وژن 2030: یورپی اقدار کا چربہ

802

تُرک ادب سے ماخوذ ایک کہانی ہے، جس میں ایک لڑکی گھر کی حالت بیان کرتے ہوئے اپنے گھرانے کا موازنہ مرغیوں کے دڑبے سے کرتی ہے۔ وہ کہتی ہے کہ گھر میں میرے چھوٹے بہن بھائی اور والدہ ہیں۔ والد بہت سخت مزاج ہیں۔ دن بھر کام میں مصروف ہیں، لیکن جیسے ہی گھر میں آتے ہیں، قیامت آجاتی ہے۔ امی اور بچوں کو ڈانٹ ڈپٹ اور شور شرابہ۔ دوسری جانب مرغیوں کا دڑبا ہے، جہاں ایک مرغا اور کئی مرغیاں رہتی ہیں۔ مرغا ہر وقت ان کی کڑی نگرانی کرتاہے اور جب دیکھو کسی نہ کسی کو نوچ کھسوٹ کرتا دکھائی دیتا ہے۔ مرغے میں اور ابا میں کوئی فرق نہیں ہے۔ دونوں ہی اپنے ماتحتوں پر حکمراں بنے بیٹھے ہیں اور برتری جتلاتے ہیں۔ نفرت کے اسی جذبے سے مغلوب ہوکر اس نے سوچا کہ ہمارے سر سے مصیبت ٹلے نہ ٹلے، ان بے چاری مرغیوں کی ’’لائیو‘‘ تو بننی چاہیے۔ چنانچہ اس نے ایک دن مرغے کو زہریلی چیز کھلا کر ماردیا۔ چند ہی روز گزرے تھے کہ بن مرغے کے دڑبے کی حالت خراب ہونا شروع ہوگئی۔ پہلے حال یہ تھا کہ مرغا صبح سویرے تمام مرغیوں کو جگا دیتا اور جو مرغی ذرا اونگھنے کی کوشش کرتی تو اسے ٹھونگے مارتا۔ اب حالت یہ تھی کہ مرغیاں پورا پورا دن اینٹھتی رہتیں۔ پہلے سب وقت پر دانا کھاتی، انڈے دیتی اور صاف ستھری رہتی تھیں اور اب ہر وقت دانا کھا کر ڈربے کو گندا کرتی رہتیں۔ لڑکی کو ان سے اب گھن آنے لگی اور وہ سوچنے پر مجبور ہوگئی کہ جب تک مرغا ان میں موجود تھا، نظام صحیح چل رہا تھا۔ دوسری طرف ابا ہیں جو دن بھر کام کاج کرکے گھر کا خرچ چلاتے ہیں۔ ان کی ڈانٹ ڈپٹ، روک ٹوک سب گھر کا نظام چلانے کے لیے ہی تو ہوتی ہے۔ اس دن اسے احساس ہوا کہ جس طرح دڑبے میں ایک مرغا ہونا ضروری ہے اسی طرح گھر کا نظام چلانے کے لیے مرد کا ہونا ناگزیر ہے۔
سعودی عرب کے محکمہ شماریات نے اپنی رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ ملک بھر میں 66 فی صد لڑکے اور لڑکیاں غیر شادی شدہ ہیں۔ 12اگست کو نوجوانوں کے عالمی دن کی مناسبت سے جاری رپورٹ میں بتایا گیا کہ سعودی عرب کی تقریباً 67 فی صد آبادی کم عمر افراد پر مشتمل ہے۔ بن بیاہوں میں اکثریت لڑکیوں کی رہی، جن میں عصری تعلیم کی تکمیل اور اس کے بعد روشن مستقبل و کماؤ پوت بننے کے بہترین مواقع کو خاندانی نظام پر ترجیح دینے والی لڑکیاں سرفہرست تھیں۔ رپورٹ کے مطابق 2018ء تک سعودی خواتین میں ماں بننے کی صلاحیت عالمی سطح پر سب سے زیادہ تھی اور ہر ایک ہزار خواتین میں سے 124 ماں بن سکتی تھیں۔ اس کے باوجود سعودی عرب میں شرح پیدائش کم ترین سطح پر رہی اور ایک ہزار خواتین میں سے صرف 7 نے ماں بننے کی ہمت کی۔
خبر تو زیادہ نئی نہیں ہے، لیکن اسے قصہ پارینہ سمجھ کر نظر انداز بھی نہیں کیا جاسکتا۔ سعودی عرب جیسے اسلامی ملک میں شادی اور ذمے داری سے فرار کا رجحان غیر متوقع نہیں ہے، بلکہ یہ 4برس پیش کیے گئے اس منصوبے کے ’’آفٹر شاکس‘‘ ہیں کہ جب سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے انقلابی رہنماؤں کی فہرست میں اپنا نام درج کرانے کا خواب آنکھوں میں سجاکر عوام کو ایک نئی صبح کی نوید سنائی تھی۔ وژن 2030ء کو ویسے تو سعودی فرماں روا شاہ سلمان سے منسوب کیا جاتا ہے، لیکن اس کے روح رواں ان کے صاحبزادے ہی ہیں۔ اس انقلابی مشن کے اہداف بہت واضح ہیں، لیکن اس کے پس پردہ عزائم اتنے خفیہ ہیں کہ قبل ازوقت کچھ کہا نہیں جاسکتا اور ان کا انکشاف گزرتے وقت کے ساتھ ہی ہوتا ہے۔ سعودی عرب سمیت دیگر عرب ممالک کی معیشتوں کا انحصار زمین سے نکلنے والے تیل پر ہے۔ 2016ء میں پیش کیے گئے اس ’’رویہ‘‘ کا مقصد صرف اتنا بیان کیا گیا کہ کسی طرح ملکی معیشت کا انحصار تیل و قدرتی وسائل پر سے ختم کیا جائے۔ اس سلسلے میں ضروری تھا کہ سعودی شہری جاپانی و چینی اقوام کی طرح محنت کش بن جائیں اور ملک کی ترقی میں دن رات ایک کردیں، تاہم وہاں کے عیاش طبع طبقے کے لیے پُر آسائش گھروں اور ائرکنڈیشنڈ کاروں سے نکل کر کام کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ٹھیرا۔ لہٰذا اس سلسلے میں سعودی خواتین کو استعمال کرنے کا منصوبہ بنایا گیا، جو درحقیقت وژن 2030ء کا مرکزی نکتہ تھا۔ ہر عمل کا ردعمل ہوتا اور بسا اوقات ردعمل کہیں زیادہ شدید ہوتا ہے۔ سعودی عرب کا چہرہ دنیا کے سامنے خواتین کے معاملے میں ایک سخت گیر ریاست کے طور پر پیش کیا جاتا تھا، جہاں حجاب اور دیگر پابندیوں کی خلاف ورزی پر آہنی ہاتھ سے نمٹا جاتا تھا۔ مرد حضرات کے علیٰ الرغم جب ریاض حکومت نے خواتین کو میدان میں لانے کا فیصلہ کیا تو ردعمل اتنا شدید تھا کہ خود حکام سر پکڑ کر بیٹھ گئے۔ ابتدا میں ایک پٹرولیم کمپنی نے ہمت کرتے ہوئے چند خالی اسامیوں کے لیے خواتین کو مقرر کرنے فیصلہ کیا، تاہم ملک بھر سے ایک لاکھ درخواستیں موصول ہونے پر سب بھونچکا رہ گئے۔ سعودی خواتین نے جس طرح نام نہاد رویہ کی تکمیل میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا، وہ وہاں کے علما اور مبلغین کے لیے لمحہ فکر ہے۔
اپنی مہم کے دوران شہزادہ محمد یورپ اور امریکا کے دوروں پر بھی روانہ ہوئے اور وہاں سے آزادی نسواں کے حوالے سے ڈکٹیشن لیتے رہے۔ انہوں نے جس تیزی سے خواتین کی آزادی کے لیے قانونی ترامیم متعارف کرائیں اسے دیکھ کر محسوس ہوتا ہے وہ وقت سے پہلے ہی اپنے مشن میں کامیاب ہوجائیں گے اور باقی عمر اُن کے پاس خواتین کو دیکھ کر خوش ہونے کے سوا اور کوئی کام نہیں ہوگا۔ ملک بھر میں سینما گھروں کا افتتاح، خواتین کو ڈرائیونگ اور فٹ بال اسٹیڈیم جانے کی اجازت، میراتھن ریس اور فیشن ویک جیسے دیگر ’’انقلابی‘‘ اقدامات کے بعد بعید نہیں کہ اب خطے میں ’’ مس عرب‘‘ بھی متعارف کرادی جائے۔ شہزادہ محمد کی مہم کے باعث صنف نازک نے اپنا کردار چھوڑ کر دڑبے کا مرغا بننے کا بیڑا اٹھا لیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب وہاں گھر داری کو بوجھ سمجھا جارہا ہے۔ ایک طرف تو لڑکیاں نکاح کے بعد کی ذمے داریوں کی ہیبت ذہن پر سوار کرکے شادی کتراتی ہیں، لیکن دوسری طرف معمولی نوکری کرکے جھڑکیاں سننے میں انہیں کوئی قباحت محسوس نہیں ہوتی۔ مملکت کا بوجھ اپنے ناتواں کندھوں پر اٹھانے کا بھوت ان کے سر پر اس قدر سوار ہوگیا ہے کہ وہ اپنے گھر کے نظام سے بے پروا ہوتی جارہی ہیں۔ شادی شدہ گھرانوں کی زبوں حالی کا یہ عالم ہے کہ معمولی باتوں پر طلاق کا مطالبہ کردیا جاتا ہے۔ سعودی وزارت انصاف کی رپورٹ کے مطابق رواں سال ملک بھر میں طلاق کی شرح میں 14 فی صد اضافہ ہوا۔ جولائی میں 4 ہزار طلاق کے کیس رجسٹرڈ ہوئے، جب کہ عدالتوں میں روزانہ 156 طلاق کے مقدمات نمٹائے جاتے ہیں۔
حرمین شریفین کی نظامت اور حجاج کرام کی خدمت کے ناتے مسلم دنیا میں سعودی عرب کی سیادت کو تسلیم کیا جاتا ہے۔ نبی اکرمؐ کی نسبت سے عربوں کو عزت و احترام حاصل ہے، لیکن افسوس! اہل زباں ہوکر بھی وہ قرآن و احادیث سے اس قدر دور ہوکر مغربی تہذیب و تمدن کی اتھاہ گہرائیوں میں گرتے جارہے ہیں۔ ڈر صرف اتنا ہے کہ یورپی یلغار کے مقابلے میں مسلمانوں کی ذہن سازی نہ کی گئی تو کہیں جہلا کا ٹولا عربوں کے کردار کو سند نہ بنالے۔