(روداد سفر اور جماعت اسلامی پاکستان کا اجتماع عام ۱۹۵۷ء(باب دہم

247

چودھری محمد علی اس وقت ملک کے وزیر اعظم تھے۔ اسلامی سوچ اور نظریہ پاکستان پر پختہ یقین رکھتے تھے۔ مولانا مودودی نے ان کے پیش کردہ مسودہ دستور پر مغربی اور مشرقی پاکستان کا دورہ کرکے دونوں بازوؤں کے علمائے کرام کی طرف سے متفقہ اسلامی دفعات اور ترمیمات اسمبلی کو بھیج دیں‘ جن میں سے اکثر دستور کا حصہ بن گئیں۔ اس آئین کی بنیاد قرارداد مقاصد پر تھی۔ یہ مسودہ قانون ۹؍جنوری ۱۹۵۶ء کو بحث کے لیے اسمبلی کے سامنے پیش کیا گیا۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان کا نام ۲۲ کے مقابلے میں ۴۷ ووٹوں سے منظور ہوا۔ بحث کے بعد ۲۹؍فروری ۱۹۵۶ء کو پارلیمنٹ نے دستور کا مسودہ رات گیارہ بجے منظور کرلیا اور آخری گورنر جنرل اور پہلے صدر اسکندر مرزا کے دستخطوں کے بعد ۲۳؍ مارچ ۱۹۵۶ء کو نافذ کردیا گیا۔ پورے ملک میں جشن منایا گیا اور جماعت اسلامی نے نماز شکرانہ ادا کرنے کی اپیل کی‘ اور خود مرکز جماعت کی تاریخ میں بھی پہلی بار چراغاں کیا گیا۔ مسٹر حسین شہید سہروردی ان دنوں مشرقی پاکستان میں عوامی لیگ اور مخلوط اتحاد کے سربراہ تھے اور مخلوط انتخابات کے حامی تھے‘ جبکہ جماعت اسلامی جداگانہ انتخابات کے حق میں تھی۔
سیاسی بحران اور سیاسی گٹھ جوڑ
اپریل ۱۹۵۶ء میں مغربی پاکستان میں سیاسی بحران پیدا ہوگیا۔ اس وقت مغربی پاکستان کے وزیراعلیٰ ڈاکٹر خان (خان عبدالغفار خان کے بھائی) تھے۔ ابوحسین سرکار مشرقی پاکستان کے وزیراعلیٰ تھے۔ ۴؍اپریل ۱۹۵۶ء کو ڈاکٹر خان نے ری پبلکن پارٹی کے نام سے ایک نئی سیاسی پارٹی کے قیام کا اعلان کیا۔
مسلم لیگ کے لیڈرجن میں افتخار حسین ممدوٹ‘ قاضی فضل اللہ‘ پیرزادہ عبدالستار‘ سردار عبدالحمید دستی اور مخدوم سید حسن محمود‘ مسلم لیگ کا ڈسپلن توڑ کر ڈاکٹر خان کی کابینہ میں شامل ہوگئے۔ دوسرے مسلم لیگی ارکان بھی ٹوٹ ٹوٹ کر اس نئی سرکاری پارٹی میں شامل ہونے لگے۔ ۱۹؍مئی ۱۹۵۶ء کو لاہور میں مغربی پاکستان اسمبلی کا اجلاس ہوا‘ جس میں مسلم لیگ اور نوساختہ ری پبلکن پارٹی میں اکثریت کے دعویٰ کا مقابلہ ہوا۔ دونوں پارٹیوں کو اسپیکر کے انتخابات میں برابر برابر (۱۴۸) ووٹ ملے۔ ایوان کے عارضی چیئرمین مسٹر ممتاز حسن قزلباش کے کاسٹنگ ووٹ سے ری پبلکن پارٹی کے چودھری فضل الٰہی (گجرات) اسپیکر منتخب ہوگئے‘ جو اس سے پہلے مسلم لیگ کے سیکرٹری جنرل تھے۔ اجلاس میں ہڑبونگ ہوئی بدنظمی‘ تلخ کلامی اور حتیٰ کہ ہاتھاپائی تک نوبت آگئی۔
اگست ۱۹۵۶ء کے آخر میں مشرقی پاکستان کے وزیراعلیٰ ابوحسین سرکار نے استعفا دے دیا۔ مشرقی پاکستان کے گورنر مسٹر فضل الحق نے مسٹر عطاء الرحمن (عوامی لیگ) کو صوبے میں نئی وزارت بنانے کی دعوت دی۔ چودھری محمد علی نے جو مسلم لیگ کے ارکان اسمبلی کے کردار سے سخت نالاں تھے‘ انہوں نے۸؍ستمبر ۱۹۵۶ء کو وزارت عظمیٰ اور مسلم لیگ سے استعفا دے دیا۔ حالاںکہ اگست کے آخری ہفتے میں قومی اسمبلی میں مخلوط پارٹی کے اجلاس میں ان پر اظہار اعتماد ہوچکا تھا۔ اسکندر مرزا‘ چودھری محمد علی کے سخت مخالف ہوگئے تھے۔ وہ خالص مغرب زدہ طبقے‘ یا پھر سیکولر ذہن کے مالک تھے اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کے نام اور قرار داد مقاصد کو آئین کا حصہ بنانے کے سخت مخالف تھے جبکہ چودھری محمد علی ان دونوں چیزوں کے حامی تھے اور انہوں نے عملاً ان کو دستور کا حصہ بنوا بھی دیا تھا۔ ۱۰ ؍ستمبر کو اسکندر مرزا نے عوامی لیگ کے مسٹر حسین شہید سہروردی کو (جو عوامی لیگ اور ری پبلکن پارٹی کے مشترکہ پارلیمانی لیڈر بن گئے تھے) نئی وزارت بنانے کی دعوت دی‘ جن کی قیادت میں نئی کابینہ نے حلف اٹھالیا۔
مخلوط اور جداگانہ طریق انتخابات
۹؍اکتوبر ۱۹۵۶ء کو حسین شہید کی حکومت نے ایک ملک میں عجب دورنگی اختیار کرتے ہوئے: مغربی پاکستان میں جداگانہ اور مشرقی پاکستان میں مخلوط طریق انتخابات کو تسلیم کرلیا۔ ۱۱؍اکتوبر کو قومی اسمبلی نے یہ بل منظور کرلیا۔
مصر پر اسرائیل‘ فرانس اور برطانیہ کا حملہ: حملے کے خلاف جماعت اسلامی اور دیگر پارٹیوں نے کراچی‘ لاہور‘ پشاور اور ڈھاکا اور دیگر شہروں میں جلسے جلوس نکالے۔ پولیس نے کئی جگہ مظاہرین پر لاٹھی چارج کیا۔ نومبر کے شروع میں تہران میں معاہدہ بغداد (Baghdad Pact) کے رکن ملکوں ایران‘ پاکستان‘ عراق اور ترکی کا اجلاس ہوا‘ جس میں صرف رسمی طور پر مصر کی آزادی اور سالمیت کے احترام کو ملحوظ رکھنے کو کہا گیا‘ مگر واضح الفاظ میں جارح ملکوں کی مذمت کرنے سے گریز کیا گیا۔ یہی نہیں بلکہ پاکستان کے وزیر خارجہ ملک فیروز خان نون نے برطانیہ کے دورے کے دوران میں مصر کے خلاف بیان داغ دیا‘ جس کی عالم اسلام اور پاکستان میں جماعت اسلامی اور دیگر سیاسی پارٹیوں نے سخت مذمت کی۔ بدقسمتی سے پاکستان کا برسراقتدار ٹولہ‘ انگریزوں اور یہودیوں کا دم بھر رہا تھا۔
(جاری ہے)