مدارس، علماء، اور مسلم عوام پر ریاستی جارحیت

552

 

 

وہ پٹھان جو متحدہ ہندوستان میں مسلمانوں کی مدد کے لیے آخری امید ہوتے تھے، وہ پٹھان جنہوں نے کشمیر میں جہاد کے ذریعے اس کا ایک حصہ آزاد کر کے پاکستان کو دیا تھا وہی پٹھان امریکی و پاکستانی ریاستی دہشت گردی کا بدترین شکار بنے۔ 30اکتوبر 2006 کو باجوڑ میں ایک مدرسے پر امریکا نے فضائی حملہ کیا۔ جس میں 80 بچے شہید ہوئے۔ باجوڑ ایجنسی سے رکن قوم اسمبلی جماعت اسلامی کے صاحب زادہ ہارون الرشید نے احتجاجاً استعفا دے دیا۔ ان کے سوا کسی اور سیاسی جماعت اور حکومت کے کسی ادارے کے کان پر جون نہیں رینگی۔ 2 نومبر 2007 کو ایک ڈرون حملے میں جنوبی وزیرستان کے ایک مدرسے کے پانچ طلبہ شہید ہوئے۔ 13 جنوری 2010 کو پاسالکوٹ گاؤں کے ایک مدرسے پر حملہ ہوا 15 افراد شہید ہوئے۔ ان علاقوں میں کل 430 مصدقہ ڈرون حملہ ہوئے، جن میں متعدد مدارس شامل ہیں، ان ڈرون حملوں میں شہید ہونے والوں کی تعداد (سرکاری اعداد و شمار) 4,026 ہے۔ جن میں مردوں اور عورتوں کے علاوہ بڑی تعداد میں طلبہ اور بچے شامل ہیں۔
امریکا نے جس شکل؛ ڈاڑھی، ٹوپی اور پگڑی کو دہشت گرد کہا، اسی شکل کے بے قصور ہزاروں نوجوانوں اور علماء کو پکڑ کر آئی ایس آئی نے امریکا کے حوالے کیا۔ ان پر ایک عرصہ تک افغانستان کے پل چرخی جیل اور کیوبا کے گوانتا نامو بے میں تشدد کیا گیا۔ اسی کے ذریعہ امریکا عالمی دہشت گردی کا ڈھول بجاتا رہا اور ساری دنیا کی ریا ستوں کو ان کے خلاف کاروائی کرنے پر مجبور کرتا رہا۔ امریکا کے ایک ریاستی گاہک (State client) کی حیثیت سے پاکستان نے اپنی ’’ذمے داری‘‘ حسن خوبی سے نبھائی ہے۔ اپنے ہی ملک کے باشندوں سے چھیڑی اس جنگ میں پاکستان فوج اور ریاست کو بھاری نقصان ہوا لیکن امریکا کی خدمت کرنے والے تمام جرنیلوں کی نوکریاں بعد از ریٹائرمنٹ دنیا بھر میں امریکی قائم کردہ اداروں میں پکی ہیں۔ وہ لوگ آج بھاری تنخواہوں میں امریکی مفاداتی اداروں کی خدمت کر رہے ہیں۔
جنرل پرویز مشرف جس پر بے نظیر بھٹو اور اکبر بگٹی کے قتل کا عدالت میں مقدمہ درج ہے، لال مسجد، اسلام آباد پر فوجی حملہ کے ذریعہ مدرسہ حفصہ کی طالبات کے قتل کا مقدمہ بھی ان پر تھا۔ لیکن پاکستانی مقتدرہ نے ان کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ سے نکلوا دیا جس کے نتیجے میں وہ ملک سے باہر عیش کی زندگی گزار رہے ہیں۔ نئی حکومت جو فوج کے ساتھ ایک ورق پر ہے، اس کا عدلیہ پر مکمل کنٹرول ہے، جج صاحبان اسٹیبلشمنٹ کی ہدایات پر عمل کر رہے ہیں انہوں نے اس طرح جنرل مشرف کو بچا لیا۔ اگر ایک منصف تجزیہ نگار اور تاریخ نویس جب لکھے گا تو اس کو معلوم ہو جائے گا کہ نیا ’’عمرانی‘‘ سیٹ اپ اسی ایک شخص کو بچانے کے خاطر اور سویلین میں سے سویلین وردی میں فوجی حکومت لانے کے لیے کیا گیا تھا۔
جنرل مشرف کی علماء اور مدرسہ کے خلاف نفرت کا بدترین مظاہر اسلام آباد میں لڑکیوں کے مدرسہ حفصہ پر پاکستانی فوج کا 3جولائی 2007 کوگولیوں کی بوچھاڑ سے حملہ تھا۔ ان طالبات کا قصور یہ تھا کہ جب مشرف دور میں ’اسلام‘‘ آباد میں شراب خانے اور نائٹ کلبز کھلے، ننگی فلموں کے وڈیو گھر ہر جگہ بننے لگے تو ان طالبات نے ڈنڈے ہاتھ میں لے کر اسلام آباد کی سڑکوں پر نہی عنی المنکر کے لیے علامتی پیریڈ کیا تھا۔ یہ پریڈ ’’روشن پسند‘‘ لبرل جنرل مشرف حکومت کے لیے ناقابل برداشت تھی۔ ان دینی طالبات کو قتل کرنے کا منصوبہ بنایا گیا۔ اس مدرسے کے بانی مولانا محمد عبداللہ کو اکتوبر 1998 ہی میں شہید کیا جا چکا تھا۔ موجودہ منتظمین ان کے دو صاحب زادے مولانا عبدالعزیز اور عبدالرشید غازی تھے۔ مولانا عبدالرشید غازی بھی اس حملہ میں شہید ہو گئے۔ لال مسجد کے تقدس کو پامال کرنا اور وہاں قتل و غارت گری کا جنرل مشرف کو کس قدر شوق تھا، اور اس کے لیے وہ کتنا اتاولا تھا اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ جب اس وقت کے وزیر مذہبی امور اعجاز الحق بن جنرل ضیاء الحق کو چودھری شجاعت حسین صدر پاکستان مسلم لیگ (ق) نے مولانا عبدالعزیز اور عبدالرشید غازی سے گفت و شنید کے لیے بھیجا تو یہ لوگ ایک معاہدہ پر پہنچ گئے تھے۔ لیکن مسجد سے نکلنے کے بعد جنرل مشرف سے ملتے ہی اعجاز الحق نے اپنا موقف تبدیل کر لیا۔ جنرل مشرف کی حکومت، جس میں اس وقت امریکی نمائندے اور مشرف کے نامزد سٹی بینک کا ملازم وزیر اعظم شوکت عزیز تھا، انہیں اور فوج کو کہا گیا کہ وہ مولانا عبدالعزیز سے پسپائی اختیار کرکے انہیں اپنے آپ کو فوج کے حوالہ کرنے کے لیے کہا جائے۔ مولانا نے گزارش کی کہ اگر حکومت انہیں طالبات سمیت بحفاظت نکلنے کی اجازت دے دے تو وہ بقیہ زندگی خاموشی سے اپنے آبائی علاقہ میں گزار لیں گے، اور لال مسجد حکومت کو اور اپنے مدرسہ حفصہ اور جامعہ فریدیہ کو وفاق المدارس کے حوالے کر دیں گے۔ یہ معاہدہ انہوں نے علمائے کرام کی موجودگی میں حکومتی نمائندے شوکت عزیز اور چودھری شجاعت حسین کے ساتھ کیا تھا۔ لیکن آخری لمحے میں ظالم جنرل مشرف نے تمام معاہدوں اور وعدوں کو ایک طرف رکھ کر مدرسہ اور لال مسجد پر حملہ کا حکم دے دیا۔
اسلام آباد کی موجودہ حکومت جو مقتدرہ کی وساطت سے ایک لبرل جسم میں اسلامی زبان لے کر آئی ہے، اس کا اولین ہدف بھی دین اسلام، علمائے کرام، مدرسہ، دینی تعلیم اور شعائر اسلام ہی ہے۔ سب سے پہلے ملعونہ آسیہ جس کو سیشن کورٹ اور ہائی کورٹ میں توہین رسالت کی سزا سنائی جا چکی تھی، اور عدالت عظمیٰ میں کیس زیر سماعت تھا، فوراً اس کے حق میں فیصلہ کرا کے ملک سے باہر بھیج دیا گیا۔ جب مولانا سمیع الحق ایک عوامی اجتماع میں حکومت اور عدالت عظمیٰ کے جج پر برسے تو انہیں دوسرے ہی دن ان کے گھر پر قتل کر دیا گیا۔ جب نئی تحریک ’’انصاف‘‘ کے ارکان، قومی اسمبلی میں قادیانیوں کے موقف کی حمایت میں، اور اسرائیل کو قبول کرنے کے حق میں آوازیں نکالنے لگے تب علماء اور عوام کو معلوم ہوا کہ ’’ایاک نعبد و ایاک نستعین‘‘ والی زبان دراصل کس کی عبادت اور کس سے استعانت کی خواہاں ہے۔ درسی نصاب اور تعلیمی نظام میں دور رس لبرل تبدیلی لائی جا رہی ہے۔ زبان اور اظہار کی آزادی پر ایسی قدغن لگی ہے جو اس سے پہلے مشرف کے دور میں بھی نہیں لگی تھی۔ حکومت کی اسلام دشمن پالیسی کو بے نقاب کرنے والے سوشل میڈیا کی ایک کمزورسی آواز بلال خاں کو بھی شہید کر کے خاموش کر دیا گیا ہے۔ بلال خاں نے قتل کی دھمکی دینے والے ادارے کا اعلان اپنے ویڈیو میں کر دیا تھا۔ بلال خاں کو کسی عالمی صحافت، اور میڈیا کی حمایت حاصل نہیں تھی جیسی کہ مین اسٹریم میڈیا والوں کو حاصل ہے۔ ہوا کا رخ متعین ہو چکا ہے۔ دیکھنے والی آنکھوں نے دیکھ لیا ہے اور محسوس کرنے والے دلوں نے محسوس کر لیا ہے۔ اب حکومت نے ایک مقصد کے تحت پاکستان میں 70 سال کی تعلیم اور تعلیمی نظام میں ناکامی کی ایک رپورٹ شائع کی ہے۔ اس طرح ’’ایک قوم اور ایک تعلیم‘‘ کے خوش نما نعروں میں پاکستان کے ابتدائی تعلیم کو بھی بیرونی ایجنسیوں کے حوالے کرنے کا پروگرام بن چکا ہے۔ اس کام کے لیے ہمارے مغربی آقا آغا خاں فائونڈیشن کو بہت پہلے سے تیار کر رہے ہیں۔ اگر ایسا ہوا تو ایک نسل کے بعد ہی پاکستان کے اسکول و مدارس سے اسلام دشمن طلبہ اور نوجوانوں کی کھیپ کی کھیپ نکلے گی جن کے سر مغرب کی غلامی اور فرماں برداری میں ہمیشہ جھکے ہوں گے۔ پاکستان کی قومی تعلیم کے عالمی فروخت پر اگلے کالم میں لکھوں گا۔