مچھ کا واقعہ: اہل کراچی یرغمال کیوں؟ ـ شبیر ابن عادل

672

کوئٹہ سے ستر کلومیٹر دور ضلع بولان میں مچھ واقع ہے، جہاں کوئلے کی کانیں ہیں اور خوبصورت ترین ریلوے اسٹیشن بھی واقع ہے، لیکن یہ ساری خوبصورتی اس وقت ماند پڑگئی، جب ۳؍جنوری کو کوئلے کی کان کے علاقے میں چند ظالموں نے یہاں کے گیارہ کانکنوں کے ہاتھ پاؤں باندھے، آنکھوں پر پٹیاں باندھیں اور انہیں گولیوں سے بھون ڈالا اور بعض کو ذبح بھی کیا۔ اس سفاکانہ واقع کی ذمے داری داعش کے ظالموں نے قبول کرلی۔ یہ بات بھی سامنے آئی کہ ملک میں اس انتشار کے پس پشت بھارت ہے۔

مرنے والوں کا تعلق ہزارہ برادری سے تھا، انہوں نے مین شاہراہ پر مرنے والوں کی میتیں رکھ کر احتجاج شروع کردیا اور پھر میتوں کو کوئٹہ لے کر آگئے اور انہیں سپرد خاک کرنے کے بجائے دھرنے میں رکھ کر بیٹھ گئے اور اس وقت سے احتجاج کا سلسلہ شروع ہوگیا ان کا مطالبہ تھا کہ وزیر اعظم ان سے ملاقات کرنے اور اس حوالے سے ان کی فریاد سننے کے لیے کوئٹہ میں ان کے دھرنے میں آئیں۔ چونکہ ان کا تعلق مسلک اثناء عشری (یا اہل تشیع) سے ہے اس لیے مچھ واقعہ کے متاثرین سے اظہار یکجہتی کے لیے کراچی میں دھرنوں کا سلسلہ شروع ہوگیا، مرکزی دھرنا نمائش چورنگی پر دیا جارہا ہے، جبکہ شہر کے تیس پینتیس مقامات پر دھرنوں کا سلسلہ جاری ہے۔ اس سفاکانہ واقعہ سے ملک بھر میں رنج اور الم اور دکھ کی لہر دوڑ گئی اور ہر آنکھ اشکبار ہوگئی تمام لوگ ان مظلوموں کے ساتھ ہیں اور ہر ایک غم وغصہ میں ہے۔ مگر چند سوالات غور طلب ہیں، وہ یہ کہ یہ احتجاج اور دھرنا کوئٹہ میں تو سمجھ میں آتا ہے مگر کراچی میں کیوں ہورہا ہے؟ اور اگر کسی مسلک کی طرف سے ہورہا ہے تو صرف کراچی ہی میں کیوں؟ ملک کے دیگر شہروں خاص طور پر لاہور، اسلام آباد اور پشاور میں کیوں نہیں ہورہا؟

کراچی ملک کی معاشی سرگرمیوں کا مرکز ہے جہاں ایک دن کی بندش سے کروڑوں روپے کا نقصان ہوجاتا ہے۔ اور ایک ہفتے سے جاری ان دھرنوں کی وجہ سے بھاری نقصان کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ دھرنوں کی وجہ سے پورا شہر مفلوج ہے کارخانوں، دفاتر، دکانوں اور بازاروں میں حاضری کم ہے اور وہاں کام کرنے والے خاص طور پر دہاڑی دار مزدوروں کو بھوک و افلاس کا سامنا ہے وہ پہلے ہی کمر توڑ مہنگائی سے پریشان تھے لیکن ان دھرنوں نے ان کا جینا دوبھر کردیا ہے۔

حیرت انگیز بات یہ ہے کہ انتظامیہ خود ان دھرنوں میں تعاون کررہی ہے ایک دھرنے میں چالیس پچاس سے زیادہ افراد نہیں ہوتے لیکن پولیس اور انتظامیہ اطراف کی تمام سڑکیں بند کردیتی ہے۔ یہ بھی تو ہوسکتا ہے کہ انتظامیہ دھرنے کے شرکاء کو سڑک کے کنارے فٹ پاتھ تک محدود کردے۔ کوئی سوچ اور کوئی دانش مندی کارفرما ہی نہیں۔ بس بلیک میلنگ ہی نظر آتی ہے، کیا کراچی کے شہریوں نے مچھ کے بے قصور کانکنوں کو سفاکی سے قتل کیا تھا؟ اگر نہیں تو انہیں کس قصور کی سزا مل رہی ہے؟ ان کے روزگار پر پہرے کیوں بٹھائے جارہے ہیں؟ اب تو بیماروں کو اسپتال لے جانے اور میتوں کو قبرستان لے جانے میں اتنی رکاوٹوں کا سامنا ہے کہ اللہ کی پناہ۔ ماضی میں بھی کوئٹہ میں بم دھماکوں پر ہزارہ برادری کے دھرنے کی حمایت میں کراچی میں دھرنے کرکے شہریوں کو اذیت اور انتقام کا نشانہ بنایا جاتا رہا۔ یہ کیسی اندھیر نگری اور چوپٹ راج ہے؟ اگر حکومت اس لاقانونیت کے ہاتھوں مجبور ہے تو وزیر اعظم پہلے روز ہی کوئٹہ جاکر ہزارہ برادری کے تمام مطالبات پورے کردیتے۔ تاکہ کراچی کے شہریوں کو یرغمال نہ بننا پڑتا۔