برسات کی کہانی

گرمی کےدنوں میں بارش کا موسم کسے اچھا نہیں لگتا۔ سارہ کو بھی ایسا لگا کہ کل کی بارش نے جیسے اس کے اندر بجلی سی بھر دی ہو۔ آج یونیورسٹی جانے کے لئے امی نے اسے ابھی اٹھایا بھی نہیں تھا اور وہ خود ہی تیار ہو کرکمرے سے باہر آگئی۔ دل میں سوچا کہ آج بس میں جانے کے بجائے بھائی کے ساتھ گاڑی میں چلی جائے گی۔ بارش کے بعد راستے میں کھڑے پانی اور کیچڑ کا تصور کر کے وہ اپنا موڈ خراب نہیں کرنا چاہتی تھی۔
امی اسے اتنے جلدی تیار دیکھ کر حیران ہوئیں۔
میں تو سمجھی کہ آج تم چھٹی کروگی، رات اتنی بارش ہوئی ہے اور بادلوں کا رنگ بتا رہا ہے کہ ابھی مزید بارش ہو سکتی ہے۔ آج چھٹی کر لو۔ امی نےجلدی جلدی ناشتہ بناتے ہوئے کہا۔
نہیں امی آج چھٹی نہیں کر سکتی۔آج بہت اہم ٹیسٹ ہے جس کے مارکس سیمسٹر امتحان میں شامل کئے جائیں گے۔ اس نے بہانہ بنایا
رات ہی تو واٹس ایپ گروپ پہ دوستوں کے ساتھ پلان کیا تھا کہ آج کوئی کلاس نہیں لینی، صرف موسم کو انجوائے کرناہے۔ یوں بھی بارش کا موسم یونیورسٹی کے ماحول کو خوبصورت بنا دیتا ہے اور دوستوں کے ساتھ لابی میں بھاگنا دوڑنا، کیفے ٹیریا کی چائے، سموسے زندگی کی سب سے بڑی خوشی لگتے ہیں۔کراچی میں تو یوں بھی بارش کا موسم تھوڑے دنوں کے لئے ہی آتا ہے۔
ارے یونیورسٹی والوں کو معلوم نہیں کہ کیسی بارش ہو رہی ہے۔ بچے کیسے پہنچیں گے۔ کوئی ضرورت نہیں ایسے موسم میں نکلنے کی۔ راستے میں بس خراب ہو گئی تو کیا کروگی۔ امی نے بدستور کام میں مصروف رہتے ہوئے فیصلہ سنادیا۔
او ہو امی اسی لیے تو میں جلدی تیار ہو گئی کہ فراز بھائی کے ساتھ گاڑی میں چلی جاؤں گی۔ وہ فیکٹری جاتے ہوئے مجھے یونیورسٹی ڈراپ کر دیں گے۔” اس نے میز پر امی کے ساتھ ناشتہ لگاتے ہوئے آسانی سے حل بتا دیا۔
کون کس کو کہاں ڈراپ کر رہا ہے؟ فراز نے ناشتہ کے لیے تیزی سے میز کی طرف آتے ہوئے پوچھا۔
میرے پیارے بھائی آج مجھے فیکٹری جاتے ہوئے یونیورسٹی ڈراپ کر رہے ہیں۔ سارہ نے شوخی سے جواب دیا۔
نہیں بھئی تمہارے پیارے بھائی تمہیں آج ڈراپ نہیں کر سکتے۔ مجھے فیکٹری جلدی پہنچنا ہے۔ فیکٹری میں پانی بھر گیا ہے۔جلدی پہنچ کر حالات کا جائزہ لینا ہے، کچھ مزدور بھی فیکٹری میں رک گئے ہیں، بارش کی وجہ سے گھر نہیں جا سکے۔ان کے بھی گھر جانے کا بندوبست کرنا ہے۔تیار مال کی حفاظت کا بندوبست کرنا ہے ورنہ خاصا نقصان ہو جائے گا۔ فراز نے ناشتہ کرتے ہوئے سنجیدگی سے جواب دیا۔ اور تمہیں اس موسم میں نکلنے کی کیا ضرورت ہے ۔ آرام سے گھر میں بیٹھو، امی سے چائے پکوڑے کی فرمائش کرو، موسم کو انجوائے کرو۔
اوہو آپ سمجھتے کیوں نہیں ہیں بھائی؟ میرا جانا بھی بہت ضروری ہے۔ بہت اہم ٹیسٹ ہے میرا۔ سارہ نے پلان خراب ہوتے دیکھ کر بھائی سے ضد کی۔
ارے سب اسٹوڈنٹس پہنچیں گے تو ٹیسٹ ہوگا ناں۔
میں تو خود اسے یہی سمجھا رہی ہوں۔ امی بولیں۔
اب دیکھو مجھے دیر ہو رہی ہے۔ اللہ حافظ ! امی آپ بھی دعا کیجیے گا کہ فیکٹری میں سب خیریت ہو۔ فراز نے نکلتے ہوئے کہا۔
امی نے دعا دی جاؤ بیٹا اللہ تمہیں اپنی حفظ و امان میں لے جائے۔
سارہ ناشتے کی میز پر منہ بسورے بیٹھی رہ گئی۔
اب اٹھ ہی گئی ہو تو ناشتہ بھی کر لو۔  امی نے کہا۔
مجھے نہیں کرنا ناشتہ، میں دوبارہ سونے جا رہی ہوں۔  سارہ نے ناشتہ کی میز سے اٹھتے ہوئے کہا۔
آج ہماری بیٹی گھر پر ہے۔ چلو آج اکٹھے ناشتہ کرنے کا موقع مل گیا۔  عرفان صاحب نے کمرے سے نکلتے ہوئے کہا۔
سارہ نے ابو کو دیکھا تو دوبارہ ناشتہ کی میز پر بیٹھ گئی۔
عرفان صاحب کے دو بچے تھے۔ سارہ یونیورسٹی میں پڑھ رہی تھی جبکہ فراز نے کم عمری سے گھر کی ذمہ داریاں سنبھال لیں تھیں۔ عرفان صاحب کا ملازمت کے دوران ہی، جب فراز زیرِ تعلیم تھا، بہت برا ایکسیڈنٹ ہو گیا تھا جس کے بعد سے ان کی صحت بہت خراب رہنے لگی اور ملازمت جاری رکھنا ممکن نہ ہو سکا۔
ملازمت سے فارغ ہونے پر جو رقم ملی اس سے انہوں نے ایک چھوٹی سی فیکٹری کھول لی جس کی زیادہ تر ذمہ داریاں فراز نے سنبھال لیں۔ فراز بہت محنتی اور ذمہ دار تھا۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد اس نے مکمل طور پر فیکٹری کا انتظام سنبھال لیا اور ابو اب صرف مشاورت کی حد تک اس کے ساتھ تھے۔
ناشتہ کے دوران امی اور ابو کے ساتھ ہلکی پھلکی بات چیت کے دوران سارہ صبح کا واقعہ بھول گئی۔ تھوڑی دیر بعد ابو نے فراز کی خیریت معلوم کرنے کے لیے فون کیا تو پتہ چلا کہ بارش کے بعد فیکٹری کی صورتحال بہت خراب ہے۔ اچھا خاصا مال بارش کے پانی میں خراب ہو گیا ہے۔ عرفان صاحب نے فراز کو تسلی دی اور مزدوروں کو بحفاظت گھر پہنچانے کی تاکید بھی کی۔ خود اسے بھی جلدی گھر آنے کا کہا کیونکہ بادل اب بھی برسنے کو تیار تھے۔
عرفان صاحب کی بیگم گفتگو سے اندازہ لگا چکی تھیں کہ بیٹے کا فون ہے۔ فکر مندی سے قریب آکر بیٹھ گئیں۔ عرفان صاحب کے فون رکھتے ہی سوالات کی بوچھاڑ کر دی۔
کیا کہہ رہا تھا؟ خیریت سے پہنچ گیا ؟
راستے میں بہت پانی کھڑا ہوگا۔ فیکٹری میں کیا صورتحال تھی؟ کوئی بڑا نقصان تو نہیں ہوا ؟
عرفان صاحب نے کرسی پر بیٹھتے ہوئے ماں اور بیٹی کا متفکر چہرہ دیکھا تو ہلکے سے مسکرائے۔
جب سارا شہر ہی ڈوب رہا ہے تو اسے راستے میں پانی کھڑا نہیں ملا ہو گا؟ ویسے خیریت سے پہنچ گیا ہے۔ تھوڑا بہت نقصان تو ہوا ہے مال کا مگر شکر کرو کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔ بتا رہا تھا کہ برابر والی فیکٹری کی ایک دیوار گر گئی ہے۔ پانی کا بہاؤ بہت تیز تھا۔
مزدوروں کو گھر بھیج کر وہ خود بھی تھوڑی دیر میں نکل آئے گا۔ دو دن کے لیے کام بند کر دیا ہے کیونکہ اگلے دو دن اور بارش کا خطرہ موجود ہے۔”
سارہ نے حیرت سے انہیں دیکھا۔
ابو آپ بارش کو خطرہ کہہ رہے ہیں۔ بارش سے زیادہ حسین موسم کوئی ہو سکتا ہے، دیکھیے فضا کیسی صاف ہو گئی ہے۔ پودے درخت کیسے نکھر گئے ہیں۔ گلی کے سارے گھر دھل دھلا کے کیسے خوبصورت لگ رہے ہیں۔” اس نے کھڑے ہوتے ہوئے کہا۔
ابو اس کی بات پر ہنس پڑے جبکہ امی نے اسے گھور کے دیکھا۔
جب گھر سے نکل کر باہر جاؤ گی تو پتہ چلے گا۔ نالوں کے پانی میں پاؤں ڈال کر، بجلی کے کھمبوں سے بچ کر چلتے ہوئے، ٹوٹی سڑکوں اور بارش سے ڈوبے راستوں میں گڑھے تلاش کرتے ہوئے چلو گی تو منظر کا حسن دوبالا ہو جائے گا۔
ارے اسے کیوں سنا رہی ہو۔ اس کی بات بالکل ٹھیک ہے۔ بارش تو رحمت ہوتی ہے۔ اسے زحمت تو ہم انسانوں نے بنا دیا ہے۔  ابو نے اس کی سائڈ لی۔
سارہ منہ بسور کر موبائل لے کر بیٹھ گئی جہاں اس کی دوستوں نے واٹس ایپ پر فوٹوز اور میسجز بھیجے تھے۔ ان کے گھر کے باہر اتنا پانی کھڑا ہے۔ پبلک ٹرانسپورٹ بالکل نہیں۔ نالے ابل کر روڈ پر آگئے۔لوگ گھر میں محصور۔ کسی کے گھر کی بیرونی حصے میں خاصا پانی جمع ہے۔ ان میں سے کوئی بھی یونیورسٹی نہیں جا سکی تھی۔کرنٹ لگنےاور نالوں میں بہہ کر اموات کی خبریں۔سارہ کے گھر کے سامنے بھی پانی کھڑا تھا لیکن اسے اندازہ نہ تھا کہ سارا شہر ہی بری صورتحال کا شکار ہے۔
ابو! ہمارے رشتہ دار جو پاکستان سے باہر رہتے ہیں اور جو اسلام آباد میں بھی رہتے ہیں، ان کے پاس تو بارش کے بعد ایسی صورتحال نہیں ہوتی۔ ہمارا شہر ایسا کیوں ہو جاتا ہے؟  سارہ نے ابو کے پاس بیٹھتے ہوئے کہا۔
ابو نے ٹھنڈی سانس بھری اور کہا، ہمارا شہر بھی بارش کے بعد نکھر سکتا ہے اگر ہم بارش کا موسم آنے سے پہلے نالوں کی صفائی کر لیں۔ شہر کے اطراف میں مزید ڈیم بنا لیں۔ سڑکوں کی مرمت کروا لیں اور پانی کی نکاسی کے لئے سڑکوں کے کنارے نالیوں کا انتظام کر لیں۔
ابو یہ سب تو بڑے کام ہیں۔ محلے کے لوگ مل کر بھی یہ نہیں کر سکتے۔ اس کے لیے تو شہر کا پورا سسٹم دوبارہ سے بنانا پڑے گا۔ سارہ نے کہا۔
ہاں بیٹا اس کے لیے محکمے ہیں جو یہ سب کام بہت آرام سے کر سکتے ہیں۔
تو محکمے یہ کام کیوں نہیں کرتے؟ سارہ نے پوچھا۔
اس لیے کہ ان محکموں کی نگرانی کرنے والے ان کی جواب دہی نہیں کرتے۔ اگر کام کرنے والے اور نگرانی کرنے والے ایماندار، مخلص اور اپنی ذمہ داریوں کو وقت پر ادا کرنے والے ہوں تو بدترین نظام کو بھی درست کیا جا سکتا ہے۔ ابو نے بتایا۔
ان حالات کو درست کرنے کے لیے ہم کیا کر سکتے ہیں؟ سارہ نے ایک اور سوال کیا۔
ہم یہ کر سکتے ہیں کہ اپنے درمیان سے ان لوگوں کو منتخب کر کے اپنا نمائندہ بنائیں جو دیانتداری، اخلاص اور حب الوطنی کے جذبے سے سر شار ہوں۔”
اللہ کی مخلوق میں خیر بانٹیں، ان کو اذیت دینے کا سبب نہ بنیں۔ امی نے ابو کی بات میں اضافہ کیا۔
سارہ نے تائید میں گردن ہلائی۔
اتنے میں ہارن کی آواز آئی۔ فراز گھر آگیا تھا۔ امی دروازہ کھولنے تیزی سے آگے بڑھیں۔ سارہ نے کچن کا رخ کیا تاکہ بھائی کے لیے اچھی سی چائے بنائے۔ وہ یہ سوچ رہی تھی کہ مخلص اور دیانتدار قیادت ہی حالات کو بدلنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔