کہیں خشک سالی تو کہیں پانی ہی پانی

کرۂ ارض میں خشک سالی

پاک میں پانی تو بد حالی

یورپ امریکہ افریقہ سمیت ایشیاء کے کئی ممالک میں بد ترین خشک سالی ایران میں جھیلوں کا سکڑنا بھارت میں معمول سے پچاس فیصد کم بارش ہونا فرانس ہالینڈ کیلی فورنیا سمیت امریکا یورپ کی ریاستوں میں انتظامیہ کی جانب سے گاڑی دھونے لان میں پانی دینے سے روک دینا اقوام متحدہ کا آئندہ سالوں میں خشک سالی کے باعث بڑی تعداد میں لوگوں کی نقل مکانی کا عندیہ دینا اس کے بر عکس پاکستان میں بارشوں کا معمول سے چند فیصد زیادہ ھونا کیا ھمارے لئے آفت ھے؟

گزشتہ ماہ پہلے چولستان، بلوچستان میں پینے کے صاف پانی کی کمی کے باعث چہرے پر خشکی لئے افراد چیخ چیخ کر پینے کا صاف پانی مانگ رہے تھے پیاس بجھانے کی آس لئے کئی انسانی جان اور مویشی موت کے منہ میں چلے گئے اور جب باران رحمت اپنی پوری آب و تاب سے برسا تو سندھ، بلوچستان خیبر تا پنجاب کی عوام چیخ اٹھی۔

جب کہ حکمرانوں کی ہوس اقتدار تو چور تو چور جیسے جملوں کے تبادلے ہوئے انتظامیہ کو شدید بارشوں کی وارننگ ملنے پر آرام دہ کرسیوں پر بیٹھ کر اطمینان سے چائے کی چسکی لیتے ہوئےباران رحمت کو باعث زحمت کا لباس اوڑھا دیا پھر اپنی نا اہلی سطحی سوچ کا عملی مظاہرہ کرتے ہوئے ایک صاحب اختیار موصوف کا یہ کہنا کہ اللہ تعالیٰ کا ہم پر ہمارے گناہوں کا عذاب ہے اس بیان سے پہلے عوام الناس صرف مصیبت پریشانی میں مبتلا تھی اب خوف خدا نے بھی آگھیرا ویسے موصوف کا بیان کچھ غلط بھی نہیں تھا۔

ہاں گناہ ہیں !

ھمارے حکمرانوں کا خود کو فری بجلی دے کرعام عوام کو مہنگی بجلی فراہم کرکے بجلی کی چوری پر اکسانا،

ہاں گناہ ہیں !

حکومت کا تاجر اشرافیہ کی ملی بھگت سے سرکاری گوداموں کو گندم سے لیس کرکے آٹے کا مصنوعی بحران تشکیل دے کر عام عوام کو آٹا مہنگی قیمتوں میں دے کر چوری ڈاکہ زنی پر مجبور کرنا۔

ہاں گناہ ہیں !

ہماری ملٹری ہو یا سول بیورو کریسی عوام کے جائز کاموں کیلئے بھی رشوت وصول کرنا ہاں گناہ ہیں ہمارے حزب اختلاف یا حزب اقتدار بیورو کریسی یا سول لوٹا کریسی کی امراعات کے نام پر عیاشیوں رنگینیوں کے لئے عوام الناس پر نا جائز محصولات لگا کر حلال و حرام میں تمیز کرنے والے افراد کو بھی حرام کھانے پر مجبور کرنا ہاں ہمارے گناہ ہیں۔

ان سارے گناہوں کا ذمہ دار صرف حکمرانوں کو نہیں ٹھہراتا بلکہ اسلامی تمدن سے خالی معاشرے کا حصہ ہونے پر نا چاہتے ہوئے میں یہ ذمہ داری خود بھی قبول کرتا ہوں۔

موضوع سے جان چھڑانا میری عادت رہی اب جاپان کو لیجئے وہاں سیلاب و زلزلے آنا ہر سال کا معمول ھے لیکن انتظامیہ کی بہترین مینجمنٹ اور لاجواب حکمتِ عملی بروقت اقدامات کے باعث وہاں نقصانات کا تناسب پاکستان میں حالیہ سیلاب، بارشوں سے نقصانات کا ایک فیصد سے بھی کم ہوتا ھے۔ وہاں تقریباً چھوٹی بڑی عمارتیں ارتھ کوئک ہوتی ہے اور ایک ہماری انتظامیہ ہے جو دریا کنارے پانچ سے زائد منزلہ عمارت کا اپروول بنا کسی حجت کے جاری کر دیتے ہیں دریاؤں کے اوپر ڈیمز بنانا کہا کی عقل مندی ہے ڈیمز چھوٹے سیلاب کو تو کنٹرول کر لیتے ہیں لیکن بڑے سیلاب کے ساتھ ڈیمز الٹا مل کر تباہی مچاتے ہیں۔

دریاؤں کو راستہ دیں ان کے رقبے پر قابض نہ ہوں ہمارا المیہ یہ کہ ہمارے سسٹم کو ری سائیکل کیا جاتا ہے ری فریش نہیں ہم آج تک سو سال پرانا نکاسی کا نظام استعمال کر رہے ہیں ہم اپنے چھوٹے بڑے کاروباری شہروں کو سیوریج کا سسٹم تک نہیں دے سکے اگر اس بار بھی حکومت نے چند ہزار دے کر جان چھڑائی تو اگلی بار اپنے کپڑے بیچ کر بھی جان چھڑانا مشکل ہوجائے گا۔

کیا ان این ڈی ایم اے جیسے اداروں کو اموات کی تعداد اور نقصانات کا تخمینہ لگانے کے لئے رکھا ہے لاکھوں کیوسک پانی کی کیپسیٹی رکھنے والے دریا کا چند لاکھ کیوسک پانی پر اوور فلو ہونا انتظامیہ کی غفلت کا منہ بولتا ثبوت ہے ان اداروں کو کرپٹ لوگوں کی صفائی سے تو پرہیز تھا اب دریاؤں کی صفائی کرنے سے بھی لقوہ پڑ جاتا ہے بپھرتے دریاؤں کی بے رحم موجوں کے آگے ناقص مٹی کے بند باندھنا ایسا ہی جیسے کبوتر آنکھیں بند کرکے سمجھتا ہے کہ خطرہ ٹل گیا۔

اگر انتظامیہ اب بھی غفلت کی نیند سے بیدار نہ ہوئی تو وہ دن دور نہیں جب پورا ملک غریبوں کے وینس کا منظر پیش کرے گا ایسے وینس کا منظر سوچ کر ہی کانپیں ٹانگ جاتی ہے آخر ہم کب تک ڈیموں کا پیسہ خیموں پر خرچ کرتے رہیں گے۔

نہیں اٹھنابغاوت کو،

تومر جاؤ کہیں جاکر۔

یہ سہنا روز کی ذلت،

یہ جینا روز گھبرا کر۔

جو بزدل رہ کر زندہ ہوں،

مقدر انکا سوتا ہے۔

ہم اس کے مستحق ہیں جو،

ہمارے ساتھ ہوتا ہے۔