بیرون امداد اور پاکستان

489

پچھلے دنوں وزیراعظم پاکستان جناب عمران خان نے کراچی میں شپ لفٹ اینڈ ٹرانسفر سسٹم کا افتتاح کیا اور افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے قوم کو یہ خبر دی کہ پاکستان ٹیکنالوجی کے شعبے میں آگے بڑھ رہا ہے۔ معیشت کی ترقی کے لیے ہمیں برآمدات بڑھانے اور منی لانڈرنگ روکنے پر توجہ دینی ہے۔ انہوں نے بیرون ملک مقیم پاکستانیوں سے اپیل کی کہ وہ بینکنگ چینل سے رقوم بھیجیں۔ پاکستان سیدھے راستے پر آچکا ہے ہم نے غیرملکی امداد پر انحصار کیا جس نے پاکستان کو کمزور کر دیا۔ غریب ممالک کا مسئلہ یہ ہے کہ کرپٹ حکمران پیسہ باہر بھیج دیتے ہیں اور ملک کمزور ہو جاتا ہے۔
جہاں تک غیرملکی امداد کا معاملہ ہے دنیا کے تمام ہی غریب اور کم آمدنی والے ممالک معیشت کی بہتری کے لیے، بھاری سرمایے کی منصوبوں کی تکمیل کے لیے اور ٹیکنالوجی کی سطح کو اوپر لانے کے لیے غیرملکی امداد کی طرف دیکھتے ہیں اس سلسلے میں دنیا میں ایک کمیٹی قائم ہے جسے برائے تعمیری امداد (DAC) کہا جاتا ہے اس کی فہرست میں جو ممالک شامل ہیں ان کو تعمیری ترقی (ODA) کی مد میں امداد دی جاتی ہے اس کے علاوہ کچھ کثیر القومی ادارے ہیں جن میں عالمی بینک اور آئی ایم ایف شامل ہیں وہ بھی ضرورت مند ممالک کو امداد دیتے ہیں۔
اس معاملے میں اگر پاکستان پر نظر ڈالی جائے تو قیام کے چند سال بعد ہی سے پاکستان کو مختلف منصوبوں اور اصلاحات کے لیے امداد ملتی رہی ہے۔ 1960ء سے لے کر 2019ء تک جو غیر ملکی امداد ملی وہ اوسطاً 1.15 ارب ڈالر سالانہ کے برابر ہے۔ 2015ء میں تعمیر و ترقی کی مد میں سب سے زیادہ امداد ملی جو 3.76 ارب ڈالر ہے۔ سال 2000ء سے پاکستان کے مخصوص اندرونی اور بیرونی حالات کے باعث اس امداد میں نمایاں اضافہ ہوا۔ اسی طرح دہشت گردی کے خلاف جنگ کے اکائونٹ میں امریکا کی جانب سے 18 ارب ڈالر ملے۔ پاکستان آئی ایم ایف کے مختلف پروگرامات میں شامل رہا ہے جس میں مجموعی طور پر 56 ارب ڈالر ٹرانسفر کیے گئے۔
پاکستان کو بیرونی امداد کے تناظر میں اگر دنیا کے امیر ممالک کا جائزہ لیا جائے تو جاپان شروع ہی سے سب سے زیادہ امداد دیتا ہوا نظر آتا ہے جس نے 1954ء سے پاکستان کی مالی امداد کرنا شروع کی جو عموماً صحت، نکاسی آب، تعلیم، زراعت، آب پاشی، توانائی اور ٹرانسپورٹ کے شعبوں میں بہتری کے لیے ہوتی ہے۔ 2005ء کے زلزلے نے پاکستان کے شمالی علاقہ جات میں جو تباہی مچائی اس موقع پر جاپان پیش پیش تھا۔
غیر ملکی امداد کا پاکستانی معیشت میں کیا کردار ہے کیا معاشی ترقی اور خوشحالی میں اس کا مثبت کردار ہے۔ اس پر ماہرین معیشت کی متضاد آرا سامنے آتی ہیں۔ اس موضوع پر مباحثے، مذاکرے، تحقیقی رپورٹس اور مضامین موجود ہیں جن سے پتا چلتا ہے کہ طویل المدت معاشی ترقی میں ان کا کوئی واضح کردار نہیں ہے جس کی ایک وجہ اس امداد کی فراہمی کا پیچیدہ عمل ہے جس کے کئی مرحلے ہیں۔ پہلے امداد پر مذاکرات، پھر دستخط، اس کے بعد مرحلہ وار ادائیگی اور آخر میں واپسی ہے اور ان مرحلوں میں پاکستانی ٹیم بدل جاتی ہے اور بعض اوقات حکومت تک بدل جاتی ہے جس کے نتیجے میں بدانتظامی، کرپشن، امداد کا غلط استعمال، منصوبوں کی لاگت میں اضافہ اور منصوبوں کی شکل و صورت میں تبدیلی شامل ہے۔ اور یہاں تک ہوتا ہے وقت پر منصوبہ پورا نہ کرنے کے باعث امداد دینے والے ادارے کو جرمانہ ادا کرنا پڑتا ہے اور قرض کی مع سود ادائیگی اس کے علاوہ ہے۔
چنانچہ ضروری ہے امداد لینے سے پہلے منصوبہ کا مکمل جائزہ، لاگت، مدت تکمیل کا صحیح تخمینہ لگایا جائے اور ایک ہی ٹیم اس پر مذاکرات کرے، ملنے والی رقم کو منصوبے پر لگایا جائے اور وقت مقررہ پر مکمل کیا جائے اس طرح امداد کا صحیح استعمال ممکن ہے۔