تین سالہ کاکردگی: خوش نما اعلانات و نعرے

316

نعروں اور تالیوں کی گونج میں پچھلے ہفتے وزیراعظم عمران خان نے جناح کنونشن سینٹر اسلام آباد میں اپنی حکومت کے تین سال پورے ہونے پر زبردست کارکردگی سے عوام کو آگاہ کیا۔ جن میں کچھ نئی باتیں اور زیادہ تر پرانی باتوں کو دہرایا گیا مثلاً کرنٹ اکائونٹ خسارہ 20 ارب ڈالر سے کم ہوکر 2 ارب ڈالر رہ گیا۔ فارن کرنسی کے ذخائر 16 ارب ڈالر سے بڑھ کر 27 ارب ڈالر ہو گئے۔ سالانہ ٹیکس وصولی 3800 ارب روپے سے بڑھ کر 4700 ارب روپے ہو گئی۔ بیرونی ترسیلات زر 20 ارب ڈالر سالانہ سے بڑھ کر 30 ارب ڈالر ہو گئیں۔ سستی رہائش فراہم کرنے کے لیے نیا پاکستان ہائوسنگ پروجیکٹ شروع کیا گیا۔ غریب لوگوں کو مالی امداد کے لیے احساس پروگرام جاری کیا گیا نوجوانوں میں صلاحیتیں بڑھانے کے لیے کامیاب جوان پروگرام کا آغاز کیا گیا۔ کراچی کے لیے 1100 ارب روپے کے پیکیج کا اعلان کیا گیا۔ دس ارب درخت لگانے کا منصوبہ بنایا گیا۔ اسپیشل اکنامک زون کا قیام عمل میں لایا گیا۔ ہماری ٹیم ناتجربہ کار تھی کامیابی کا راستہ بڑا کٹھن تھا لیکن ہم نے مستحکم ترقی کی بنیاد رکھ دی ہے اور عوام خوشحال ہو رہے ہیں۔
یہ سن کر پاکستانی عوام بڑے حیران و پریشان ہیں انہیں یہ ترقی اور خوشحالی نہ تو کھانے پینے کی چیزیں خریدتے وقت نظر آتی ہے۔ نہ ہی اپنی گاڑی یا موٹر سائیکل میں پٹرول ڈلواتے ہوئے نظر آتی ہے، نہ بجلی اور گیس کے بلوں میں اس کی جھلک ملتی ہے، نہ دوائیاں خریدتے ہوئے خوشحالی اور ترقی کے آثار نظر آتے ہیں۔ وہ تو یہ جانتے ہیں کہ گزشتہ تین سال میں دوائیوں کی قیمتوں میں 12 مرتبہ اضافہ ہوا ہے۔ پٹرول 90 روپے سے 120 روپے فی لیٹر ہو گیا ہے۔ مہنگائی کی شرح نے بلندی کے تمام ریکارڈ توڑ دیے ہیں پھر انہیں ایک کروڑ ملازمتیں کا اعلان یاد آتا ہے ساتھ ہی ساتھ 10 لاکھ گھروں کی تعمیر کا واشگاف دعویٰ ذہن میں آتا ہے۔
معاشی تجزیہ کار بتاتے ہیں گردشی قرضے 2200 ارب روپے ہو گئے ہیں جب کہ بیرونی قرضے 122 ارب ڈالر تک جا پہنچے ہیں رواں سال میں تجارتی خسارہ 20 ارب ڈالر متوقع ہے ڈالر کی قدر 166 روپے تک چلی گئی ہے۔
ایک طرف استحکام کے دعوے دوسری طرف تین سالہ دورِ حکومت میں 3 وزیرخزانہ تبدیل ہوئے، فنانس سیکرٹری بدلے گئے ایف بی آر جیسے اہم ادارے میں 8 مرتبہ اس کے چیئرمین ہٹائے گئے۔ اہم پوزیشن پر بار بار کی تبدیلی کے بعد ملک کیسے ترقی کر سکتا ہے۔ پھر فواد چودھری جیسے لوگ جنہیں غربت، مہنگائی اور بے روزگاری جیسے مسائل سے واسطہ نہیں پڑا فرماتے ہیں مہنگائی 27 فی صد جب کہ لوگوں کی آمدنی 37 فی صد بڑھی ہے ماہرین معاشیات کہتے ہیں کہ ملک میں بے روزگار افراد کی تعداد کورونا اور لاک ڈائون کے باعث 30 لاکھ سے بڑھ کر 80 لاکھ ہو گئی ہے کیونکہ ہزاروں چھوٹے کاروبار بند ہو گئے ہیں سالانہ فی کس آمدنی جو 2018ء میں تھی وہ 2021ء میں کم ہو گئی ہے لیکن وزیراعظم کے مشیر انہیں خوش کرنے کے لیے ایسی ہی باتیں سناتے ہی جو پرانی بادشاہتوں کے زمانے کے خوشامدیوں سے بڑھ کر ہیں۔
تاجر اور دیگر کاروباری لوگ بھوک ہڑتال اور دھرنوں کا اعلان کر رہے ہیں۔ ملک میں دو کروڑ بچے اسکولوں سے باہر ہیں۔ سرکاری عہدوں میں لوگ مثلاً ڈاکٹر وقار مسعود اور ڈاکٹر عشرت حسین مستعفی ہو رہے ہیں حکومت کو سب سے پہلے گورننس پر توجہ دینی چاہیے اس کے بعد آسمان سے باتیں کرتی ہوئی مہنگائی کو کم کرنا چاہیے ایسے پروجیکٹ شروع کرنا چاہئیں کہ جن میں ملازمتیں پیدا ہوں تا کہ لوگوں کے معاشی حالات بہتر ہوں ورنہ صرف خوش نما اعلانات سے پاکستانی عوام متاثر نہیں ہوں گے۔