قدرت کا حسین نگینہ
وادی کشمیر کو دنیا کی جنت نظیر کہا جاتا ہے۔ یہ حسین وادی ندی نالوں ،دریاوں، کوہساروں، مرغزاروں، برف پوش پہاڑوں پر مشتمل ہے۔...
آئیے معلم بنیں
یہ بھی حکمت باری تعالیٰ تھی کہ آپ ﷺ کو بے حد چاہنے والوں کو آپ کی تعلیم کا خیال نہ آیا۔ اقراء سے...
کہیں خشک سالی تو کہیں پانی ہی پانی
کرۂ ارض میں خشک سالی
پاک میں پانی تو بد حالی
یورپ امریکہ افریقہ سمیت ایشیاء کے کئی ممالک میں بد ترین خشک سالی ایران میں...
برسات کی کہانی
گرمی کےدنوں میں بارش کا موسم کسے اچھا نہیں لگتا۔ سارہ کو بھی ایسا لگا کہ کل کی بارش نے جیسے اس کے اندر...
بارش کے حسین رنگ اور اللہ کی شکر گزاری
ارے بارش ہو رہی ہے چلو چھت پر چلتے ہیں، صدیق صاحب اور بچوں نے باہر کھڑکی کھول کر دیکھتے ہوئے کہا۔ ہاں چلتے...
کیا آپ درخت گود لینا چاہتے ہیں؟
صدیوں سے انسانی تہذیب درختوں اور دریاؤں کی گود میں پلتی اور پروان چڑھتی چلی آرہی ہے۔ آج میں آپ سے یہ سوال کرتا...
نصف بہار کی رُت
روایتی چینی قمری کیلنڈر میں ایک سال کو 24 شمسی رُتوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ بیس مارچ کو نصف بہار کی رُت شروع...
کائنات کے خزانے
کائنات کا ذرہ ذرہ اللہ کی بڑائی بیان کررہا ہے اور اسکے ایک ہونے کی گواہی دے رہی ہے انتہائی نظم و ضبط سے...
خشک میوہ جات خنک موسم کی سوغات
موسم سرما کے آغاز کیساتھ ہی دکانوں پر خشک میوہ جات کی بہار دکھائی دینے لگتی ہے ۔ خنک موسم میں خشک میوہ جات...
شجرکاری کی اہمیت اور ضرورت
ہم انسانوں نے بہت ترقی کر لی ہے اور یہ کہنا غیر مناسب نہیں کہ آج ہم ڈیجیٹل دنیا میں سانس لے رہے ہیں...
اہم بلاگز
بیس سال بعد
میں نے اپنے بچپن میں ایک ڈراؤنی مووی دیکھی تھی جس کا نام تھا " بیس سال بعد"۔ کل سے ایک خبر دل کو چیر رہی ہے کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی اپنی بہن فوزیہ صدیقی سے بیس سال بعد جیل میں ملاقات ہوئی ہے۔ فلم تو فلم ہوتی ہے اس میں ہر چیز کی شوٹنگ کی جاتی ہے مگر پھر بھی ہم اس کے کسی جذباتی سین میں اپنے آنسوؤں پر قابو نہیں رکھ پاتے ذرا سوچئے ! کہ کل اس بہن کی کیا کیفیت ہوئی ہوگی جو بیس سال سے کسی اپنے کی شکل دیکھنے کی منتظر تھی اور ملاقات کے وقت نہ اسے بہن کے گلے لگنے کی اجازت ملی اور نہ ہی اپنے اہل خانہ کی تصاویر دیکھنے کی رعایت۔
ایک موٹے شیشے کی دیوار کے پار ان دونوں بہنوں کی کی کیفیت کیا ہوگی یہ ہم مشتاق صاحب کی اس بات سے اندازہ لگا سکتے ہیں جو ملاقات کے بعد انہوں نے بتائی وہ کہتے ہیں میں کل سے ٹراما میں ہوں اس کیفیت سے باہر آؤں تو قوم کو جگاؤں گا۔
کاش ! کہ یہ قوم جاگ رہی ہوتی تو آج عافیہ صدیقی جیل کی صعوبتیں کاٹ ہی کیوں رہی ہوتی، اس قوم کے ضمیرکو تو پتا نہیں کون سا نشہ دے کر سلا دیاگیا ہےجو جاگنے کا نام ہی نہیں لیتا۔ ارض پاک کے دو ٹکڑے ہوئے ہم سوتے رہے، ملک کے دو وزائے اعظم کو جلسہ گاہ میں قتل کر دیا گیا ہم سوتے رہے، سانحہ کارساز ہوا ہم سوتے رہے، بلدیہ کی فیکٹری میں زندہ ورکر جل کر خاک ہوئے ہم سوتے رہے، عمران خان کی ریلی کی کوریج کرتے ہوئے لیڈی رپورٹر فرائض کی انجام دہی کے دوران مبینہ حادثے میں اپنی جان گنوا بیٹھی ہم سوتے رہے۔ 12 مئی کو شہر کراچی میں قتل عام ہوا ہم سوتے رہے اور ابھی موجودہ مئی کے مہینے میں ہی ملک میں جو جو ہنگامہ خیزیاں مچیں اس سے کون واقف نہیں مگر ہم اب بھی سو ہی رہے ہیں۔
آخر یہ کون سی خواب غفلت کی کیفیت ہے جس سے ہم جاگنے کی کوشش تک نہیں کرتے ؟ ڈاکٹر عافیہ نے ملاقات کے پہلے گھنٹے میں اپنے اوپر کی جانے والی بہیمانہ تشدد کی داستان سنائی کیا گز رہی ہوگی قوم کی اس بیٹی پر سوئی ہوئی قوم کیسے سمجھے گی؟
اللہ سے دعا ہے کہ اس قوم کی بیٹی کی آزمائش ختم ہوجائے اور وہ اپنی زندگی میں اپنے وطن واپس آکر اپنے بچوں اور اپنے اہل خانہ سے مل سکے۔
خدارا اس وقت میں ایک آواز ہو کر اپنی اس بہن کی رہائی کے لئے آواز اٹھائیں یہ آزمائش ڈاکٹر عافیہ کی نہیں ہم سب کی ہے اور ہمیں اس آزمائش میں پورا اتر کر اپنے اللہ کی بارگاہ میں سرخرو ہونا ہے۔
پانی کا تحفظ
محدود آبی وسائل کے ساتھ، پانی کا تحفظ چین کے ایجنڈے میں ہمیشہ سرفہرست رہا ہے اور اس حوالے سے کئی محاذوں پر کوششیں کی گئی ہیں، جن میں زراعت، صنعت، شہری علاقوں اور دیگر اہم شعبوں میں پانی کے تحفظ کے ساتھ ساتھ سائنسی تکنیکی اختراعات شامل ہیں۔ چین کی جانب سے پانی کے مزید معقول استعمال اور اس قیمتی نعمت کے زیاں کو روکنے کے ساتھ ساتھ، گزشتہ دہائی میں ماحولیاتی تحفظ کے ذریعے پانی کے معیار کو بہتر بنانے کے لیے بھی نمایاں کوششیں کی گئی ہیں۔ ملک نے عالمی سطح پر میٹھے پانی کے مجموعی وسائل کے صرف 6 فیصد میں سے دنیا کی تقریباً 20 فیصد آبادی کی ضروریات کو احسن طور پر پورا کیا ہے۔ حالیہ برسوں میں بارہ لاکھ سے زائد افراد کو دریاؤں اور جھیلوں کے سربراہوں کے طور پر مقرر کیا گیا ہے، تاکہ ملک میں پانی کے ذخائر کے ماحولیاتی تحفظ سے فائدہ اٹھایا جا سکے اور مقامی حالات کے مطابق آبی آلودگی سے نمٹنے اور آبی ماحولیات کو بہتر بنانے کے لیے درست اقدامات کیے جا سکیں۔ علاوہ ازیں، چین نے کچھ علاقوں میں مٹی کے کٹاؤ اور زمینی پانی کے بے تحاشہ استعمال جیسے مسائل کو حل کرنے میں بھی کامیابیاں حاصل کی ہیں، جس سے زیادہ سے زیادہ آبی زخائر کو بحال کیا گیا ہے۔
انہی کوششوں کو مزید آگے بڑھاتے ہوئے چین کی جانب سے حالیہ دنوں یہ اعلان کیا گیا ہے کہ وہ پانی کے قومی نیٹ ورک کی تعمیر میں سرمایہ کاری میں مزید اضافہ کرے گا۔اس حوالے سے مرکزی بجٹ میں پانی کے نیٹ ورک کی تعمیر کے منصوبوں کو مضبوط بنانے پر توجہ مرکوز کی جائے گی جو مختلف علاقوں میں پھیلے ہوئے ہیں۔ اس کا ایک مقصد سیلاب کی روک تھام اور اناج کی پیداوار کے حوالے سے ملک کی صلاحیتوں کو بہتر بنانا بھی ہے۔اس ضمن میں مقامی حکومتوں کی بھی حوصلہ افزائی کی جائے گی کہ وہ تعمیری منصوبوں میں سرمایہ کاری کو ترجیح دیں اور متعلقہ منصوبوں کے ٹھوس نفاذ کو یقینی بنانے کے لیے تمام وسائل بروئے کار لائیں۔
چینی حکام نے یہ بھی واضح کر دیا ہے کہ مارکیٹ پر مبنی اور قانون پر مبنی اصول کی پیروی کرتے ہوئے، ہر قسم کے سرمایہ کاروں بالخصوص نجی شعبے کی حوصلہ افزائی کی جائے گی کہ وہ تعمیراتی منصوبوں میں بڑھ چڑھ کر شریک ہوں۔چین نے اس حوالے سے ابھی حال ہی میں 2021تا2035 کی مدت کے دوران پانی کے قومی نیٹ ورک کی تعمیر کے لئے ایک رہنما اصول جاری کیا ہے، جس پر عمل درآمد کے دوران آبی سلامتی کے تحفظ کی صلاحیت کو بڑھانے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔گائیڈ لائن میں متعدد طویل مدتی اہداف مقرر کیے گئے ہیں، جن میں پانی کے قومی نیٹ ورک کی عملی تشکیل، صوبائی، میونسپل اور کاؤنٹی کی سطح پر پانی کے نیٹ ورک بنانا، اور قومی آبی تحفظ کے نظام کو فروغ دینا شامل ہے جو سوشلسٹ جدیدکاری کے تقاضوں کو پورا کرتا ہے۔
وسیع تناظر میں گزشتہ ایک دہائی میں چین میں آبی وسائل کی بقا اور تحفظ...
جب دشمن کا غرورخاکستر ہوا
اٹھائیس مئی یوم تکبیر وہ تاریخ ساز دن ہے جب اللہ تعالیٰ کے خصوصی فضل و کرم سے پاکستان کی سول و عسکری قیادت نے اپنے ملک و قوم کے وسیع تر مفاد میں، اقوام عالم کے تمام تر تحفظات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے پاکستان کو عالم اسلام کی پہلی ایٹمی قوت بنا کر ثا بت کر دکھایا کہ پاکستان نہ تو وہ کسی سے کم ہے اور نہ ہی کسی میدان میں پیچھے۔
حالانکہ اس وقت کے امریکی صدربل کلنٹن نے پاکستان کے حکمرانوں کو ٹیلی فون کرکےاقتصادی دھمکیوں سے ڈرایا تو کہیں پانچ ارب ڈالر کے امدادی پیکج کالالچ دیا۔ یہ وہ ایام تھے جب 11 اور 13 مئی کو بھارت راجستھان میں پوکھران کے مقام پر ایٹمی دھماکے کر کے پاکستان میں خطرے کی گھنٹی بجا چکا تھا، بھارت نے یکے بعد دیگرے 5 دھماکے کر کے اس خطے میں طاقت کے توازن کو بگاڑنے کی مذموم سازش کی تھی جسکا ہر صورت جواب دینا لازمی تھا۔
اس واقعہ کے بعد ملک کے سب ہی حلقوں میں یکساں تشویش پائی جاتی تھی، اس وقت اہل پاکستان پر صرف ایک جنون طاری تھاکہ بھارت کے ایٹمی دھماکوں کا جواب دینا ضروری ہے۔ ایٹمی دھماکے کرکے پاکستان کو ڈرانے کی ناکام کوشش کرنے والوں کو بتانا ہے کہ ہم ان کے شرلی جیسے ہتھیاروں سے ڈرنے والے نہیں ہم جوش و جذبات میں بھی ان سے زیادہ ہیں اور قوت و طاقت میں بھی کسی سے کم نہیں۔ ہم ایک امن پسند قوم ہیں مگر جارحیت برداشت ہر گز نہیں کریں گے، ہم اینٹ کا جواب پتھر سے دینا جانتے ہیں۔
آخر کار 28مئی 1998ء کی سہ پہر تین بج کر 16 منٹ پر امریکہ، برطانیہ، جرمنی، فرانس اور آسٹریلیا کی رسد گاہوں میں الارم کا شور بلند ہوا۔ سیسمو گرافک آلات یکدم حرکت میں آئے، کوئی رسد گاہ اس کو 40 کلو ٹن کا دھماکہ دکھا رہی تھی تو کوئی 25 سے 30 کلو ٹن، کوئی بھی وثوق سے نہیں کہہ سکتا تھا کہ یہ سب کچھ زیر زمین کہاں پر ہوا ہے۔ عالمی میڈیا پر ایک شور برپا ہوا اور پاکستان نے وہ کر دکھایا جس کی برسوں پہلے سے توقع کی جا رہی تھی اور یوں ایٹمی دھماکے کرکے پاکستان دنیا کا ساتواں ایٹمی ملک بن گیا اور اسے یہ اعزاز بھی حاصل ہوا کہ یہ پہلا اسلامی ملک تھا جس نے ایٹمی شعبے میں یہ کمال حاصل کیا تھا۔ پاکستان کے ایٹمی سائنسدان اور حکمرانوں نے وطن عزیزکو ناقابل تسخیر بنانے کا یہ دلیرانہ قدم اٹھا کر مسلم امہ کو بھی روشن راہ دکھائی کہ وہ بھی اس تاریخ ساز قدم کو دیکھ کر دنیا میں فخر سے جینا سیکھیں۔
پاکستان کے ایٹمی پروگرام کی تاریخ ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے جب اس کے خاتمے کے لیے پوری دنیا کی طاقتیں برسر پیکار تھیں مگر اس کے باوجود اللہ تعالیٰ کی نظر کرم نے اس کی تکمیل میں نمایاں کردار ادا کیا۔ ایٹمی تجربے سے قبل سیاست دانوں اور عوام کی فکر مندی تو اپنی جگہ پر مگر افواج پاکستان جس کے ہاتھوں میں ملک کی...
پاکستان نے واضح سمت کا انتخاب کرلیا؟
کیا پاکستان نے اپنی فارن پالیسی کی سمت تبدیل کرتے ہوئے ایک واضح سمت کا انتخاب کرلیا ہے؟- پاکستانی دفتر خارجہ نے ان خبروں کی تردید کی ہے کہ پاکستان نے دوٹوک انداز میں چین کے کیمپ میں جانے کا فیصلہ کرلیا ہے اور مزید یہ کہا ہے کہ پاکستان کیمپوں کی سیاست سے دور رہ کر ایک متوازن فارن پالیسی پر عملدرآمد کرتا رہا ہے اور کرتا رہے گا. اس ضمن میں دفترِ خارجہ نے اپنے بیان میں بالخصوص چین اور امریکہ سے اپنے دیرینہ اور اہم تعلقات کا ذکر کیا اور مستقبل میں ان تعلقات کو اسی طرح مستحکم رکھنے کی خواہش کا اظہار بھی کیا۔
سفارتی سطح پر ہم دفترِ خارجہ سے ایسے ہی جواب کی توقع کر سکتے ہیں. تاہم کیا قرائن اس سے مختلف کسی ممکنہ پیش رفت کی طرف اشارہ کرتے ہیں؟ اس سوال کا جواب تلاش کرنے کے لیے ہم پچھلے ایک سال کے حالات پر نظر ڈالتے ہیں. جو خبریں پاکستان کے حوالے سے لگ بھگ پچھلے ایک سال سے گردش کرتی رہی ہیں ان میں پاکستان کے آئی ایم ایف کے ساتھ غیر نتیجہ خیز مذاکرات اور ان کے بے نتیجہ ہونے کے باوجود آئی ایم ایف کی عائد کردہ شرائط کو، قبول کرنے کی بناء پر پاکستانی عوام کی معاشی حالتِ زار اور زبوں حالی سے متعلق خبریں سرِ فہرست ہیں، آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک ایسے بین الاقوامی مالیاتی ادارے ہیں جو مغربی معیشتوں اور بالخصوص امریکہ کے زیر اثر ہیں۔
ماضی میں ہم دیکھ چکے ہیں کہ ان اداروں سے قرضے اور مراعات حاصل کرنے میں پاکستان کو اس بناء پر آسانی میسر تھی کہ پاکستان کو ان مغربی ممالک اور امریکہ کی پشت پناہی بوجوہ حاصل رہی. ان میں سب سے بڑی وجہ افغانستان کے حالات رہے اور دوسری غالباً پاکستان کی جغرافیائی اور عسکری اہمیت رہی ہوگی. افغانستان سے مغرب کا فوجی انخلاء تو ہو چکا، لیکن وہاں کی صورتحال اور وقوع پزیر ہونے والی تبدیلیوں کی نوعیت تو غیر اہم نہیں ہوئی. مزید یہ کہ عسکری اہمیت کے اعتبار سے تو شاید یوکرین جنگ کے تناظر میں پاکستان معاملے کے دونوں فریقین کے لیے اور زیادہ اہم ہوجاتا ہے۔
اس صورتحال میں پاکستان کی اہمیت کا کم ہونا تو بعید از گمان ہے، تاہم مغرب سے کھچاؤ کی بڑی وجوہات میں چین سے پاکستان کی قربت اور سی پیک جیسے منصوبوں پر پیش رفت شامل ہو سکتے ہیں. روس یا ایران سے بہتر ہوتے ہوئے تعلقات تجارتی سرگرمیوں تک محدود ہیں جو مغرب کے لیے شاید اتنے پریشان کن نہ ہوں. ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مغرب اور بالخصوص امریکہ کی جانب سے پاکستان پر دباؤ بڑھانے کے دو مقاصد ہو سکتے ہیں، اوّل یہ کہ ایک کمزور پاکستان بھارت سے اپنے تعلقات بہتر بنانے کے لیے زیادہ آسانی سے رضامند ہوگا، جو بھارت کو چین کے بالمقابل کھڑا کرنے میں معاون ہوگا۔
مزید یہ کہ اقتصادی طور پر کمزور پاکستان کو اپنے دیگر دوستوں سے جن میں چین بھی شامل ہے خاطرخواہ مدد نہ ملنے کی صورت میں امریکہ کی جانب دیکھنا اور اپنی پالیسیوں کو...
میرا وطن جب ایٹمی طاقت بنا
اللہ کے پیغام کا مسکن ہے وطن
ہم جس میں ہیں محفوظ وہ دامن ہے وطن
گہوارۂ اسلام ہے ملک قائد
ہے روح اگر قوم تو پھر تن ہے وطن
یہ جان لینا ضروری ہے کہ ہم نے ایٹمی قوت بننے کی ضرورت کیوں محسوس کی ؟ بھارت جو ہمارا ازلی دشمن ہے اس نے ارض پاک کے وجود کو دل سے تسلیم نہیں کیا۔ وہ اسے نقصان پہنچانے کے لئے موقع کی تلاش میں رہتا ہے۔ اُس کا ایٹمی انرجی کمیشن تو 1946 میں قائم ہو گیا تھا جبکہ پاکستان نے 1971 کے بعد ایٹمی صلاحیت حاصل کرنے کا ارادہ کیا، جب بھارت نے تمام بین الا قوامی قوانین کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اپنی افواج مشرقی پاکستان میں داخل کر دیں اور پاکستان کو دو لخت کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ اس وقت پاکستان کو احساس ہوا کہ دنیا میں اب جسکی لاٹھی اُسکی بھینس والا قانون ہی چلے گا۔
18مئی 1974 کو بھارت نے پاکستان کی سرحد سے محض 93 میل دور راجستھان میں پہلا تجربہ کیا تو ایسے حالات میں مکار و عیار دشمن سے محفوظ رہنے کی خاطر پاکستان نے بھی ایٹم بم کے حصول کے لئے دن رات ایک کر دیا۔ اُس وقت کے وز یر اعظم ذو الفقار علی بھٹو نے جناب منیر احمد خاں کو یہ فریضہ سونپا۔ بعد میں ڈاکٹر عبد القدیر خان کی سربراہی میں کہوٹہ لیبارٹریز کا قیام عمل میں آیا۔ ذوالفقار علی بھٹو کے بعد اقتدار جنرل ضیا الحق کے ہاتھوں میں آیا لیکن ایٹمی پروگرام سرعت کے ساتھ جاری رہا۔ جبکہ 10 دسمبر 1984 کو ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے جنرل ضیا الحق کو لکھا کہ ہم بفضل خدا اس قابل ہوگئے ہیں کہ ایک ہفتے کے نوٹس پر ایٹمی دھما کے کر سکیں۔ لیکن پاکستان نے ایک پرامن ملک ہونے کے ناطے قوت حاصل کر لینے کے باوجو د اس کا اظہار نہیں کیا جبکہ بھارت نے 11مئی1998 کو پوکھران کے مقام پر تین ایٹمی دھماکے کئے۔ پھر دو روز بعد 13 مئی کو مزید دو دھماکے کر دیے۔ توسیع پسندی اور علاقائی بالا دستی پر یقین رکھنے والی بھارتی سرکار کا یہ اقدام خطرے سے خالی نہ تھا۔ دنیا کی چھٹی ایٹمی قوت بننے کے ساتھ ہی بھارتی حکمرانوں کا لب ولہجہ رعونت و تکبر کا مظہر ہو گیا۔ پاکستان کو لائن آف کنٹرول پر بڑے پیمانے پر کاروائی کی دھمکیاں دی جانے لگیں۔ کشمیر کاز کو یکسر بھلا دینے کے مشورے دئیے جانے لگے۔ جبکہ آزاد کشمیر پر بھی قبضہ کرنے کے ارادوں کا اظہار کیا جانے لگا۔ اب یہ ضروری ہو گیا تھا کہ جوابی کاروائی کی جائے اور بتا دیا جائے کہ پاکستان بفضل خدا ایٹمی قوت ہے اور اپنے دفاع کی صلاحیت رکھتا ہے۔ طاقت کے نشے میں سرشار ہو کر ہمیں کمزور سمجھنے کی غلطی کرتے ہوئے ہمارے خلاف جارحیت کا ارادہ بھی نہ کیا جائے۔
پاکستان میں اُس وقت میاں نواز شریف کی حکومت تھی۔ اب مغربی ممالک کا ضمیر بھی جاگ اٹھا جو بھارت کے ایٹمی دھماکوں کے موقع پر سویا ہوا تھا۔ پاکستان کو سمجھایا، بجھایا، لبھایا اور ڈرایا گیا۔ تمام قرضے یک...
طنز و مزاح
کہاں کی بات کہاں نکل گئی
قارئین کا صاحبِ مضمون سے متفق ہونا لازم ہے کیونکہ یہ تحریر اسی مقصد کے لیے لکھی گئی ہے۔ کچھ لوگوں کو نصحیت کرنے کا جان لیوا مرض لاحق ہوتا ہے۔ جہاں کچھ غلط سلط ہوتا دیکھتے ہیں زبان میں کھجلی اور پیٹ میں مروڑ اُٹھنے لگتا ہے ایسا ہم نہیں کہتے ان لوگوں کے پند و نصائح وارشادات سننے والے متاثرین کہتے ہیں۔
اللہ معاف کرے اکثر نوجوانوں کو نصحیت کرنے کے جرم کی پاداش میں ہماری ان گنہگار آنکھوں نے ان بزرگوں کو کئی مرتبہ منہ کی کھاتے دیکھا ہے۔ مگر نہ وہ اپنی روش سے باز آتے ہیں اور نہ ہی کتے کی ٹیڑھی دم سیدھی ہوتی ہے۔ اب قریشی صاحب کی بیوہ کو ہی لے لیجیے عمر دراز کی ستر بہاریں دیکھ چکی ہیں، بیوگی کے پچاس سال گزارنے والی اپنی زندگی سے سخت بیزار ہے۔ شادی کے کچھ عرصے بعد ہی موصوفہ نے اپنے پر پرزے نکالنا شروع کر دئیے تھے۔
دن رات صبح شام وہی گھسا پٹا راگ الاپتی رہتی تھیں تمہارے ماں باپ کی خدمت میں کیوں کروں؟ تمہارے سارے کام میں کیوں کروں؟ میں غلام نہیں ہوں۔ جو تمہاری ہر بات مانوں وغیرہ وغیرہ۔ قریشی صاحب بھلے مانس آدمی تھے شرافت اور منکسر المزاجی ان کی گھٹی میں پڑی ہوئی تھی۔ کان دبائے، نظریں جھکائے بیوی صاحبہ کے فرمودات سنتے اور سر دھنتے رہتے۔ ان کا یہ معصومانہ انداز بیوی صاحبہ کے تن بدن میں آگ لگا دیتا پھر جو گھمسان کی جنگ چھڑتی جس میں بیوی صاحبہ فتح کے جھنڈے گاڑنے کے بعد قریشی صاحب سے اپنے تلوے چٹوا کر انہیں مورد الزام ٹھہراتے ہوئے فرد جرم عائد کر کے سزا سنا دیتیں۔ قید بامشقت کے تیسرے سال ہی قریشی صاحب کے کُل پرزے جواب دے گئے۔
گھر کی مسند صدارت و وزارت پر بیوی صاحبہ براجمان تھیں بیچارے قریشی صاحب کی حیثیت کا قارئین خود اندازہ لگا سکتے ہیں۔ گنے چنے چند سالوں کی رفاقت کے بعد ایک شام قریشی صاحب داعئ اجل کو لبیک کہہ گئے۔ لواحقین میں ایک بیوہ اور پانچ بیٹیاں چھوڑیں۔ ماں کے طور اطوار، رنگ ڈھنگ، چال ڈھال اور انداز کا مہلک زہر اولاد کی نسوں میں اتر چکا تھا۔ اور خربوزے کو دیکھ کر خربوزیاں رنگ پکڑتی چلی گئیں۔ موصوفہ کی کل کائنات بس یہ پانچ بیٹیاں ہیں۔ پانچوں کنورای جو شادی کے نام پر ایسے اچھلتی ہیں جیسے بچھو نے ڈنک مارا ہو۔ قبر میں پیر لٹکائی قریشی صاحب کی بیوہ صبح شام خود کو کوستے رہتی ہیں کہ اس جیسے چاہو جیو کے سلوگن نے ان کی دنیا و آخرت ملیامیٹ کر کے رکھ دی۔ مگر اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔ ہم اگر اپنی روزمرہ زندگی پر نظر دوڑائیں تو کتنی چیزیں ہیں جو کہ ہم غلط سمجھتے ہیں لیکن پھر بھی کرتے ہیں نہ جاننا اتنا سنگین نہیں ہوتا جتنا کہ جان کر حقیقت سے نگاہیں چرانا ہوتا ہے۔ چچ چچ ہم آنکھوں دیکھی مکھی نگلنے کے عادی بنا دیے گئے ہیں۔
2021ء میں گھریلو تشدد کا بل اسمبلی سے منظور کروا کر ہماری نوجوان نسل کو یہ پیغامِ تقویت...
والدین اور بیٹیاں
آج اسکول کی بچیوں کو اظہار خیال کے لیے موضوع دیا تھا کہ " آپ کے ساتھ والدین کیا سلوک ہے" جی بچیوں کے ساتھ والدین کا سلوک
چونکہ اسمبلی کے لیے موضوع نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کی وہ حدیث تھی جس میں آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے بیٹیوں سے نفرت کرنے اور انہیں حقیر جاننے سے منع کیا ہے ،انہیں اللہ تعالیٰ کی رحمت قرار دیا ہے اور ان کی پرورش کرنے والے کو جنت میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ہونے کی بشارت سنائی ہے۔ اس لیے بچیوں کے ساتھ اس حدیث پر تفصیل سے بات ہوئی اور انہیں کل کی اسمبلی میں اس پر بات کرنے کا کہا گیا اور تاکید کی گئی کہ سب طالبات کل اسمبلی میں بتائیں گی کہ انکے والدین انکے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں۔
اب آج وہ اسمبلی منعقد ہوئی اور بچیوں نے اظہار خیال کرنا شروع کیا۔ کسی نے کہا والدین ہمیں پالنے کے لیے ساری قربانیاں دیتے ہیں، کسی نے کہا کہ والدین ہماری سب خواہشات پوری کرتے ہیں، کسی نے کہا وہ ہمیں تہزیب سکھاتے ہیں، کسی نے کہا وہ ہماری اچھی تربیت کرتے ہیں، کسی نے کہا کہ وہ ہمیں کھلاتے پلاتے ہیں ، ایک رائے یہ آئی کہ وہ ہمیں کپڑے خرید کر دیتے ہیں، ایک نے کہا کہ وہ مجھے کوئی کام نہیں کرنے دیتے ایک اور نے کہا کہ صبح آنکھ کھلتی ہے تو ناشتہ تیار ہوتا ہے۔ ایک بات یہ آئی کہ انکا مرکز و محور ہماری پڑھائی ہے ایک اور کہا کہ وہ ہمیں کامیاب دیکھنا چاہتے ہیں۔
اور آخر میں ایک بات ایسی سامنے آئی کہ ہم سب کھلکھلا کے ہنس پڑے حالانکہ اپنے والدین کی ان کوششوں اور محبتوں کو سن کہ ماحول سنجیدہ لگ رہا تھا۔
اس نے کہا " میم ۔ میرے والدین بھی میرے ساتھ بہت اچھا سلوک کرتے ہیں، میری ہر ضرورت پوری کرتے ہیں مگر جب گھر میں چکن بنتا ہے تو leg pieces بھائی کو ملتا ہے۔ " اس معصوم بچی کے اس معصوم تبصرے پر ہم مسکرائے بغیر نہ رہ سکے ۔
تو تمام والدین سے گزارش ہے کہ ہمیں پتہ ہے آپ نے اپنی بیٹیوں کو شہزادیوں کے جیسا پالا ہے اور گڑیوں کے جیسا لاڈلا رکھا ہے مگر جب چکن خریدیں تو leg pieces زیادہ ڈلوا لیا کریں۔
زندگی بدل گئی !
شوہر اچھا ہو بیوی بچوں کا خیال رکھتا ہو تو زندگی پرسکون ہوجاتی ہے مگر یہاں تو زبردستی نوکری پر بھیجو پھر خود بازار جاٶ ضرورت کا سارا سامان خود اٹھاٶ پھر گھر کی صفائی، کھانا بنانا، بچوں کو اسکول چھوڑنا اور لانا سارا دن اسی میں گزر جاتا ہے یہاں تک کے امّی سے بات تک کرنے کا ٹائم نہیں ملتا مہینوں گزر جاتے ہیں امّی سے ملاقات ہوئے۔
فائزہ نے دکھوں کا قصہ سنا کر سکون کا سانس لیا تو میں نے بھی تسلی دی اللہ آسانی کرے تمھارے لیئے۔آج پھر کئی مہینوں بعد فائزہ سے ملاقات ہوئی تو پتہ چلا وہ گھر خالی کر کے دوسرے محلے میں چلی گئی ہے کرائے داروں کے لیۓ یہی پریشانی ہے اللہ سب کو اپنا گھر نصیب کرے۔ فائزہ بڑی خوش اورپہلے سے بہت اچھی لگ رہی تھی خوش ہوکر بتانے لگی۔ میرے شوہر تو جی ایسے فرمابردار ہوئے ہیں کے بس پوچھو مت۔ ویسے میں نے پوچھا نہیں تھا پر فائزہ بتاۓ بغیر کہاں رہتی۔
خوشی خوشی بتانے لگی صبح وقت سے پہلے نوکری پر چلے جاتے ہیں ساتھ بچوں کو بھی اسکول چھوڑ دیتے ہیں گھر کی ساری ذمہ داری خود لے لی ہے میں تو بس اب گھر میں رہتی ہوں اور اتنے محنتی ہوگۓ ہیں کے رات رات بھر گھر نہیں آتے یہاں تک کے کئی کئی دن کام کے سلسلے میں شہر سے باہر رہتے ہیں اور میں اپنی امّی کے گھر آرام کرنے چلی جاتی ہوں رزق میں ایسی برکت ہے کہ کبھی کبھی ہر چیز ڈبل آجاتی ہے پچھلے ہفتے دو سینڈل بلکل ایک جیسی لے آۓ بس ایک نمبر چھوٹی تھی پھر وہ تبدیل کرنی پڑی۔ کبھی راشن میں بھی چیزیں ڈبل ہوجاتی ہیں بس اللہ کا کرم ہے۔ میں تو کونے والی نورن دادی کو دعائيں دیتی ہوں۔ یہ سب ان ہی کی وجہ سے ہوا ہے۔ انھوں نے مسجد کے مولوی صاحب کا پتہ دیا تھا۔ مولوی صاحب نے ایک وظیفہ بتایا تھا پڑھنے کو وہ بھی تہجد میں بس پھر کیا تھا میری تو قسمت ہی پلٹ گئی۔ زندگی آسان ہوگئی ہے۔
مجھے بڑی حیرانی ہوئی کہ ایک وظیفے سے قسمت بدل گئی بھئی یہ کونسا وظیفہ ہے چلو چھوڑو۔مگر فائزہ کہا مانتی بتائے بغیر۔ عربی کے چند الفاظ بڑے ادب سے سنائے اور چہرے پر ہاتھ پھیر کر تین بار آمین آمین آمین کہا۔ بس یہ وظیفہ پڑھ لو شوہر آپ کے قدموں میں اور ہاں کسی اور کو بھی بتا دیں اگر کوئی پریشان ہو تو کسی کا بھلا ہو جائے اچھی بات ہے۔ میرا نمبر بھی لے لیا اور پھر فائزہ مسکراتی ہوئی گھر روانہ ہو گئی۔
ہفتے بعد ہی ایک انجان نمبر سے فون آیا۔ ریسو کرنے پر فائزہ نے سلام دعا کی اور زور زور سے روتے ہوئے کہنے لگی میں تو لوٹ گئی بر باد ہوگئی بس بہن میرا شوہر تو ہاتھ سے نکل گیا پتہ نہیں کیا کمی تھی مجھ میں جو دوسری شادی کر لی اللہ ہی سمجھے گا ایسی عورتوں کو جو شادی شدہ بچوں والے مردوں سے شادی کر لیتی ہیں۔ میں...
بن بُلائے مہمان ! بَلائے جان
بن بلائے مہمان وہ بھی چپک جانے والے ایک دو دن سے زیادہ برداشت نہیں ہوتے اور اگر زیادہ ہی رک جائیں تو سارے گھر کو ہی تکلیف اور نقصان پہنچاتے ہیں اور سارے ہی لوگ ان سے کنّی کترا کر گزرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ یہ ہمارے ساتھ ہی نہ چپک جائیں۔
ایسا ہی معاملہ ہم لوگوں کے ساتھ ہوا ہے پہلے تو اس خطرناک اماں نے اپنی اولاد کو بھیج دیا وہ ملک ملک گھوما اور یہیں ڈیرا ڈال لیا۔نہ جانے کیا کیا تباہ و برباد کیا اور یہ حضرت انسان بے بس اور بے کس منہ چھپائے گھومتا رہا حتی کہ اپنے بیماروں مجبور پیاروں سے ملنے اور ان کی تیمارداری سے بھی محروم رہا کچھ وقت گزرنے کے بعد جب اس نے دیکھا کہ ماحول ٹھنڈا ہوگیا ہے لوگ سکون میں ہیں تقریبات عروج پر ہیں اسکول، مساجد اور پارک بھرے ہوئے ہیں تو اس نے ناک بھوں چڑھایا اور سوچا ! یہ میری اولاد تو ٹھنڈی ہوتی جا رہی ہے برسوں محنت کی ہے میں نے اس پر اسے اتنی جلدی ہار نہیں ماننا چاہیے۔ اب مجھے ہی کچھ کرنا ہوگا تو لیجئے جناب پورے جوش اور بھرپور شیطانیت کے ساتھ کرونا کی امی جان اُُمِ کرونا (امیکرون) تباہ حال لوگوں کو اور تباہ کرنے دنیا میں انسانوں پر آدھمکی۔
کتنے دور اندیش تھے وہ لوگ جنہوں نے چاند پر پلاٹ بک کروائے تھے گوگل سرچ کرکے دیکھتے ہیں، تب پتہ چلے گا کہ وہ لوگ کرونا سے بچنے کے لیے چاند پر پہنچ گئے یا اس سے بھی کہیں آگے عالم برزخ پہنچ گئے۔
ہمارے گھر میں تین افراد پر اٌمِ کرونا فدا ہوگئی ہیں ہماری امی جان، بھیا اور آپی پر۔ان تینوں نے قرنطینہ کے نام پر ایک ایک کمرے پر قبضہ جما لیا ہے ابّا جان تو امی کے کمرے کے دروازے کے قدموں میں ہی پلنگ ڈالے پڑے ہیں اور ہم نے لاؤنج میں صوفے پر ڈیرہ جما لیا ہے البتہ ماسی خوش نظر ارہی ہے کہ تینوں کمروں کی صفائی سے جان بخشی ہوئی ہے۔
ویڈیو کال اور فون کال پر ہی سب رشتے داروں نے مزاج پرسی اور تیمارداری کرکے اپنا فرض نبھایا کیونکہ ہم سب مجبور ہیں ایک ان دیکھے وائرس سے۔سلائی والی آنٹی نے جب نئے سلے ہوئے سوٹ ہمیں بھجوائے تو اس کے ساتھ سوٹ کے کپڑے کے ماسک بھی بنے ہوئے رکھے تھے۔ سلائی والی آنٹی کو فون کرنے پر پتہ چلا کہ یہی فیشن چل رہا ہے، انہوں نے ایک آفر بھی دی کے ہم فینسی ماسک بھی بناتے ہیں ستارے موتیوں اور کڑھائی والے ان کا بھی پیکج ہے جو پیکج آپ لینا پسند کریں۔
نہ جانے کتنے ابہام ذہن میں گردش کر رہے ہیں۔ابھی تو ہم ڈر کے مارے اس قابل بھی نہیں ہوئے کی واٹس ایپ یا فیس بک پر اپنا اسٹیٹس لگائیں۔
I am vaccinated
کیوں کہ ابھی تو ہم اکّڑ بکّڑ ہی کر رہے تھے کہ چائنا کی ویکسین لگوائیں، کینیڈا کی یا پاکستانی کے اچانک، اْمِ کرونا سے پہلے بوسٹر بھی آٹپکا۔سوچ رہے ہیں ڈائریکٹ بوسٹر ہی لگوا لیں۔
یہ بلائے ناگہانی ہے بس...
ٹک ٹاک ایک نشہ
ٹک ٹاک مختصر ویڈیو کی ایسی ایپ ہے جس میں وہی ویڈیو چلتی ہے جو ’’مختصر‘‘ ہو۔بس ایک ویڈیو وائرل ہونے کی دیر ہے پھر آپ ایک ہی رات میں ہیرو بن گئے۔گویاٹک ٹاک سوشل میڈیا کا ایک ایسا پلیٹ فارم ہے جس میں وہی ویڈیو وائرل ہوتی ہے جس میں سب کچھ’’ پلیٹ‘‘میں رکھ کر پیش کیا جائے۔بلکہ نوجوان نسل تو وائرل ہونے کے لئے ایسی اشیاء بھی ’’پیش‘‘ کر دیتی ہیں جن کا پیش نہیں ’’زیر‘‘میں ہونا ہی معیاری،مناسب اور اخلاقی ہوتا ہے۔مگرچائنہ والوں کو کون سمجھائے کہ جس لباس کو ہم پاکستانی اعلیٰ اخلاقی اقدار سے گرا ہوا سمجھتے ہیں ان کے ہاں وہ لباس اعلی اقدار کا حامل سمجھا جاتا ہے۔بلکہ یوں کہنا مناسب ہوگا کہ لباس کا صرف سرا ہی نظر آتا ہو تو اسے اخلاقی لباس سمجھا جاتا ہے۔چائنہ اور یورپ میں تو اسی کی زیبائش مناسب ہوتی ہے جس کی ’’نمائش ‘‘زیادہ ہو۔ ان کے سامنے تو بھاری بھر کم فراک،غرارہ و شرارہ زیب تن کر کے جائیں تو وہ حیران ششدر رہ جاتے ہیں کہ ان کا ناتواں جسم ایسا لباس ’’کیری‘‘ کرتاکیسے ہے۔شائد اسی وجہ سی چینی اور یورپی خواتین وہی لباس زیب تن کرتی ہیں جو ہمیں زیب نہ دیتا ہو۔
میں نے اپنے انتہائی معصوم و سادہ دوست شاہ جی سے ایک معصومانہ سوال کیا کہ مرشد ٹک ٹاک پر کیسے وائرل ہوا جاتا ہے۔شاہ جی نے شانِ بے نیازی (بے نیازی کو کسی نیازی سے نہ ملایا جائے )اور لاپروائی سے جواب دیا کہ فی زمانہ ٹک ٹاک ہی نہیں ہر جگہ وائرل ہونے کا ایک فارمولہ ہے۔میں نے متجسسانہ انداز میں پوچھا کہ مرشد وہ کیا۔فرمانے لگے۔’’جو دکھتی ہے وہ بکتی ہے‘‘یعنی جو دکھتا ہے وہی بکتا ہے۔شاہ جی کے جواب پر سوال در سوال ذہن میں کود آیا کہ کیا اس فارمولہ کا اطلاق صنف نازک(جسے میں ہمیشہ صنف آہن کہتا ہوں)پر ہی ہوتا ہے یا صنف معکوس بھی اس زد میں آتے ہیں۔کہنے لگے فارمولہ تو وہی ہے بس الفاظ کے چنائو کو بدلنا ہوگا،یعنی۔۔۔۔۔یعنی مرد حضرات کے لئے الفاظ بدل کر ایسے ہو جائیں گے کہ ’’جو بَکتا ہے وہ بِکتا ہے‘‘
چین نے جب ٹک ٹاک ایپ متعارف کروائی تو اس کا مقصد سیلیکون شہر میں بیٹھ کر ایسی مختصر مدتی ،مختصر ویڈیو،مختصر لباس میں بنا کر پیش کرنا تھاکہ جو اپلوڈ ہوتے ہی وائرل ہو جائے،اور ایسا ہی ہوتا تھا۔اس لئے ہماری نوجوان نسل بھی چین کے نقش پا پر اپنے قدم جمائے ویسی ہی مختصر ویڈیو بناتے ہیں جو وائرل ہو جائے۔مجھے حیرت یہ نہیں کہ آج کی نسل سستی شہرت کے لئے ایسا کیوں کرتی ہے۔پریشانی یہ ہے کہ انہیں شہرت مل بھی جاتی ہے۔اب تو ٹک ٹاک بھی ایک حمام سا ہی دکھائی دیتا ہے ،وہ جس کے بارے میں اکثر سیاستدان بیان بازی کیا کرتے ہیں کہ اس حمام میں سبھی ننگے ہیں۔اب تو ٹک ٹاک دیکھ کر بھی لگتا ہے کہ اس حمام میں بھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ویڈیو وائرل ہونے کے بارے میں ایک دوست کی بات یاد آگئی ،اس نے ایک دن مجھ سے پوچھا کہ یار ابھی تک...