روپے کی قدر میں عدم استحکام

618

آج کی دنیا میں مختلف ممالک کی معیشتوں کے استحکام و ترقی میں ان کی کرنسی کی دنیائے معیشت میں قدر وقیمت کا اہم کردار ہے اگر کرنسی کی قدر مستحکم ہے تو معیشت میں بھی استحکام آئے گا اور اس کا نتیجہ معاشی ترقی و بہتری کی شکل میں سب کو نظر آئے گا۔ اور اسٹاک مارکیٹ کے اتار وچڑھائو کی طرح کرنسی کی قدر وقیمت کا گراف بھی نشیب و فراز ظاہر کر رہا ہو تو وہ ملک لازماً عدم استحکام میں پھنسا رہے گا۔
اب اگر آپ پاکستانی روپے کی ڈالر میں قدر وقیمت کا ریکارڈ دیکھیں تو مئی 2021ء کے وسط میں ایک امریکی ڈالر 153 روپے کا تھا جون کے وسط میں 156 روپے کا ہو گیا۔ یہی امریکی ڈالر جولائی کے وسط میں 159 روپے کا فروخت ہوا اور اس کی قدر گرتے گرتے اگست کے وسط میں 164 روپے ہو گئی یعنی چار ماہ سے روپے کی قدر مسلسل گر رہی ہے اور اگر ہم مزید پیچھے چلے جائیں تو تین سال پہلے امریکی ڈالر 110 روپے کا تھا اور اس وقت تک روپے کی قدر چالیس پینتالیس فی صد گر چکی ہے۔ پاکستان کے مخصوص معاشی حالات میں روپے کی قدر گرنے کے بڑے تباہ کن اثرات ہوتے ہیں۔
مثلاً پاکستان پر دسمبر 2020ء تک بیرونی قرضوں اور واجبات کا حجم 115 ارب ڈالر تھا لیکن اگر اس قرضے کو پاکستانی روپے میں تبدیلی کیا جائے تو جیسے جیسے روپے کی قدر گرے گی پاکستانی روپے میں قرضہ بڑھتا جائے گا۔ دوسرے یہ کہ پاکستان کا درآمدی خام تیل کا سالانہ بل 10 ارب ڈالر ہے۔ جیسے جیسے روپے کی قدر کم ہوگی پاکستانی روپے میں پٹرول، ڈیزل، فرنس آئل وغیرہ مہنگا ہوتا جائے گا اس سے بجلی کی پیدواری لاگت میں اضافہ ہو گا جس سے مہنگائی میں اضافہ ہو گا اسی کے ساتھ ٹرانسپورٹ کے اخراجات بڑھیں گے نتیجتاً مزید مہنگائی بڑھے گی۔
روپے کی قدر میں استحکام لانے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ ملکی برآمدات میں اضافہ کیا جائے۔ سال 2020-21ء میں پاکستانی برآمدات کا حجم تقریباً 25 ارب ڈالر رہا۔ پاکستانی معیشت کی عالمی بینک کی تحقیق و تخمینے کے مطابق پاکستان میں 88 ارب ڈالر کی برآمدات کرنے کی سکت ہے اور اس سلسلے میں پاکستان کو دو مشورے دیتے ہیں ایک تو اشیائے برآمدات کی لسٹ میں اضافہ کیا جائے دوسری برآمدی مارکیٹوں میں وسعت لائی جائے۔ مثلاً پاکستان کے پانچ روایتی برآمدی سیکٹرز کے ساتھ ساتھ دوسرے سیکٹر پر بھی توجہ دی جائے۔ اس سلسلے میں وزیراعظم کے مشیر تجارت و سرمایہ کاری عبدالرزاق دائود کوششیں کر رہے ہیں وہ ادویات اور انجینئرنگ کی مصنوعات کو بیرونِ ملک برآمد کرنے میں اقدامات کر رہے ہیں۔ اسی سلسلے میں ابھی 5500 موبائل سیٹ پاکستان سے تیار ہو کر متحدہ عرب امارات برآمد کیے گئے ہیں۔انفارمیشن ٹیکنالوجی کی مصنوعات کو برامد کرنے کی پاکستان میں بڑی گنجائش ہے۔ پچھلے سال اس شعبے میں 2 ارب ڈالر کی برآمدات ہوئیں ان کو 5 ارب ڈالر تک لے جایا جا سکتا ہے۔ پھل اور سبزیوں کی برآمدات میں اسٹوریج کی سہولت فراہم کر کے اضافہ کیا جا سکتا ہے۔ سمندر اشیاء کی برآمدات میں بھی کافی اسکوپ ہے۔
اگر برآمدات بڑھانے پر بھرپور توجہ دی جائے۔ ٹھوس اقدامات کیے جائیں، برآمد کنندگان کے مسائل حل کیے جائیں۔ ریفنڈ کے معاملات طے کیے جائیں تو برآمدات میں خاطر خواہ اضافہ ہو سکتا ہے جس سے روپے کی قدر مستحکم ہو سکتی ہے۔ بیرونی امداد اور گرانٹ سے پاکستان آزاد ہو سکتا ہے۔ بے روزگاری میں کمی آئے گی اور ملکی معیشت ترقی کرے گی۔