کہ آگے بارش اور لینڈ سلائیڈنگ ہے۔ امارات میں بھی پولیس عام سڑکوں پر بھی اور پہاڑی علاقوں میں جانے والی گاڑیوں کو روک لیتی ہے کہ ابھی لوگوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ آدھا ایک گھنٹہ رکنا پڑتا ہے۔ پولیس اوپر جا کر لوگوں کو نکالتی ہے تاکہ مزید سیاح آسکیں۔ لیکن ہمارے چالاک، ہوشیار، بیدار مغز حکمرانوں کو پتا ہی نہیں کہ کیا کرنا چاہیے۔ عربوں کو تو یہ لوگ مخ مافی کہتے ہیں اپنا حال دیکھیں تو شاید مافی انسان قرار پائیں۔ حکمرانوں میں پورے ملک میں ایک ہی نفسیات ہے کہ مال کہاں سے ملے گا اور زیادہ کہاں سے ملے گا۔ شاہد خاقان عباسی، عمران خان، جہانگیر ترین ان سب کے ہیلی کاپٹر کہاں گئے۔ ان کے ماہر پائلٹ کہاں گئے۔ جب وی آئی پی موومنٹ ہوتی ہے تو اسلام آباد سے ہی راستہ بند کر دیا جاتا ہے کہ صاحب لوگ مری کی سیر کو گئے ہیں۔ ان سب میں سے کوئی بھی ہو نواز شریف، شہباز شریف، خاقان عباسی، عمران خان اور پی ٹی آئی کے بڑے بڑے لوگ یہ صرف بندے پکڑنے کے کام پر مامور ہیں۔ ان کو انسانوں کا درد نہیں۔ ایک اطلاع ہے کہ ہوٹلوں نے 50 ہزار روپے فی کمرہ کرایہ کر دیا تھا لیکن دوسری خبر یہ ہے کہ ہوٹل مالکان نے اپنے ہوٹلوں میں رہائش کھانا وغیرہ فری کر دیا ہے۔ دوسری اطلاع زیادہ درست لگ رہی ہے ممکن ہے پہلے والی خبربرفباری سے پہلے کی ہو۔ لیکن ابھی جتنی بھی ہمدردی ہے عام لوگوں میں ہے۔ حکمران اس سے عاری ہیں ، اگر کارروائی کرنی ہے تو وزیر اعظم عمران خان کے خلاف کرنی چاہئیے جو کہہ رہے ہیں کہ لوگوں کو مری نہیں جانا چاہئے تھا ، یہ حکمران اپنے لیے تو سڑکیں بند کردیتے ہیںعوام کے تحفظ کا سوچتے ہی نہیں ، یہ اعلان کردیا گیا ہے کہ راستے کھول دئے گئے ہیں لیکن کیا ایسا ہی ہے ، اس اعلان کو چیلنج کون کرسکتا ہے ؟ اب تک ملک میں جتنے اس قسم کے اعلانات ہوتے ہیں ان سب پر سب یقین کرتے ہیں لیکن نتیجہ ایسا ہی آتا ہے۔