روداد سفر اور جماعت اسلامی پاکستان کا اجتماع عام ۱۹۵۷ء(باب دہم)

470

اس لائحہ عمل کے پہلے تین اجزا (یعنی تطہیر افکار و تعمیر کردار‘ ۲۔ صالح افراد کی تلاش و تنظیم و تربیت ۳۔ اصلاح معاشرہ کی سعی) شروع ہی سے جماعت کے لائحہ عمل کے اجزائے لازم رہے ہیں۔ ان کی تکمیل کی صورتیں‘ حالات و ضروریات اور جماعت کے وسائل و ذرائع کے مطابق بدلتی رہتی ہیں۔ ان کے بارے میں جماعت اب یہ طے کرتی ہے کہ آئندہ کوئی دوسرا فیصلہ ہونے تک ان تینوں اجزا کو اس پروگرام کے مطابق عملی جامہ پہنایا جائے‘ جو اس قرارداد کے ساتھ شامل کیا جارہا ہے۔ نیز جماعت کا یہ اجتماع عام مجلس شوریٰ اور تمام حلقوں‘ اضلاع اور مقامات کی جماعتوں کو ہدایت کرتا ہے کہ وہ اس پروگرام پر اس حد تک زور دیں کہ لائحہ عمل کے چوتھے جزو کے ساتھ جماعت کے کام کا ٹھیک توازن قائم ہوجائے اور قائم رہے۔ نظام حکومت کی اصلاح سے متعلق چوتھا جزو جماعت کے بنیادی مقاصد میں شامل تھا۔ کیوںکہ اقامت دین کا مقصد اس وقت تک پورا نہیں ہوسکتا‘ جب تک معاملات زندگی کی زمام کار فاسقین اور اللہ کی اطاعت سے آزاد لوگوں کے بجائے صالحین‘ یعنی خدا کے مطیع و فرماں بردار بندوں کے ہاتھ میں نہ آجائے۔ لیکن دین کا یہ تسلط یک لخت کبھی قائم نہیں ہوسکتا‘ بلکہ یہ ایک تدریجی عمل ہے‘ جو غیر دینی نظام کے پیروکاروں اور دینی تسلط کے چاہنے والوں کی باہمی کشمکش کے بعد‘ درجہ بہ درجہ پیش قدمی سے ہی مکمل ہوا کرتا ہے۔
تقسیم ہند سے قبل‘ مواقع کے فقدان‘ ذرائع کی کمی اور اس وقت کے نظام کے بعض شرعی موانع کی وجہ سے جماعت اسلامی عملاً کوئی اقدام نہیں اٹھا سکتی تھی۔ قیام پاکستان کے بعد جب اللہ تعالیٰ نے مواقع اور ذرائع دونوں فراہم کردیے‘ اور شرعی موانع دور کرنے کے امکانات پیدا کردیے تو جماعت نے اپنے لائحہ عمل میں اس چوتھے جزو کو بھی‘ جو اس کے نصب العین کا ایک لازمی تقاضا تھا‘ شامل کرلیا۔ دس سالہ جدوجہد کے بعد‘ لادینی قوتوں کے مقابلے میں دینی قوتوں کی پیش قدمی ایک اہم مرحلے تک پہنچ چکی ہے۔ ملک کے دستور میں دینی نظام کے بنیادی اصول منوائے جاچکے ہیں۔ اب ان اصولوں کی نظام مملکت میں عملاً نفاذ کا انحصار قیادت کی تبدیلی پر ہے۔
ایک صالح قیادت کے لیے صحیح طریقہ کار‘ لائحہ عمل کے چاروں اجزا کے مابین توازن کا قائم رکھنا ہے۔ ہر جز کا کام دوسرے جز کے لیے باعث تقویت ہونا چاہیے۔ توازن قائم نہ رہنے کی صورت میں اس کے کسی جز کو ساقط یا معطل یا موخر کردینے کے لیے دلیل نہ بنایا جاسکے گا۔ چوںکہ جماعت اپنے دستور کی رو سے‘ اپنے پیش نظر اصلاح و انقلاب کے لیے جمہوری اور آئینی طریقوں پر کام کرنے کی پابند ہے اور پاکستان میں اس اصلاح و انقلاب کے عملاً رونما ہونے کے واحد آئینی راستے انتخابات سے لاتعلق نہیں رہ سکتی‘ خواہ وہ بلاواسطہ ہو یا بالواسطہ یا دونوں طرح۔ جماعت ہر انتخاب کے موقع پر حالات کا جائزہ لے کر فیصلہ کرنے کا کام مجلس شوریٰ پر چھوڑتی ہے۔
سید مودودیؒنے قرارداد کو پیش کرکے اس کی وضاحت میں یہ تقریر کی تھی۔ اس کے بعد قرارداد میں ترامیم یا متبادل تجاویز پیش کرنے کی دعوت دی گئی۔ چنانچہ چار متبادل قراردادیں اور چار ترامیم آئیں۔ ان متبادل قراردادوں میں ایک میں تقسیم ہند کے بعد جماعت کی ساری پالیسی کو غلط قرار دیا گیا‘ دوسری میں کہا گیا کہ جماعت ۵ سال تک انتخابات میں حصہ نہ لے‘ تیسری میں کہا گیا کہ جماعت حصہ تو لے لیکن صرف شہادت حق کے لیے زیادہ سے زیادہ پانچ نشستوں پر‘ چوتھی قرارداد مجوز نے پیش کرنے سے پہلے ہی واپس لے لی۔ تمام متبادل قراردادیں اور ترامیم یا تو واپس لے لی گئیں یا ارکان کی غالب اکثریت نے انہیں مسترد کردیا۔ آخر میں مولانا مودودیؒ کی پیش کردہ قرارداد پر رائے شماری ہوئی۔ جس کے حق میں نو سو بیس ووٹ اور اس کے خلاف صرف ۱۵ ووٹ آئے اور اس طرح کثرت رائے سے یہ قرارداد منظور کرلی گئی۔
(v)۔ جماعت میں اندرونی اصلاح کا پروگرام
۱۔ اس پروگرام کے تحت ارکان جماعت نے یہ فیصلہ کیا کہ تمام مقامی جماعتیں‘ ارکان اور رفقائے جماعت کے مابین کسی نزاع کی صورت میں اس کی ہرگز پرورش نہیں کریں گے‘ بلکہ اسے فوراً دور کرنے کی کوشش کریں گے۔
۲۔ کسی حلقہ کی ماتحت جماعت میں کوئی خرابی رونما ہونے کی صورت میں اس کے نظم کو جلد از جلد ٹھیک کرنے کی کوشش کی جائے اور ضرورتاً ضلع اور حلقے کے نظم سے مدد لی جائے۔
۳۔ اپنی اصلاح حال اور کمزور علاقوں میں بہتری لانے کے لیے ہر حلقے کی جماعت اپنے حلقے کے عمدہ کارکنوں کی ایک ٹیم مقرر کرے۔
۴۔ کسی حلقے کے قابل اصلاح نظم کی بہتری کے لیے مرکزی ہدایات کے تحت باہر سے کارکن بھیجے جائیں‘ جو تجزیے کے بعد خرابی کے اسباب کا تعین اور اصلاح کی تدابیر تجویز کریں اور انہیں عملی جامہ پہنائیں۔ اس غرض کے لیے ایک بااختیار مرکزی ٹیم مقرر کی جائے‘ جو ضرورت کے پیش نظر ہر جگہ جاسکے اور مناسب اقدامات کرے۔
۵۔ جماعت کی تنظیم کے اندر خرابیوں کی بڑی وجہ محاسبہ کی کمی ہے۔ اس کے لیے مقامی‘ ضلعی اور حلقوں کے ہفتہ وار‘ سہ ماہی اور ششماہی اجتماعات پابندی کے ساتھ منعقد کیے جائیں‘ جن میں ارکان کے اخلاق و کردار اور نظم جماعت میں ان کے طرز عمل کا بھرپور محاسبہ کیا جاسکے۔ اصلاح کی تمام کوششوں کے باوجود درست نہ ہونے کی صورت میں کارکن کو بلاتاخیر جماعت سے خارج کردیا جائے۔
(جاری ہے)